وہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیں


AFPوانونو یروشلم سے تقریباً 150 کلومیٹر جنوب میں صحرائے نیگیو میں واقع خفیہ دیمونا جوہری تحقیقی مرکز میں کام کر چکے تھےاسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے گزشتہ ہفتے ہونے والے حملوں کے بعد ’ایران کے ہتھیاروں کے پروگرام کے مرکز پر حملہ کیا‘ جس سے ان کے ملک کے جنگی مقاصد کے بارے میں کوئی شک باقی نہیں رہا۔ایران کا موقف ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن نوعیت کا ہے لیکن اسرائیل طویل عرصے سے اس پر خفیہ طور پر جوہری ہتھیار تیار کرنے کا الزام عائد کرتا رہا ہے۔اس کے برعکس اسرائیل نہ تو سرکاری طور پر جوہری ہتھیار رکھنے کا اعتراف کرتا ہے اور نہ ہی اس سے انکار کرتا ہے لیکن بین الاقوامی دُنیا کا ماننا ہے کہ اس کے پاس ایسے ہتھیار موجود ہیں۔اس بات کو موردیچائی وانونو نامی شخص سے منسوب کیا جاتا ہے جن کے بیانات اسرائیل کی جوہری طاقت بننے کی خفیہ کوششوں پر پردہ اٹھانے کے لیے کافی تھے۔اس شخص نے ان تفصیلات کو ظاہر کرنے کے لیے اپنی آزادی داؤ پر لگا دی اور تقریباً دو دہائیاں جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارے۔اکتوبر 1986 میں سنڈے ٹائمز نے برطانوی صحافت کی تاریخ میں ایک اہم تحقیقاتی مضمون شائع کیا، جس کا عنوان تھا ’راز افشا: اسرائیل کا جوہری اسلحہ۔‘Reutersوانونو کو اسرائیل میں غدار کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن ان کے حامی انھیں ’امن کا ہیرو‘ قرار دیتے ہیںاس معلومات کا منبع اسرائیلی نیوکلیئر ٹیکنیشن موردیچائی وانونو تھے، جن کے بیانات نے اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں شکوک و شبہات کی تصدیق کی، جس سے ہتھیاروں کے پروگرام کی موجودگی کی نشاندہی ہوتی ہے۔وانونو اس سے قبل یروشلم سے تقریباً 150 کلومیٹر جنوب میں صحرائے نیگیو میں واقع خفیہ دیمونا جوہری تحقیقی مرکز میں کام کر چکے تھے۔اخبار نے اپنی تحقیقاتی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل دنیا کی چھٹی سب سے بڑی جوہری طاقت بن گیا ہے، جس کے پاس تقریباً 200 جوہری ہتھیار ہیں۔اخبار کے ایک تحقیقی رپورٹر پیٹر ہونام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہم تناؤ اور تھکاوٹ کی حالت میں تھے۔ وہاں موجود زیادہ تر ساتھیوں نے کبھی اتنی بڑی سٹوری پر کام نہیں کیا تھا۔‘تاہم جس دن برطانوی اخبار نے اپنی تحقیقات کا انکشاف کیا، 5 اکتوبر کو ان معلومات کا اہم ذریعہ غائب ہو گیا تھا۔غدار یا وسل بلور؟Getty Imagesصحرائے نیگیو میں دیمونا کے قریب جوہری ری ایکٹرہونام کی پہلی ملاقات اسی سال اگست میں آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مورڈیچائی وانونو سے ہوئی تھی اور وہ اس شخص کی ظاہری شکل سے حیران رہ گئے جس نے یہ معلومات افشا کی تھیں۔ہونام یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’جب میں نے وانونو کو وہاں کھڑا دیکھا، ایک چھوٹا، پتلا، کسی حد تک گنجا شخص، جس میں خود اعتمادی کی کمی تھی، جو بہت عام کپڑوں میں ملبوس تھا، تو میں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ جوہری سائنسدان بن سکتا ہے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ ’وہ اس فیصلے کی طاقت سے متاثر ہوئے جو انھوں نے دنیا کو بتانے کے لیے کیا تھا کہ انھوں نے دیمونا تنصیب کے اندر کیا دیکھا تھا۔‘جوہری تنصیب چھوڑنے سے پہلے، وانونو تصاویر کے دو سیٹ لینے کے قابل تھے: ہتھیاروں کی تیاری کے لیے تابکار مواد نکالنے کے لیے استعمال ہونے والے آلات کی تصاویر اور دوسری ساتھ ہی تھرمونیوکلیئر آلات کے لیبارٹری ماڈل۔یہ فیصلہ انھیں پہلے لندن لے گیا جہاں انھوں نے سنڈے ٹائمز سے رابطہ کیا اور پھر روم، جہاں انھیں اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے اغوا کر لیا اس کے بعد انھیں طویل قید کی سزا کا سامنا کرنے کے لیے اسرائیل واپس بھیج دیا گیا۔ہونام کا کہنا تھا کہ ’وانونو نے یہ دلچسپ کہانی سنانا شروع کی اور بتایا کہ کیسے وہ بغیر کسی فلم کے کیمرا سمگل کرنے میں کامیاب ہو گئے اور بعد میں فلم کو اپنے سوک میں چھپا کر سمگل کر لیا اور رات اور صبح خفیہ طور پر تصاویر لینا شروع کر دیں۔‘اس وقت اخبار کے مدیران نے ہونام سے کہا تھا کہ وانونو اپنی کہانی کی تفصیلات کی تصدیق کے لیے لندن کا سفر کریں۔اسرائیل: مشرقِ وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی کے ذریعے دہرا فائدہ حاصل کر رہی ہےزیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں’آئرن ڈوم‘ اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘اپنے خدشات کے باوجود وانونو نے برطانیہ کا سفر کرنے پر رضامندی ظاہر کی اور اخبار نے انھیں وسطی لندن سے دور ایک پرسکون ملک کے ہوٹل میں رہائش فراہم کی۔تاہم وانونو نے پریشانی اور بے چینی محسوس کرنا شروع کردی لہذا انھیں لندن کے ایک ہوٹل میں منتقل کر دیا گیا جہاں چیزوں نے غیر متوقع موڑ لے لیا۔ہونام یاد کرتے ہیں کہ ’اس ہفتے کے آخر میں وہ سڑکوں پر چلتے ہوئے ایک عورت سے ملے۔ اس عورت نے وانونو کو دو بار دیکھا تھا اور اس کے ساتھ فلم دیکھنے بھی گئے۔‘لندن میں قیام کے دوران صحافی ہونام کو وانونو کی حفاظت کے بارے میں تشویش بڑھ گئی اور وہ اکثر ان سے ملنے جاتے رہے اور بعد میں ان کی آخری گفتگو کی تفصیلات یاد کرتے رہے۔’انھوں نے کہا کہ میں چند دن کے لیے انگلینڈ کے شمال میں جا رہا ہوں۔ فکر مت کرو، میں ٹھیک ہو جاؤں گا۔‘صحافی ہونام نے وانونو سے کہا کہ ’سنو آپ جو بھی کریں، مجھے دن میں دو بار کال کریں تاکہ مجھے یقین ہو سکے کہ آپ ٹھیک ہیں۔‘ایک ماہ بعد اسرائیلی حکومت نے انکشاف کیا کہ وانونو کو ایک روایتی لالچ کے جال میں پھنسنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا اور بے ہوش ہونے پر سمندر کے راستے اسرائیل پہنچایا گیا۔Reutersوانو کو غداری اور جاسوسی کے الزام میں 18 سال قید کے بعد رہا کیا گیا تھااسرائیل کی جیل سے منتقلی کے دوران وانونو نے اپنے اغوا کی کچھ تفصیلات اپنے ہاتھ کی ہتھیلی پر لکھیں پھر اسے گاڑی کی کھڑکی کے قریب کیا تاکہ وہاں موجود صحافی معلومات دیکھ سکیں۔وانونو نے کہا کہ ان کی ملاقات لندن میں موساد کے ایک ایجنٹ شیرل بینتوف سے ہوئی جو ایک امریکی نژاد خاتون ہے جو خود کو سیاح ظاہر کر رہی تھیں۔وہ وانونو کو 30 ستمبر کو اپنے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لیے اطالوی دارالحکومت روم لے گئی اور وہاں پہنچتے ہی انھیں اغوا کر لیا گیا اور نشہ آور دوا دی گئی۔وانونو پر مارچ 1987 میں غداری اور جاسوسی کے الزام میں مقدمہ چلایا گیا تھا اور 18 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی جس میں سے نصف سے زیادہ وقت انھوں نے قید تنہائی میں گزارا تھا۔وانونو نے جیل سے ریکارڈ کیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’میں دنیا کو بتانا چاہتا تھا کہ کیا ہو رہا ہے۔ یہ غداری نہیں، یہ حقیقت کو ظاہر کر رہا ہے کہ یہ سب اسرائیل کی پالیسیوں کے برعکس ہے۔‘انھیں 21 اپریل 2004 کو رہا کیا گیا تھا اور اس کے بعد سے حکام نے اسرائیل چھوڑنے کی ان کی تمام درخواستوں کو مسترد کر دیا۔وانونو کو اپنی رہائی کی شرائط کی خلاف ورزی کرنے پر متعدد مواقع پر جیل واپس بھیجا گیا۔2009 میں جیل میں جاتے ہوئے وانونو نے چیخ کر کہا کہ ’تم نے 18 سال میں مجھ سے کچھ نہیں لیا، اور تمہیں تین مہینے میں کچھ نہیں ملے گا۔ تمہیں شرم آنی چاہیے، اسرائیل۔‘خفیہ معاہدہGetty Imagesاسرائیلی وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون (بائیں جانب) نے اتحادیوں کو بتائے بغیر جوہری ڈیٹرنٹ تلاش کیاوانونو کی جانب سے معلومات ظاہر کرنے سے پہلے اسرائیل کے قریبی اتحادیوں میں بھی اسرائیل کی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں معلومات بہت کم تھیں۔یہ امکان ہے کہ اسرائیل نے 1948 میں ریاست کے قیام کے فوری بعد ہی اپنا جوہری پروگرام بنانا شروع کر دیا تھا۔اسرائیل کی اپنے دشمنوں پر بھاری عددی برتری کو دیکھتے ہوئے اس کے پہلے وزیر اعظم ڈیوڈ بین گوریون نے جوہری ہتھیاروں کی اہمیت کو تسلیم کیا لیکن وہ ایک کشیدہ خطے میں غیر روایتی ہتھیار متعارف کروا کر اپنے اتحادیوں کو پریشان کرنے سے ہچکچا رہے تھے۔چنانچہ اسرائیل نے دیمونا ری ایکٹر کی تعمیر کے لیے فرانس کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس نے 1960 کی دہائی میں جوہری ہتھیاروں کے لیے مواد تیار کرنا شروع کر دیا تھا۔ برسوں سے اسرائیل کا اصرار تھا کہ یہ صرف ایک ٹیکسٹائل فیکٹری ہے۔امریکی انسپکٹروں نے 1960 کی دہائی کے دوران متعدد مواقع پر اس مقام کا دورہ کیا لیکن مبینہ طور پر اس مقام کی تہوں میں چھپے رازوں سے سے وہ لاعلم تھے جسے چھپانے کے لیے اینٹوں اور پلاسٹر سے ڈھانپ دیا گیا تھا۔سینٹر فار آرمز کنٹرول اور عدم پھیلاؤ کے مطابق اسرائیل کے جوہری ہتھیاروں کا تخمینہ اس وقت تقریبا 90 جوہری وار ہیڈز پر لگایا گیا۔اس کے باوجود اسرائیل اپنی جوہری صلاحیتوں کے بارے میں سرکاری پالیسی پر قائم ہے اور اس کے رہنماؤں نے بار بار اس بات پر زور دیا ہے کہ ’اسرائیل مشرق وسطی میں جوہری ہتھیار متعارف کروانے والا پہلا ملک نہیں ہوگا۔‘سنہ 1970 سے اب تک 191 ممالک جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط کر چکے ہیں، یہ ایک بین الاقوامی معاہدہ ہے جس کا مقصد جوہری ہتھیاروں کے پھیلاؤ کو محدود کرنا اور جوہری تخفیف اسلحہ کی عالمی کوششوں کو فروغ دینا ہے۔صرف پانچ ممالک امریکہ، روس، برطانیہ، فرانس اور چین جوہری ہتھیار رکھنے کے حقدار ہیں کیونکہ انھوں نے یکم جنوری 1967 کو جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے کے نفاذ سے پہلے جوہری بم بنائے اور ان کا تجربہ کیا۔اسرائیل نے جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے پر دستخط نہیں کیے۔وانونو کو اسرائیل میں غدار کے طور پر دیکھا جاتا ہے لیکن ان کے حامیوں نے سنہ 2004 میں ان کی رہائی کا جشن منایا اور انھیں ’امن کا ہیرو‘ قرار دیا۔انھوں نے رہائی کے بعد بی بی سی کو دیے گئے اپنے پہلے انٹرویو میں کہا تھا کہ انھیں ’کوئی افسوس نہیں۔‘‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ’میں نے دنیا کو بتایا کہ پردے کے پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ہمیں اسرائیل یا دیمونا ری ایکٹر کو تباہ کر دینا چاہیے۔ میں نے صرف اتنا کہا: دیکھیں ان کے پاس کیا ہے اور اپنا فیصلہ خود کریں۔‘زیر زمین جوہری شہر اور یورینیئم کی کانیں: ایران کی ایٹمی صلاحیت اور تنصیبات کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیںسابق اسرائیلی وزیراعظم کی جانب سے تجویز کردہ وہ نقشہ جو مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کا وعدہ لے کر آیا تھا1967 کی چھ روزہ جنگ: جب اسرائیل نے آدھے گھنٹے میں ’مصری فضائیہ کا وجود ختم کر دیا‘آئن سٹائن کی زندگی کی ’سب سے بڑی غلطی‘: ایک خط جس نے ایٹم بم کی ہلاکت خیز ایجاد کی بنیاد رکھی’آئرن ڈوم‘ اور دیگر اسرائیلی دفاعی نظام کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرتے ہیں؟اسرائیل: مشرقِ وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت جو ’جوہری ابہام‘ کی پالیسی کے ذریعے دہرا فائدہ حاصل کر رہی ہے

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید عالمی خبریں

فرانس میں ’منظم گینگ‘ کی فائرنگ سے دلہن ہلاک، دو حملہ آور گرفتار

ایران نے امریکی اڈے پر حملہ اپنے دفاع کے موروثی حق کو استعمال کرتے ہوئے کیا، ترجمان ایرانی وزیر خارجہ

اسرائیل، امریکا کی جانب سے تجویز کردہ جنگ بندی کی تجویز سے متفق ہے، اسرائیلی اخبار کا دعویٰ

کیا ٹرمپ کا داؤ ایران اور اسرائیل کے بیچ میزائلوں کا تبادلہ روک پائے گا؟

ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی اب مؤثر ہو چکی ہے: ٹرمپ

ایران کی جانب سے اسرائیل پر ایک بار پھر میزائل حملہ، تین افراد ہلاک

جنگ بندی کی خلاف ورزی نہ کی جائے، ٹرمپ: جارحیت کا منہ توڑ جواب دیں گے، پاکپور

ایرانی میزائل فضا میں تباہ، ملکی فضائی حدود مکمل طور پر محفوظ: قطری وزیرخارجہ

ایران اسرائیل جنگ بندی پر تاحال کوئی معاہدہ نہیں ہوا، ایرانی وزیر خارجہ

کسی بھی ظالم کے آگے سر نہیں جھکائیں گے، ایرانی سپریم لیڈر

امریکی صدر سے ایران کوجنگ بندی پررضا مند کرنے کیلئے اپیل

وہ شخص جسے اسرائیل کے جوہری پروگرام کا راز افشا کرنے پر دو دہائیاں جیل میں گزارنا پڑیں

اسرائیل کا جنگ بندی کی خلاف ورزی کا الزام لیکن ایرانی میڈیا کی تردید، اسرائیلی وزیر دفاع کا تہران کو نشانہ بنانے کا حکم

ایران اوراسرائیل جنگ بندی پرآمادہ ہوگئے،امریکی صدر کا بڑا اعلان

ایرانی وزیر خارجہ نے امریکی صدر کے جنگ بندی معاہدے کی تردید کردی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی