
ہمارے ہاں رواج ہے کہ اکثر مذہبی یا ثقافتی دنوں میں کھیر پکائی جاتی ہے۔ میری مراد دودھ سے بنی سویٹ ڈش سے ہے۔ یہ وضاحت اس لیے کی کہ سرائیکی میں دودھ کو کھیر کہتے ہیں اور جو اردو کی سویٹ ڈش کھیر ہے، اسے سرائیکی میں کھیرنی کہتے ہیں۔ یہ وہ بات ہے جو لاہور، فیصل آباد وغیرہ کے پنجابی احباب کم ہی جانتے۔ ایسے کئی لوگوں کو بہاولپور، احمد پور یا ملتان میں مقیم کسی سرائیکی دوست کے گھر یہ سن کر حیرت ہوتی ہے جب میزبان سرائیکی اپنے ملازم یا بچے کو آواز دے کر کہے کہ ونج تے کھیر گِھن آ، منجھ دا کھیر ہوووے، گاں دا ناں (جا کر دودھ لے آؤ، بھینس کا دودھ ہو، گائے کا نہیں)۔ اسے حیرت ہوگی کہ کھیر تو کھیر ہے، اس میں بھینس یا گائے کی تخصیص کیسی؟ سرائیکی زبان میں ایسا ہی ہے، دودھ کو کھیر کہتے ہیں اور فیرنی یا اصل والی کھیر کو سرائیکی میں کھیرنی۔ ملتان بہاولپور میں تو نہیں، البتہ ڈیرہ اسماعیل خان جو میرا ننھیال ہے، وہاں کے مقامی سرائیکی لہجے میں دودھ پہنچانے والے گوالے کو کھیر(دودھ) کی نسبت سے کھیری کہا جاتا ہے۔خیر ذکر ہو رہا تھا گھروں میں کھیر پکوانے اور بانٹنے کا۔ میری اہلیہ محترمہ کے خاندان میں تین نسلوں سے ایک خوبصورت روایت چلی آ رہی ہے۔ سال میں ایک دو بار کھیر پکوا کر مٹی کے چھوٹے چھوٹے خوبصورت گُگڑوں میں ڈال کر محلے کے بچوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ گُگڑا مٹی کی پیالی سمجھ لیں، پنجابی زبان میں نھی سی کُجی۔ ہمارے آبائی شہر احمد پور میں مٹی کےایسے برتن اکثر کمہار گھرانے بنایا کرتے ہیں جو عام مل جاتے۔لاہور میں البتہ یہ نہیں ملتے ۔ پچھلے کئی برسوں سے ہم لاہور میں مقیم ہیں تو نہ صرف ان گگڑوں میں کھیر بانٹنے والی روایت ختم ہوگئی ہے بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ آج کے بچوں کو یہ گگڑے وغیرہ سمجھ ہی نہیں آتے۔ انہیں یہ بات سمجھائی جا ہی نہیں سکتی کہ ان خوبصورت مٹی کے برتنوں میں ٹھنڈی کھیر کھانا کس قدر دل خوش کن اور شاندار لگتا تھا۔ برسبیل تذکرہ میرے آبائی شہر احمد پورشرقیہ بہاولپور کی ایک قدیمی تحصیل ہے۔ اسے نوابوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ ریاست بہاولپور کے عباسی نوابین کا تعلق احمد پورشرقیہ سے تھا۔ نواب کاخاندانی رہائشی محل جسے صادق گڑھ پیلس کہا جاتا ہے، یہ بھی احمد پورشرقیہ ہی کے ایک علاقہ ڈیرہ نواب صاحب میں ہے۔ ہمارے شہر کا ریلوے سٹیشن بھی ڈیرہ نواب صاحب کے نام سے مشہور ہے۔ لاہور سے کراچی جانے والی ٹرین بہاولپور کے بعد سمہ سٹہ اور پھر ڈیرہ نواب صاحب یعنی احمد پورشرقیہ سے گزر کر آگے لیاقت پور، خان پور، رحیم یار خان اور پھر پنجاب کی آخری تحصیل صادق آباد سے گزر کر سندھ میں داخل ہوتی ہے۔ احمد پورشرقیہ ایک چھوٹا شہر ہے، یعنی جو خوبیاں، خامیاں کسی گاؤں میں ہوتی ہیں، وہ ہم نے نہیں دیکھیں۔ یہ قصبہ بھی نہیں، یہ قصبے اور بڑے شہر کے درمیان میں کہیں آتا ہے۔ زندگی سادہ اور نسبتاً سلو ہے۔ تاہم اپنے بچپن اور لڑکپن میں ہم نے روایتی دیسی چیزیں خوب کھائیں اور دیکھیں۔ وہ مخصوص ڈشز اور کھانے جو آج کل کی نئی نسل کو میسر نہیں۔وہ کھیل جو ہم نے کھیلے، آج کے بچے ان سے نا واقف ہیں۔ میرے بچپن میں دیسی گھی کی چُوری عام تھی۔ گھی والی چپڑی روٹی پر دیسی گھی کا ایک چمچ ڈالا یا پھر مکھن کا ٹکڑا اورکیمیکل سے پاک کالی سی شکر کے دو چمچ ڈالے، مزیدار کھانا بن گیا۔ دادی نانی یا بزرگ خواتین نے روٹی کے ٹکڑے کر کے اوپر دیسی گھی اور شکر انڈیل کر اسے مل کر پراپر چُوری کی شکل دے دی۔ دیسی کھانے کی جگہ اب فاسٹ فوڈ نے لے لی ہے۔ فائل فوٹوایک اور چیز جو ہمارے ہاں عام تھی، مگر میں نے اپر پنجاب میں بالکل نہیں دیکھی۔ پچھلے سال گنے کے موسم میں فیصل آباد گئے، راستے میں کئی جگہوں پر گڑ بن رہا تھا، وہاں اتر کر گڑ خریدا اور کَکو کے بارے میں پوچھا، مگر کاریگر بھی ناواقف نکلے۔ جبکہ احمد پور، بہاولپور، ملتان وغیرہ میں یہ عام ہے۔ کَکو گنے کے رس سے بنتی ہے، شکل شہد نما ہے۔ دراصل یہ گنے کے رس اور گڑ کے درمیان کی کوئی چیز ہے۔ ککو سے بھری بوتلیں گنے کے موسم میں مل جاتی ہیں۔ اس ککو کو چھوٹی سی کٹوری میں ڈال کر اس پر ملائی، مکھن ڈالا اور مزے لے کرروٹی کھا لی۔ احمدپورشرقیہ میں جہاں ہمارا آبائی محلہ تھا، کٹرہ احمد خان ، وہاں سے بھنا کویا، سوہن حلوہ اور ربڑی عام مل جاتی۔ سرائیکی میں ربڑی کو رابڑی کہا جاتا ہے۔ یہ سب چیزیں نہایت مناسب داموں مل جاتی تھیں، آج ان کی قیمتیں کہاں چلی گئیں اور مزا بھی پہلے جیسا نہیں۔ مجھے یاد ہے کہ اس زمانے میں ہمارے گھر آئے ہر مہمان کے ناشتے میں محلہ کٹرہ احمد خان کے روایتی سرخ چنوں کے ساتھ بھنی کلیجی کا سالن لازمی سمجھا جاتا تھا۔ عام طور سے کلیجی گردے اکھٹے پکتے۔ سرائیکی میں کلیجی کو زیرہ بُکی کہتے، زیرہ کلیجی اور بکی شائد گردے کو۔ سرائیکی میں چنے کو چنے کہتے ہیں، لال چھولے بھی وہاں کی سوغات تھی، ایک خاص انداز کا ذائقہ تھا ان کا۔ مجھے یاد ہے کہ میرے بچپن میں بڑے سے پتے پر چھولے کی ایک ڈوئی بھر کر ڈال دی جاتی، اوپر سے دال مونگ کا چھینٹا۔ یہ پتے شاید پیپل کے تھے یا معلوم نہیں کس درخت کے ، مگر کام خوب دے جاتے۔ ہم گھر سے چنگیر لے کر جاتے جسے سرائیکی میں چھَبی (چھابی) کہا جاتاہے، اس میں سب بچوں کے لیے ایک ایک پتے میں چار چارآنے کے چنے لے لیے جاتے۔ البتہ جو بچہ لینے جاتا، وہ گھر واپسی کے سفر میں چنے کے موٹے موٹے دانے ضرور چپکے سے اٹھا کر ہڑپ کر جاتا۔ یہ اس کا بونس تھا۔ احمد پورشرقیہ میں چھوٹے مٹر بھی ملتے جسے ہم مٹری کہتے۔ لاہور والوں نے کبھی سفید رنگ کی بھنڈی نہیں دیکھی ہوگی، یہ ایک خاص قسم ہے اور عام سبز بھنڈی سے مہنگی ہوتی اور اس کے شائق لوگوں کا کہنا تھا کہ ایسی بھنڈی پاکستان بھر میں نہیں۔ ویسےمیں نے کہیں اور دیکھی بھی نہیں۔ بھے بھی ایک مشہور سبزی ہے جو سرائیکی اور سندھی ہی پکاتے ہیں۔ یہ کنول کے پودے کی جڑ ہوتی ہے۔ بھے کی ایسی شاندار ڈشز ہیں جن کا لاہور اور سنٹرل پنجاب میں تصور ہی نہیں۔ بھے کا سادہ سالن بھی بنتا ہے یعنی دہی میں سادہ تلے ہوئے بھے۔ جبکہ قیمہ بھے، بھے کے پکوڑے ، بھے کا اچار اور ہمارے خاکوانی پٹھانوں میں بھے کے کباب بھی بنا کرتے ۔ ابھی تصور کیا تو اس کا حیران کن ذائقہ منہ میں گھل سا گیا۔نئی نسل ڈائل والے فون سیٹ کو اب حیرت سے تکتی ہے۔ فائل فوٹو: فری پکسمیرے سسرال میں کھگا مچھلی کا شوربے والا سالن بنا کرتا، جسے چاول کے آٹے کی روٹی یعنی چلڑے کے ساتھ کھایا جاتا۔ ہمارے گھر میں چلڑا ہمیشہ میٹھا بنتا اور خاص کر بارش کے دنوں میں یہ روز بنایا جاتا۔ شادی کے بعد پتہ چلا کہ سسرالی گھر میں چلڑا ہمیشہ نمکین بنتا ہے اور وہ چاول کی اس روٹی کو ساگ وغیرہ کے ساتھ بھی کھایا کرتے ہیں۔ ہم سرائیکیوں میں صرف پائے نہیں بنا کرتے بلکہ سری پائے کا سالن بنتا۔ قصائی بکرے کی سری ایک خاص انداز میں کٹنگ کرکے دیتے اور پھر بہت سے لوگ صرف بھنی سری بھی پکواتے۔اب تو یہ سب چیزیں خواب سی لگتی ہیں۔ میرا بڑا بیٹا خیر سے انیس سال کا ہو گیا اور چھوٹا عبداللہ گیارہ سال کا ہے، ان میں سے شائد ہی کسی نے یہ چیزیں کھائی ہوں، بلکہ اب شائد احمد پور ی نئی نسل بھی ان میں سے بہت سی چیزوں سے انجان ہے۔ وہاں بھی اب پیزا، شوارما، برگر، زنگر برگر کی دھوم مچی ہوتی ہے اور بچے دیسی گھی کی خوشبو سے دور بھاگتے ہیں۔ شاید یہ ہماری نسل کا المیہ ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے بعد یکایک دنیا ہی سے غائب ہو گئیں۔ کیسٹ سے وی سی آر اور ٹیلی گرام سے عید کارڈ، ڈائل گھمانے والے ٹیلی فون سے لے کر نجانے کیا کچھ گویا ہوا میں تحلیل ہو گیا۔مجھے یہ چیزیں ہمیشہ ہانٹ کرتی ہیں، اس پر تکلیف بھی ہوتی ہے کہ یہ جو چیزیں میری نسل کی یاداشت کا حسین حصہ ہیں، ان سے ہمارے بچے واقف بھی نہیں۔ انہیں ہم وہاں جا کر یہ کھلائیں تب بھی وہ ان سے ویسی مانوسیت اور دلکشی محسوس نہیں کرتے جیسا کہ ہمیں لگتا تھا۔اردو کے نامور شاعر، کالم نگار، ادیب جناب اظہارالحق بھی ان موضوعات پر لکھتے رہتے ہیں، ان کی ایک کتاب میں اس پر خاصا کچھ لکھا ہے۔ پچھلے سال اس پر میں نے ریویو لکھا تھا۔ محرم کی تعطیلات میں پھر سے وہ کتاب پڑھی اور حظ اٹھایا۔ اظہار الحق صاحب کے ایک کالم کا اقتباس اپنے پڑھنے والوں کے لیے پیش کررہا ہوں، خاص کر ان لوگوں کے لیے جو میری نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اپنے آبائی شہروں سے دور ہیں اور ان کے ناسٹلجیا میں یادوں کے بہت سے جگنو جگمگاتے ہیں۔گاؤں دیہات میں رہٹ سے پانی پینا بھی ایک ایسا تجربہ تھا جس کے بارے میں اب صرف سوچا ہی جا سکتا ہے۔ فائل فوٹواظہار الحق لکھتے ہیں: ’بڑے بڑے چمکتے ہوئے شہروں میں رہنے والے بچے ان تفریحات سے محروم ہیں جو قصبے اور گاؤں کے عام بچے کو حاصل تھیں۔ یہ بھیڑ کے سفید بچے اور بکری کے خوبصورت میمنے سے نہیں کھیل سکتے، کھیت سے خربوزے نہیں توڑ سکتے نہ رہٹ سے پانی پی سکتے ہیں۔ انہوں نے چرخے پر کاتی جانے والی پونیوں کے ڈھیر دیکھے نہ کھیلانوں پر گاہ کی رونقیں دیکھیں۔ انہوں نے گرمیوں کی راتوں میں لڈی اور بھنگڑے دیکھے نہ سرما کی دوپہروں میں سنہری دھوپ کے مزے لوٹے۔ ان کی ’غربت‘ کا تو یہ عالم ہے کہ انہوں نے تاروں بھرآسمان اور چاند میں نہائی ہوئی رات تک نہیں دیکھی۔ انہیں تو وہ چھوٹی سی خوشی بھی میسر نہیں جو گیلی ریت سے پیر نکال کر ملتی تھی کہ گھر بن گیا ہے۔ انہوں نے باجرہ اور جوار دیکھے نہ گندم کا پودا، انہیں یہ معلوم نہیں کہ جَو کیا چیز ہے اور تربوز زمین سے اگتے ہیں یا آسمان سے ٹپکتے ہیں۔ انہیں تو یہ بھی نہیں معلوم کہ کیکر کیا ہوتا ہے، شیشم کسے کہتے ہیں اور شہتوت کہاں لگتے اور شہد کا چھتہ کیسا ہوتا ہے۔’انہوں نے مٹی کے کورے برتن میں پانی پیتے ہوئے سوندھی خوشبو چکھی نہ شام کو واپس آتے ہوئے ڈھور ڈنگروں کے گلوں میں لٹکے گھنگھرؤں کی آواز سنی۔ انہوں نے جھاڑیوں میں چھپتے ہوئے خرگوش دیکھے نہ تیر کی طرح نکلتے ہوئے کتے دیکھے اور نہ خاک پر لوٹتی ہوئی فاختہ نظر آئی، انہوں نے بٹیر کی نرم ہڈیاں بھی نہیں چبائیں۔ انہیں جھینگر کے گانے کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ عید کے میلے انہوں نے ٹی وی پر دیکھے۔ بندر اور بھالو کے تماشے کے متعلق صرف کتابوں میں پڑھا۔ انہیں یہ معلوم نہیں کہ چارکانی کا کھیل کیا ہے، دوڑتے ہوئے گھوڑے سے کھونٹا کیسے نکالا جاتاہے، بارہ گیٹی کیا ہے، سٹاپو کس چڑیا کا نام ہے اور مٹی کے بنے گھگھو گھوڑے کیا ہوتے ہیں؟ مہنگے پاپ کارن کھانے والے ان بچوں کو کیا معلوم کہ بھٹیارن کے بھنے ہوئے گرم دانوں کا مزا کیا ہے؟ انہیں کیا معلوم کہ نگدی، بتاشے اور سفید مکھانے شیشوں والے ڈبوں میں پڑے ہوئے کتنے پراسرار لگتے ہیں اور انہیں کھانے میں کیا لطف آتا ہے۔‘سچ تو یہ ہے کہ ہمارے بچوں ان سب سے ناواقف ہیں، یہ ان کی دنیا نہیں۔ یہ ہماری دنیا تھی اور رہے گی، کم از کم ہماری یادوں میں یہ سب ہمیشہ تروتازہ اور سدا شگفتہ رہے گا۔