
جولائی کے آغاز میں اسلام آباد کے ایک نجی بینک میں معمول کا آپریشن جاری تھا کہ ایک صارف 50 لاکھ روپے کا پے آرڈر لے کر برانچ میں داخل ہوا۔ صارف کی جانب سے بتایا گیا کہ پے آرڈر اس کے نام پر ہے اور رقم اس کے بتائے گئے اکاؤنٹ میں منتقل کی جائے۔بینک کے عملے نے معمول کے مطابق پے آرڈر کی تصدیق کی، اسے متعلقہ ضوابط کے مطابق پرکھا اور بالآخر رقم متعلقہ اکاؤنٹ میں منتقل کر دی گئی۔یہ صارف چلا گیا تو کچھ دیر بعد ایک اور شخص جس کے نام سے یہ پے آرڈر جاری کیا گیا تھا، اسی برانچ میں داخل ہوا اور پے آرڈر ہاتھ میں تھامے عملے کو بتایا کہ وہ اسے منسوخ کرانے آیا ہے۔یہ سن کر بینک کا عملہ حیران رہ گیا کیوں کہ اسی نام کا پے آرڈر تھوڑی دیر قبل کیش ہو چکا تھا۔بینک نے صارف کو جواب دیا کہ پے آرڈر چوںکہ متعلقہ صارف کے نام پر جاری ہوا تھا چناںچہ تمام کارروائی مکمل کرنے کے بعد متعلقہ صارف کو رقم جاری کی جا چکی ہے۔ لیکن صارف نے اس دعوے کی تردید کی اور احتجاج کیا کہ اس کے ساتھ فراڈ ہوا ہے اور اسے رقم واپس دی جائے۔حالیہ دنوں میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے متعدد بینکوں میں اس نوعیت کے کیسز سامنے آئے ہیں، جن میں بظاہر اصلی دکھائی دینے والے پے آرڈرز کے ذریعے فراڈ کیا گیا۔مذکورہ واقعے میں بھی 50 لاکھ روپے کی رقم ایک نجی بینک کی برانچ سے جعلی پے آرڈر پر نکلوائی گئی، جس کے بعد بینک نے داخلی انکوائری کے بعد متاثرہ صارف کو رقم واپس کر دی۔ اسی طرح راولپنڈی کے ایک اور نجی بینک میں بھی 24 لاکھ روپے کا پے آرڈر جعلی نکلا۔اس معاملے پر متعلقہ بینک حکام نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’بینک ہر ایسے کیس میں سب سے پہلے داخلی انکوائری کرتا ہے تاکہ یہ جانا جا سکے کہ واقعہ کیوں پیش آیا۔ اگر سسٹم میں کوئی خامی یا ملازم کی غلطی ہو تو اس کا ازالہ کیا جاتا ہے۔‘اردو نیوز نے جب پوچھا کہ کیا پولیس سے رجوع کیا گیا ہے، تو حکام نے بتایا کہ تاحال ایسا کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا، تاہم اگر ایسے کیسز کی تعداد بڑھی تو قانونی کارروائی پر بھی غور کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ متاثرہ صارفین کو بینک کے داخلی نظام کے تحت ان کی رقوم واپس کر دی گئی ہیں۔سٹیٹ بینک کی کوشش ہوتی ہے کہ بینکنگ قواعد و ضوابط اور ایس او پیز کو مضبوط بنایا جائے (فوٹو: اے پی پی)ابتدائی انکوائری میں شبہ ظاہر کیا گیا ہے کہ بعض کیسز میں اصل اکاؤنٹ ہولڈر خود کسی دوسرے فرد سے مل کر دھوکہ دے سکتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص اپنے نام پر اصل پے آرڈر بنوا کر اس کی تصاویر کسی دوسرے کو بھیج دے، اور وہ دوسرا شخص انہی تصاویر کی بنیاد پر جعلی پے آرڈر تیار کرکے بینک سے رقم نکلوا لے تو بینک سسٹم کو دھوکہ دیا جا سکتا ہے۔تاہم اس پہلو پر مزید تفتیش جاری ہے اور ممکنہ طور پر پولیس سے بھی رجوع کیا جائے گا۔اردو نیوز نے سٹیٹ بینک آف پاکستان سے بھی رابطہ کیا جو ملک میں بینکوں کا ریگولیٹر ادارہ ہے۔بینک نے کیس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ ’بینک نے متاثرہ صارف کو رقم واپس کر دی ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی واضح کیا کہ سٹیٹ بینک ریگولیٹر کی حیثیت سے نگران کا کردار ادا کرتا ہے، لیکن ایسے سکیمز کی ذمہ داری متعلقہ بینکوں پر عائد ہوتی ہے۔‘سٹیٹ بینک کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ اگر کسی صارف کے ساتھ فراڈ ہو جائے تو اس کے لیے ’بینکنگ محتسب‘ کا پلیٹ فارم موجود ہے جہاں شکایت درج کروائی جا سکتی ہے اور اس پر کارروائی ممکن ہے۔سٹیٹ بینک کی کوشش ہوتی ہے کہ بینکنگ قواعد و ضوابط اور ایس او پیز کو اتنا مضبوط بنایا جائے کہ کسی بھی قسم کا ’لُوپ ہول‘ باقی نہ رہے، تاہم ٹیکنالوجی کے ترقی کرتے نظام میں چالاک دھوکہ باز اکثر نئے طریقے نکال لیتے ہیں۔اردو نیوز نے اس فراڈ کی نوعیت کو سمجھنے کے لیے فنانشل اور سائبر سکیورٹی ماہرین سے بھی بات کی۔معاشی امور کے ماہر اور سابق وزیر مملکت ہارون شریف کے مطابق فیک پے آرڈر کے ذریعے رقم نکالنے کے کئی طریقے ہو سکتے ہیں۔ سب سے عام طریقہ بینک کے کسی ملازم کی ملی بھگت یا لاپرواہی ہے، جو صارف کی معلومات لیک کرکے فیک پے آرڈر کی تصدیق میں مدد دے سکتا ہے۔محمد اسد الرحمان کے مطابق فراڈ کی وجہ یا تو بینک سٹاف کی لاپرواہی یا سسٹم کا بائی پاس ہونا ہو سکتی ہے (فوٹو: پکسابے)انہوں نے کہا کہ اصل مسئلہ یہی ہے کہ پے آرڈر کی منتقلی سے پہلے متعلقہ صارف کو کال کر کے تصدیق نہیں کی جاتی جو کہ بینک کی ذمہ داری ہے۔ہارون شریف نے مزید کہا کہ بعض کیسز میں جعل ساز کسی بیرون ملک مقیم صارف کی غیرموجودگی کا فائدہ اٹھا کر اس کی معلومات چرا کر پے آرڈر تیار کرتے ہیں اور رقم نکلوا لیتے ہیں۔اسلام آباد میں انفارمیشن سکیورٹی کے ماہر محمد اسد الرحمان کے مطابق ایسے فراڈ عام طور پر دو بنیادی وجوہات کی بنا پر ہوتے ہیں: یا تو بینک سٹاف کی لاپرواہی یا سسٹم کا بائی پاس ہونا۔انہوں نے بتایا کہ اگرچہ پے آرڈر کو ایک محفوظ مالیاتی طریقہ کار سمجھا جاتا ہے، لیکن آج کل جعلی سٹیمپ، دستخط اور پرنٹنگ کے ذریعے اصلی جیسے دکھنے والے جعلی پے آرڈر تیار کیے جا سکتے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ آج کے جدید سینٹرلائزڈ بینکنگ سسٹم میں اس قسم کے فراڈ کم ہونے چاہییں، لیکن اگر عملہ غفلت برتے یا سسٹم میں کوئی خامی ہو تو یہ ممکن ہو جاتا ہے۔انہوں نے نشاندہی کی کہ بینکنگ عملے پر اکثر بیک وقت کئی ذمہ داریاں ہوتی ہیں، جس کے باعث وہ تسلی سے ویریفکیشن نہیں کر پاتے۔ یہی انسانی غلطیاں ایسے فراڈز کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ سٹیٹ بینک کو اپنے ریگولیٹری نظام کو مزید مؤثر اور جدید بنانا ہوگا تاکہ صارفین کے اعتماد کو برقرار رکھا جا سکے اور ایسے سکیمز کا بروقت سدباب ممکن ہو۔