
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں بہنے والا دریائے راوی صدیوں سے شہر کی ثقافت، تاریخ اور روزگار کا مرکز رہا ہے۔اس کے کناروں پر کبھی رونقیں ہوا کرتی تھیں، مچھیرے اور کاریگر اپنی اپنی دنیا بسائے رکھتے تھے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ دریا کی روانی سست پڑی اور اس کے ساتھ ہی اس سے جڑے روایتی ہنر بھی دم توڑ رہے ہیں۔انہی کناروں پر 80 سالہ عبدالمجید آج بھی اپنے ہاتھوں سے لکڑی تراش کر کشتیوں کو نئی زندگی دیتے ہیں۔وہ اپنی نسل کے آخری کاریگر ہیں جنہوں نے اس قدیم فن کو زندہ رکھا ہوا ہے لیکن ان کے بعد اس ورثے کا مستقبل تاریک دکھائی دیتا ہے۔عبدالمجید راوی کے کنارے پر ’مجید مستری‘ کے نام سے مشہور ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں لکڑی کے تختے، چھینی اور ہتھوڑی جب حرکت کرتے ہیں تو گویا دریا کی روانی سے ہم آہنگ ہو جاتے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے دس سال کی عمر میں اپنے والد کے ساتھ یہ کام سیکھنا شروع کیا تھا۔انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’میرے والد، دادا، حتیٰ کہ پڑدادا بھی یہی کام کرتے تھے۔ یہ ہمارا خاندانی ہنر ہے لیکن میرے بعد اسے کوئی جاری نہیں رکھ سکے گا کیونکہ کوئی اسے سیکھنے والا نہیں ہے۔‘ان کے بیٹوں نے شہری زندگی کو ترجیح دی اور جدید دور کی چکاچوند نے اس روایتی پیشے کی کشش ماند کر دی ہے۔راوی پل کے نیچے آج بھی کئی طرح کے لوگ موجود ہیں۔ اس کے ایک جانب ایک طرف ٹھنڈا شربت تو دوسری طرف کھانے پینے کی اشیا فروخت ہو رہی ہیں جبکہ راوی پر بسنے والے لوگوں نے یہاں اپنی عارضی رہائش گاہیں بھی تعمیر کر رکھی ہیں۔ دن کے وقت یہاں گاڑیاں اور موٹر سائیکلیں نظر آتی ہیں۔ یہ راوی کا وہ حصہ ہے جہاں کبھی دریا بہہ رہا ہوتا تھا۔دریائے راوی میں جب کسی ملاح کی کشتی خراب ہوتی ہے تو ’مجید مستری‘ سے رابطہ کیا جاتا ہے (فوٹو: اردو نیوز)اسی پل کے نیچے عبدالمجید کی ایک سادہ سی ورکشاپ ہے جہاں لکڑی کے تختوں، پینٹ کے ڈبوں اور اوزاروں کے درمیان عبدالمجید اپنا جادو جگاتے ہیں۔ورکشاپ کی کوئی جگہ مستقل نہیں ہے۔ وہ اپنے ارد گرد اوزار رکھ کر کہیں بھی کشتی بنانے میں مگن ہو جاتے ہیں اور وہ جگہ ورکشاپ کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔ان دنوں عبدالمجید کے پاس ایک سرکاری کالج کی کشتی پڑی ہے جس کی وہ مرمت کر رہے ہیں۔ایک دوسری کشتی جو انہوں نے حال ہی میں تیار کی ہے، کنارے پر کھڑی ہے۔ اس میں پانی بھرا ہوا ہے تاکہ دیکھنے والوں کو اس کی پائیداری پر یقین ہو۔وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ایسی کشتی بناتا ہوں جو دریا میں کبھی دھوکا نہیں دیتی۔ اکثر کشتیاں سواریاں زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈوب جاتی ہیں جس کا الزام کاریگر پر لگایا جاتا ہے۔‘دریائے راوی میں جب کسی ملاح کی کشتی خراب ہوتی ہے تو ’مجید مستری‘ سے رابطہ کیا جاتا ہے۔عبدالمجید بتاتے ہیں کہ ’میں طویل عرصہ سے یہی کام کر رہا ہوں۔ جب کسی کی کشتی مرمت کرنی ہو تو فون کر دیتے ہیں اور میں چلا جاتا ہوں۔ جب میں نے کام شروع کیا تھا تو تب 250 روپے کی ایک کشتی بنائی تھی۔ اب یہ کشتی 8 لاکھ روپے میں بنتی ہے جس میں 15 دن تو لگ ہی جاتے ہیں۔‘عبدالمجید صبح دس بجے اپنی ورکشاپ پر جاتے ہیں اور عصر کے بعد واپس چلے جاتے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)وہ شکوہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ لکڑی مہنگی ہونے کی وجہ سے ان کا کام اب ختم ہوتا جا رہا ہے جبکہ کالجز کے روئنگ کلبز کے مابین مقابلے نہ ہونے کی وجہ سے بھی ان کا کام متاثر ہوا ہے۔’کالجوں میں روئنگ کلبز ہوتے تھے تو وہ یہاں آ کر مقابلوں کے لیے کشتیاں بناتے تھے لیکن اب وہ کلبز نہیں ہیں اس لیے کام بھی نہیں ہے۔‘عبدالمجید صبح دس بجے اپنی ورکشاپ پر جاتے ہیں اور عصر کے وقت نماز پڑھ کر واپس چلے جاتے ہیں۔وہ سارا کام اکیلے کرتے ہیں اور کسی کو بطور شاگرد نہیں رکھا۔ وہ اپنے ہنر سے متعلق بتاتے ہیں کہ ’میں نے شنگریلا جھیل اور آزاد کشمیر کے کلائنٹس کے لیے بھی کشتیاں بنائی ہیں۔ دیار کی لکڑی استعمال ہوتی ہے جو جڑانوالہ سے لائی جاتی ہے لیکن اب لکڑی کی قیمت بہت بڑھ گئی ہے۔‘’مجید مستری‘ کے ساتھ ساتھ دریائے راوی بھی اب ویسا نہیں رہا جیسا یہ کبھی ہوا کرتا تھا۔ شاہد محمود نے کہا کہ ’افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان کے بعد کوئی دوسرا یہ کام جاری نہیں رکھے گا۔‘ (فوٹو: اردو نیوز)شاہد محمود ایک ملاح ہیں۔ وہ سیاحوں کو سو روپے کے عوض دریا کی سیر کراتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ دریا کا پانی اب کھارا ہو چکا ہے۔’فیکٹریوں کے زہریلے پانی اور سیوریج کی وجہ سے پانی میں تیزابیت بڑھ گئی ہے۔ اس سے کشتیوں کی لکڑی جلد خراب ہو جاتی ہے۔‘شاہد محمود مزید بتاتے ہیں کہ ’مجید مستری جیسا کوئی دوسرا نہیں۔ ان کے تایا کو ہم نے کام کرتے دیکھا لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔‘شاہد کی باتوں سے اداسی جھلکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ دریا اب صرف سیاحوں کی سیر تک محدود ہو گیا ہے۔’مچھلیاں کم ہوئیں، پانی گدلا ہوا، اور روایتی روزگار دم توڑ رہے ہیں لیکن عبدالمجید کی بنائی کشتیوں پر اب بھی کئی ملاحوں کا روزگار چلتا ہے۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ ان کے بعد کوئی دوسرا یہ کام جاری نہیں رکھے گا۔‘