بلوچستان یونیورسٹی میں لسانی شعبوں کی ممکنہ بندش، دنیا کا ’واحد براہوی شعبہ خطرے میں‘


’براہوی زبان کا دنیا میں واحد شعبہ بلوچستان یونیورسٹی میں قائم ہے جسے ختم کیا جا رہا ہے۔ اس سے دنیا کی قدیم ترین زبانوں میں شمار ہونے والی بلوچستان کی اس زبان کی تاریخ، ادب، شاعری اور ثقافت پر تحقیقی کام متاثر ہو گا۔‘یہ رائے براہوی زبان کے ادیب اور اکادمی ادبیات کے ریجنل ڈائریکٹر عبدالقیوم بیدار کی ہے جنہیں بلوچستان کی سب سے بڑی جامعۂ ’یونیورسٹی آف بلوچستان‘ کوئٹہ میں براہوی، بلوچی اور پشتو زبان کے شعبوں کی الگ الگ حیثیت ختم کرنے کے مجوزہ حکومتی فیصلے پر تشویش ہے۔علمی، ادبی اور قوم پرست حلقے بھی اس مجوزہ اقدام  کی مخالفت کر رہے ہیں اور خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ حکومتی فیصلے سے مقامی زبانوں کا علمی، تحقیقی اور تدریسی ڈھانچہ کمزور ہو گا۔اگرچہ اس بارے میں حکومت نے تاحال باضابطہ اعلان نہیں کیا تاہم یونیورسٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ انہیں مالی اخراجات کم کرنے کی غرض سے مختلف شعبہ جات کو یکجا کرنے کے منصوبے پر کام کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔یونیورسٹی سینیٹ کے 11 جون کو ہونے والے اجلاس میں گورنر بلوچستان جعفر خان مندوخیل نے کہا کہ ’یونیورسٹی کے بعض ڈیپارٹمنٹس خاص طور پر لینگویج ڈیپارٹمنٹس میں اساتذہ کی تعداد طلبہ سے زیادہ ہے جو ادارے پر مالی بوجھ بن رہے ہیں۔‘سرکاری اعلامیے کے مطابق گورنر نے ہدایت دی کہ ایک ایسا پائیدار منصوبہ تیار کیا جائے جس سے اخراجات میں کمی کے ساتھ پشتو، بلوچی، براہوی اور فارسی کی ترویج کا سلسلہ بھی جاری ہو۔نیشنل پارٹی کے سربراہ اور سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا دعویٰ ہے کہ ’حکومت بلوچستان نے یونیورسٹی آف بلوچستان کے وائس چانسلر کو ایک تحریری ہدایت دی ہے کہ جس میں ان سے کہا گیا ہے کہ وہ پشتو، بلوچی اور براہوی شعبوں کو ایک مشترکہ ادارے ’انسٹیٹیوٹ آف لینگویجز اینڈ لٹریچر‘ میں ضم کریں۔‘کوئٹہ میں ایک پریس کانفرنس کے دوران سابق وزیراعلیٰ کا کہنا تھا کہ اگر محض مالی نقصان کے نام پر یہ شعبے ختم کیے جا رہے ہیں تو پھر پورا ملک خسارے میں ہے، اس کا کیا کریں گے؟ ان کا کہنا تھا کہ جب بلوچی زبان سویڈن میں پڑھائی جا رہی ہے تو بلوچستان میں اسے بند کرنا ناقابل فہم ہے۔انہوں نے اس فیصلے کو مقامی زبانوں اور قوموں کے خلاف سازش قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ ہماری زبانوں کو قتل کرنے کے مترادف ہے۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت کا یہ فیصلہ ناقابلِ قبول ہے اور نیشنل پارٹی اس کے خلاف ہر ممکن جمہوری جدوجہد کرے گی۔پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اور پشتونخوا نیشنل پارٹی نے بھی اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے ۔حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے اس بابت پوچھے گئے سوال پر واضح جواب اور مجوزہ حکومتی فیصلے کی تصدیق یا تردید سے انکار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ ’ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی پریس کانفرنس میں تضادات ہیں۔‘سابق وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ’حکومت کا یہ فیصلہ ناقابلِ قبول ہے اور نیشنل پارٹی اس کے خلاف ہر ممکن جمہوری جدوجہد کرے گی‘ (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)یونیورسٹی آف بلوچستان کی ویب سائٹ کے مطابق پشتو، بلوچی اور براہوی زبانوں کی تدریس 1970 کی دہائی میں پاکستان سٹڈی سینٹر سے بطور مضمون شروع ہوئی جس کے بعد 1985 میں بلوچی، 1992 میں براہوی اور پشتو کو باقاعدہ ڈیپارٹمنٹ کا درجہ دیا گیا۔ ان کا مقصد مقامی زبانوں کی تحقیق، تدریس، ثقافت اور لوک ورثے کا فروغ ہے۔ادبی حلقوں کا ماننا ہے کہ ان شعبوں نے مقامی زبانوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ عبدالقیوم بیدار کے مطابق شعبے کے قیام سے پہلے براہوی میں 100 سے بھی کم کتابیں تھیں جو اب کئی گنا بڑھ چکی ہیں اور ایم فل و پی ایچ ڈی کا عمل ان ہی شعبوں سے ممکن ہوا۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ ان شعبوں کی الگ حیثیت ختم ہوئی تو تحقیق، ایم فل اور پی ایچ ڈی کا عمل رک جائے گا۔براہوی زبان کو اقوام متحدہ کے ادارے یونیسکو نے ’خطرے سے دوچار زبان‘ قرار دیا ہے ۔ بلوچستان یونیورسٹی میں براہوی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر شبیر احمد شاہوانی کا کہنا ہے کہ براہوی بلوچستان میں بولی جانے والی بڑی زبانوں میں سے ایک ہے اور اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین لسانی ورثوں میں ہوتا ہے۔ان کے بقول دنیا میں صرف بلوچستان یونیورسٹی ہی براہوی کی اعلیٰ تعلیم دیتی ہے۔  پروفیسر شبیر شاہوانی کا کہنا ہے کہ براہوی ڈیپارٹمنٹ نے زبان، رسم الخط، ادب اور ثقافت پر نمایاں تحقیقی کام کیا ہے اور اب تک 15 سے زائد پی ایچ ڈی سکالرز پیدا کیے ہیں۔مصنف اور ادبیات کے استاد ڈاکٹر عابد میر نے کہا کہ بلوچی اور پشتو دیگر یونیورسٹیوں میں پڑھائی جاتی ہیں لیکن براہوی صرف بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھائی جاتی ہے، اس لیے شعبے کی بندش سے براہوی زبان میں اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند ہوجائیں گے ۔بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین ہیبتان عمر بلوچ نے بھی فیصلے کو ناقابل جواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’صوبے کا کوئی محکمہ ایسا نہیں جو خسارے میں نہ ہو پھر صرف زبانوں کے شعبے نشانہ کیوں؟‘ان کا کہنا تھا کہ ’پاکستان کے آئین کی شق 251 زبانوں کی ترویج و ترقی کی ضمانت دیتی ہے لیکن حکومت کی ترجیحات میں مقامی زبانیں شامل نہیں۔ان کا کہنا تھا کہ مقامی زبانوں کی بقا اور ترویج کے لیے لسانی شعبوں کو مالی مفادات سے بالاتر ہوکر دیکھنا ہو گا۔ڈاکٹر برکت شاہ کے مطابق ’صوبائی حکومت جامعات کو اکیڈمک آزادی کے ڈھیلے ڈھالے فریم ورک کے ساتھ گود لینے کے لیے تیار نہیں‘ (فائل فوٹو: یونیورسٹی آف بلوچستان)پشتو ڈیپارٹمنٹ کے چیئرمین ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ نے فیس بک پر لکھے گئے تبصرے میں یونیورسٹیوں کو درپیش مالی بحران، فیسوں میں اضافے اور مقامی زبانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کو موجودہ صورتحال کی بنیادی وجوہات قرار دیا ہے۔انہوں نے لکھا کہ بعض زبانوں کو ’میم صاحبہ ‘یا ’ملکہ ‘جیسا مقام دیا جاتا ہے جبکہ بعض سے کنیزوں جیسا سلوک ہوتا ہے۔’ میں نے اپنی زبان کے کنیز پن کا دکھ بارہا جھیلا ہے۔‘ان کا کہنا تھا کہ ادب، آرٹ اور کلچر قومی شناخت، تاریخ اور تہذیب کا آئینہ دار ہوتے ہیں، ترقی یافتہ قومیں ان پر سرمایہ لگاتی ہیں مگر یہاں ایسا نہیں ہے۔ڈاکٹر برکت شاہ کے مطابق ’صوبائی حکومت جامعات کو اکیڈمک آزادی کے ڈھیلے ڈھالے فریم ورک کے ساتھ گود لینے کے لیے تیار نہیں مگر اپنی نوعیت کی تبدیلیاں تجویز کرنے سے نہیں تھکتی۔‘وفاق سے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد بلوچستان کی سرکاری جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ بلوچستان حکومت نے 11 جامعات کے لیے آٹھ ارب روپے مختص کیے ہیں جبکہ اساتذہ تنظیموں کے مطابق ضرورت اس سے دگنی ہے۔ فنڈز کی قلت کے باعث اساتذہ و ملازمین مہینوں تنخواہوں اور پنشن سے محروم رہتے ہیں۔مالی بحران کے بعد اگست 2022 میں جامعات کی مالی اصلاحات کے لیے قائم حکومتی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پشتو اور فارسی کے ایم ایس پروگرامز میں تین، بلوچی میں چھ اور براہوی میں صرف 11 طلبہ ہے۔رپورٹ میں طلبہ کی تعداد کو ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مقررہ معیار (ایک استاد: 30 طلبہ) کے خلاف اور ان شعبوں کو مالی بوجھ قرار دیتے ہوئے ایک مشترکہ ’ایم ایس لینگویجسٹکس‘ پروگرام میں ضم کرنے کی سفارش کی تھی۔وفاق سے اختیارات کی صوبوں کو منتقلی کے بعد بلوچستان کی سرکاری جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہیں (فائل فوٹو: یو او بی)حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہی سفارشات مجوزہ حکومتی فیصلے کی بنیاد ہیں۔براہوی ڈیپارٹمنٹ کے پروفیسر ڈاکٹر شبیر احمد شاہوانی کے مطابق بی ایس سطح پر طلبہ کم  تاہم ایم فل و پی ایچ ڈی میں تعداد زیادہ ہے۔ اس وقت بھی پی ایچ ڈی میں چار اور ایم فل پروگرام میں 11 طلبہ زیر تعلیم ہیں۔انہوں نے  نچلی سطح کے پروگرام میں طلبہ کی کم تعداد کی وجہ ملازمت کے مواقع کی کمی اور بھاری فیسوں کو قرار دیا۔ڈاکٹر شاہوانی کے بقول کالج میں بی ایس کی فیس تین ہزار جبکہ یونیورسٹی میں 37 ہزار فی سمیسٹر ہے اس لیے طلبہ کالج کو ترجیح دیتے ہیں۔انہوں نے بتایا کہ براہوی، بلوچی اور پشتو کے شعبوں کے اساتذہ کی مجموعی تعداد یونیورسٹی کے ایک سائنسی مضمون کے اساتذہ کے برابر نہیں۔لسانی ماہرین کے مطابق جب تک مقامی زبانوں کے طلبہ کے لیے روزگار کے مواقع نہیں پیدا کیے جاتے، ان کی دلچسپی نہیں بڑھے گی۔ بلوچی کے ایک استاد کے بقول ’انٹر کے بعد چار سال مزید یونیورسٹی میں لگا کر اگر ملازمت نہ ملے تو والدین بچوں کو یہ زبانیں کیوں پڑھائیں گے؟‘بلوچی اکیڈمی کے چیئرمین ہیبتان عمر کا کہنا ہے کہ سکول و کالجوں میں مقامی زبانیں پڑھانے اور اساتذہ کی آسامیاں تخلیق کرنے سے ہی طلبہ کو راغب کیا جا سکتا ہے۔ ان کے بقول کالج کی سطح پر مقامی زبانوں کے لیکچرار کی 67 آسامیاں آخری بار 2013 میں اعلان کی گئی تھیں تاہم ان میں سے بھی آدھی سے زائد خالی رہ گئیں اور اس کے بعد کوئی بھرتی نہیں ہوئی۔مصنف و استاد ڈاکٹر عابد میر سمجھتے ہیں کہ صرف زبان و ادب پڑھانے سے ان شعبوں کی افادیت محدود ہو گئی ہے۔ ان کے مطابق حل شعبے بند کرنا نہیں بلکہ انہیں مارکیٹ، فنون  لطیفہ اور کلچر سے جوڑنا ہے۔  عابد میر نے زبان سیکھنے کے خواہشمند افراد کے لیے مختصر کورسز متعارف کرانے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کی بجائے چھوٹے تحقیقی منصوبے شروع کرنے اور مقامی زبانوں کی تعلیم میں فلم، ڈرامہ اور موسیقی جیسے فنون کو نصاب کا حصہ بنانے کی تجویز دی۔انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ مادری زبانوں کی تعلیم کے لیے سنجیدہ قانون سازی کی جائے۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں آمدن کے لیے نہیں بلکہ مفید افرادی قوت کی تیاری کے لیے ہوتی ہیں (فائل فوٹو: یو او بی)پشتو ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر برکت شاہ کاکڑ کے مطابق پانچ برسوں میں فیسوں میں 300 فیصد اضافے کے بعد وہ طبقہ ہی غائب ہو گیا جو پڑھنے آتا تھا۔ ان کے مطابق موجودہ صورتحال میں تینوں زبانوں کے شعبے یونیورسٹی انتظامیہ کے تعاون سے یونیورسٹی کے کم و بیش 18 دیگر شعبوں کے ساتھ مل کر اختیاری اور آن لائن کورسز متعارف کرا رہے ہیں جن سے طلبہ کی تعداد میں اضافے کی توقع ہے۔ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ یونیورسٹیاں آمدن کے لیے نہیں بلکہ مفید افرادی قوت کی تیاری کے لیے ہوتی ہیں۔ان کے مطابق ’فیسوں میں اضافے کے باعث یونیورسٹی آف بلوچستان کے طلبہ کی تعداد 16 ہزار سے گھٹ کر 6 ہزار رہ گئی ہے حالانکہ یہ تعداد 60 ہزار ہونی چاہیے تھی۔‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

سویڈن نے پاکستانیوں کے لیے ویزہ سروس بحال کرنے کا اعلان کر دیا، دفتر خارجہ

وہ چیزیں جن سے ہمارے بچے محروم ہیں، عامر خاکوانی کا کالم

آپریشن سندور ناکام رہا، جنگیں میڈیا کی بیان بازی یا سیاسی نعرے بازی سے نہیں جیتی جاتیں: فیلڈ مارشل عاصم منیر

کراچی: لیاری میں منہدم عمارت کا آپریشن مکمل، 27 لاشیں نکال لی گئیں

پاکستان میں مون سون بارشیں: دو ہفتوں سے کم وقت میں 72 افراد ہلاک

پاکستان کا درآمدی مصنوعات پر ٹیرف کم کرنے کا فیصلہ: کیا قیمتیں کم ہوں گی یا صرف امیر طبقے کو فائدہ پہنچے گا؟

بلوچستان یونیورسٹی میں لسانی شعبوں کی ممکنہ بندش، دنیا کا ’واحد براہوی شعبہ خطرے میں‘

بلوچستان یونیورسٹی میں لسانی شعبوں کی ممکنہ بندش، ’دنیا کا واحد براہوی شعبہ خطرے میں‘

لیاری میں پانچ منزلہ عمارت گرنے سے 27 ہلاکتیں: سندھ حکومت کا متاثرین کو فی کس دس لاکھ روپے دینے کا اعلان

آن لائن شاپنگ پر اضافی کٹوتی، کوریئر کمپنیوں پر دباؤ یا صارفین پر بوجھ؟

عطا آباد: قدرتی آفت سے جنم لینے والی پاکستان کی مشہور جھیل جس کا مستقبل غیر یقینی کا شکار ہے

پاکستانی پاسپورٹ رینکنگ بہت جلد بڑی چھلانگ لگائے گی، محسن نقوی

لیاری : منہدم عمارت سے متصل بی بلاک گرانے کے لیے ایس بی سی اے کا عملہ پہنچ گیا

53 گھنٹے کا آپریشن، 27 ہلاکتیں اور ایک خاندان: لیاری میں زمین بوس ہونے والی پانچ منزلہ عمارت میں ایک تین ماہ کی بچی کیسے زندہ بچی؟

وزیر اعلیٰ سندھ نے لیاری میں گرنے والی عمارت پر نوٹس لے لیا، شرجیل انعام

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی