
انتباہ: اس رپورٹ کی کچھ تفصیلات پریشان کن ہو سکتی ہیںدو ہفتے قبل انڈیا کے ساحلی شہر منگلورو میں ایک صفائی کرنے والے ملازم نے دعویٰ کیا تھا کہ اس نے 1995 سے 2014 کے درمیان تقریباً 100 لاشوں کو مختلف مقامات پر دفن کیا ہے جن میں ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین بھی شامل تھیں۔ شکایت کنندہ، جو دھرم استھالا کے ایک مشہور مذہبی ادارے میں کام کرتے تھے، نے انڈین سول ڈیفنس کوڈ (بی این ایس ایس) کی دفعہ 183 کے تحت مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان درج کرایا۔ان کا کہنا ہے کہ وہ اتنے سال تک خاموش رہے کیونکہ اس وقت ان کے اعلیٰ حکام نے انھیں جان سے مارنے کی دھمکی دی تھی۔اس دعوے کی وجہ سے ایک ایسی خاتون بھی سامنے آئی ہیں، جن کی بیٹی دو دہائی قبل لاپتہ ہو گئی تھی۔ انھوں نے پولیس سے اپیل کی کہ اگر لاشوں کی شناخت ہو جائے تو وہ ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے تیار ہیں۔22 سال سے زیادہ پرانے اس معاملے میں پولیس نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ تفتیش کیسے آگے بڑھے گی۔ دریں اثنا سپریم کورٹ کے سینئر وکلا کی ایک ٹیم نے تحقیقات کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھائے ہیں۔سپریم کورٹ کے سینئر وکیل کے وی دھننجے نے کہا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ اجتماعی قبروں کی تلاشی سے بچنے اور ان لوگوں کو بچانے کے لیے ایک حکمت عملی اپنائی جا رہی ہے، جن کے نام سامنے آ سکتے ہیں۔‘دریں اثنا کرناٹک حکومت نے اتوار کو اس معاملے کی جانچ کے لیے ایک خصوصی تحقیقاتی ٹیمتشکیل دی۔ جس کی سربراہی ڈی جی پی رینک کے افسر پرنب موہنتی کر رہے ہیں۔سپیشل انویسٹی گیشن ٹیم میں انٹرنل سکیورٹی ڈویژن کے ڈی جی پی پرنب موہنتی، ڈی آئی جی ریکروٹمنٹ ایم این انوشیتھ (جو پہلے گوری لنکیش قتل معاملے میں شامل تھے)، بنگلورو سٹی آرمڈ ریزرو ہیڈکوارٹر کی ڈی سی پی سومیا لتا اور انٹرنل سکیورٹی ڈویژن کے ایس پی جتیندر کمار دیاما شامل ہیں۔اس سے پہلے سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس گوپال گوڑا سمیت کئی سینئر وکیلوں نے اس معاملے میں خصوصی تحقیقاتی ٹیم کی تشکیل کا مطالبہ کیا تھا۔اس مطالبے پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کرناٹک کے وزیر اعلیٰ سدارامیا نے کہا تھا کہ ’حکومت کسی دباؤ میں کام نہیں کرے گی۔ ہم قانون کے مطابق کارروائی کریں گے۔‘الزامات کیا ہیں؟شکایت درج کرانے والے ملازم کی شناخت سکیورٹی وجوہات کی بنا پر ظاہر نہیں کی گئی ہے۔ انھوں نے شری شیتر دھرم استھالا منجوناتھ سوامی مندر میں صفائی کا کام کیا جسے دھرم استھالا مندر بھی کہا جاتا ہے۔یہ مندر جنوبی انڈیا کا ایک اہم مذہبی مقام مانا جاتا ہے جو تقریباً 800 سال پہلے قائم کیا گیا تھا۔ یہ ایک شیو مندر ہے، جس کی دیکھ بھال ویشنو روایت کے پجاری کرتے ہیں۔شکایت کنندہ نے بتایا کہ وہ 1990 اور 2013 کے درمیان نیتراوتی ندی کے ساتھ باقاعدہ صفائی کا کام کرتے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے کام کی نوعیت تبدیل ہو گئی اور ان میں ’سنگین جرائم کے ثبوت چھپانے‘ کی ذمہ داری بھی شامل ہو گئی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کئی خواتین کی لاشوں کو برہنہ دیکھا اور ان پر جنسی تشدد اور حملے کے واضح نشانات تھے۔درخواست گزار کے مطابق جب انھوں نے پولیس کو اس بارے میں بتانے کے لیے کہا تو انتظامیہ نے انکار کر دیا۔ ان کا دعویٰ ہے کہ جب انھوں نے حکم ماننے سے انکار کیا تو انہیں دھمکی دی گئی اور ان سے کہا گیا کہ ’ہم تمھارے ٹکڑے ٹکڑے کر دیں گے، تمھارا جسم باقی لوگوں کی طرح دفن ہو جائے گا اور ہم تمھارے پورے خاندان کو قتل کر دیں گے۔‘Getty Imagesسابق ملازم کا دعویٰ ہے کہ انھوں نے کئی خواتین کی لاشوں کو برہنہ دیکھا اور ان پر جنسی تشدد اور حملے کے واضح نشانات تھےوہ بتاتے ہیں کہ ’2010 کا ایک واقعہ مجھے اب بھی پریشان کرتا ہے، جب محافظ مجھے کلیری کے ایک پٹرول پمپ سے تقریبا 500 میٹر دور ایک جگہ پر لے گئے تھے۔ وہاں میں نے ایک نوجوان کی لاش دیکھی، جس کی عمر 12 سے 15 سال کے درمیان تھی۔ اس کے جسم پر بہت کم کپڑے تھے اور جنسی تشدد کے واضح نشانات تھے۔ اس کی گردن پر گلا گھونٹنے کے نشانات تھے۔ مجھے ایک گڑھا کھودنے اور اسے اور اس کے سکول بیگ کو دفن کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ وہ منظر اب بھی میری آنکھوں میں تازہ ہے۔‘’ایک اور واقعہ جو میں نہیں بھول سکتا وہ ایک 20 سالہ خاتون کا تھا جس کا چہرہ تیزاب سے جل گیا تھا۔‘ ایف آئی آر کے مطابق، ان لوگوں کو قتل کرنے کا طریقہ کار ’انتہائی وحشیانہ‘ تھا۔۔درخواست گزار کے مطابق یہ واقعات ان کے سامنے پیش آئے۔ ’کبھی کبھی، مجھے ان لاشوں پر ڈیزل ڈالنے کی ہدایت دی جاتی تھی۔ پھر حکم آیا کہ لاشوں کو جلا دیا جائے تاکہ کوئی ثبوت باقی نہ رہے۔ اسی طرح سینکڑوں لاشوں کو تباہ کیا گیا۔‘شکایت کنندہ نے کہا کہ وہ اب ’ذہنی دباؤ‘ برداشت نہیں کر سکتے اور اپنے خاندان کے ساتھ ریاست سے باہر منتقل ہو گئے ہیں۔ایف آئی آر میں لکھا ہے کہ ’جن لوگوں کے نام کا میں ذکر کر رہا ہوں، وہ مندر انتظامیہ اور دیگر عملے سے جڑے ہوئے ہیں۔ میں ابھی ان کے نام ظاہر نہیں کر سکتا کیونکہ کچھ لوگ بہت بااثر ہیں۔ جیسے ہی مجھے اور میرے خاندان کو قانون کے تحت تحفظ حاصل ہوگا میں ان تمام ناموں اور ان کے کرداروں کو عام کرنے کے لیے تیار ہوں۔‘ثبوت پیش کرنے کے لیے صفائی کرنے والے ملازم نے خود ایک قبر کھودی اور مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرتے ہوئے تصاویر اور ثبوت پیش کیے۔ ان کا بیان انڈین سول ڈیفنس کوڈ (بی این ایس ایس) کی دفعہ 183 کے تحت درج کیا گیا تھا۔بتایا گیا ہے کہ مجسٹریٹ کے سامنے شکایت کنندہ کو سر سے پاؤں تک کالے کپڑے سے مکمل طور پر ڈھانپ دیا گیا تھا۔بلوچستان میں خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو: چیف جسٹس کا ازخود نوٹس، ’مقتولہ خاتون کو سات، مرد کو نو گولیاں لگیں‘’یہ تم نے کیا ہے‘: جب ایک ڈاکٹر نے چند منٹ میں ساس، سسر سمیت چار افراد کو زہر دینے والی ’سنگ دل قاتلہ‘ کو پہچان لیااپنی بیوی کا اجنبیوں سے مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’میری والدہ اس شخص کی دیکھ بھال کر رہی تھیں جس نے اُن کا ریپ کروایا‘خدا کی بستی میں ’غیرت‘ کے نام پر میاں، بیوی اور دو بچوں کا قتل جس کی ’اطلاع مبینہ قاتلوں نے خود دی‘تحقیقات پر اٹھنے والے سوالسپریم کورٹ کے سینئر وکیل کے وی دھننجے کا ماننا ہے کہ تحقیقات کی سست رفتار تشویش کا باعث ہے۔ انھوں نے کہا کہ ’شکایت 4 جولائی کو درج کرائی گئی تھی۔‘ وہ کہتے ہیں کہ’شکایت کنندہ مجسٹریٹ کے سامنے اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے دفن کی گئی لاش کی باقیات کو بھی سامنے لایا۔ آٹھ دن سے زیادہ کا وقت گزر چکا ہے، پھر بھی پولیس نے شکایت کنندہ کو موقع پر لے جانے اور جائے وقوعہ کا معائنہ کرنے کی کوشش نہیں کی ہے۔‘جنوبی کنڑا ضلع کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ڈاکٹر ارون کے کی رائے مختلف ہے۔ انھوں نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ ’عام حالات میں 10-15 سال بعد ایسا کوئی کیس درج نہیں ہوتا۔ تاہم، یہ اس بات پر منحصر ہے کہ معاملہ کیا ہے، اور ذمہ داری تفتیشی افسر (آئی او) کی ہے. اس کے بعد تحقیقات ایک عمل سے گزرتی ہیں۔ چونکہ اس معاملے کی جانچ کی جا رہی ہے، اس لیے اس مرحلے پر مزید تفصیلات شیئر نہیں کی جا سکتی ہیں۔‘شکایت کنندہ کو تفتیشی افسر کے سامنے اپنا بیان بھی ریکارڈ کرانا ہوگا۔ انھوں نے مجسٹریٹ کے سامنے جو کچھ کہا ہے وہ ایک الگ معاملہ ہے۔ انہیں تفتیشی افسر کے سامنے کب طلب کیا جائے گا، یہ اس عمل کا حصہ ہے۔اس تنقید پر کہ شکایت کنندہ کو اس مقام پر بھی نہیں لے جایا گیا جہاں اس نے قبر سے باقیات نکالی تھیں، ڈاکٹر ارون کہتے ہیں ’سب سے پہلے، ہمیں اس کی شکایت کی صداقت کی تصدیق کرنی ہوگی۔ کھدائی اس نے خود کی ہے۔ ہمیں اس کے قانونی جواز کی جانچ کرنی ہوگی۔ میں آپ سے اتفاق کرتا ہوں کہ اگلا قدم معائنہ کرنا اور پوچھ گچھ کرنا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئیے کہ قبر کھودنا ایک جرم ہے۔ اس بارے میں سپریم کورٹ کے فیصلے بھی ہیں۔ ہمیں تحقیقات اور تصدیق کے لیے وقت کی ضرورت ہے۔‘پرانا زخم ایک بار پھر تازہ ہو گیاصفائی کرنے والے ملازم کی شکایت سامنے آنے کے بعد سجاتا بھٹ نامی ایک خاتون نے 22 سال قبل پراسرار حالات میں لاپتہ ہونے والی اپنی بیٹی کی یادیں شیئر کیں۔ سجاتا کی بیٹی اننیا بھٹ منی پال میں میڈیکل کالج کے پہلے سال کی طالبہ تھی۔ سجاتا کے مطابق ان کی بیٹی کو آخری بار دھرم استھالا میں دیکھا گیا تھا۔ان کے وکیل منجوناتھ این نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ وہ کسی کے خلاف کوئی الزام نہیں لگا رہی ہیں۔ وہ صرف یہ چاہتی ہیں کہ اگر اس صفائی کرنے والے ملازم کی شکایت پر لاشوں کی کھدائی کی جائے تو ان کا ڈی این اے ٹیسٹ کرایا جائے۔ ان کا مقصد صرف اپنی بیٹی اننیا کی موت کو قبول کرنا اور آخری رسومات ادا کرنے کے قابل ہونا ہے۔ڈاکٹر ارون کو اپنی درخواست سونپنے کے بعد سجاتا بھٹ نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 2003 میں جب اننیا لاپتہ ہوئی تھیں تو وہ کولکاتہ میں سی بی آئی دفتر میں سٹینوگرافر کے طور پر کام کر رہی تھیں۔وہ کہتی ہیں کہ ’میں دھرم استھالا گئی تھی۔ وہاں میں نے افسروں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن مجھے بھگا دیا گیا۔ اس کے بعد میں پولیس سٹیشن گئی مگر وہاں سے بھی نکال دیا گیا۔‘ڈاکٹر ارون نے بی بی سی ہندی کو بتایا کہ سجاتا بھٹ کی درخواست کو ایک الگ تھلگ معاملے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم اسے اس معاملے سے جوڑ کر نہیں دیکھ سکتے۔ لیکن اس کی بھی جانچ کی جا رہی ہے۔‘کیا یہ دعویٰ قابل اعتبار ہے؟سال 2012 میں17 سالہ طالبہ سوجنیا کے ریپ اور قتل نے ریاست میں بحث چھیڑ دی تھی۔ اس وقت خواتین پر حملوں اور قتل سے متعلق واقعات کی تحقیقات کے لیے قانون سازوں کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی، جس کی سربراہی وی ایس اگرپا کر رہے تھے۔23 جنوری 2017 کو ایک ایڈیشنل سپرنٹنڈنٹ آف پولیس نے کمیٹی کے سامنے بیان دیا کہ جنوبی کنڑا ضلع میں ہر سال 100 خواتین کی غیر فطری موت کی اطلاع ملتی ہے۔ اسی ضلع میں 402 خواتین لاپتہ ہوئیں اور ریپ کے 106 معاملے درج کیے گئے۔اس رپورٹ کو ریاستی کابینہ نے چند ہفتے پہلے منظوری دی تھی۔1983 میں دھرم استھالا سے چار خواتین کے لاپتہ ہونے کا مسئلہ کرناٹک اسمبلی میں بیلتھانگڈی کے ایم ایل اے کے وسنتا بنگیرا نے اٹھایا تھا۔ٹک ٹاک پر ’قابل اعتراض ویڈیوز‘ بنانے پر 14 سالہ لڑکی قتل: ’حرا نے ابو ابو کی آوازیں لگائیں‘بیوی کے ریپ کا مقدمہ، 50 ملزمان کی پیشی: ’ہم روزانہ سیکس کرتے تھے، میرے ساتھی کو اس کی ضرورت کیوں پڑی‘اپنی بیوی کا اجنبیوں سے مبینہ ریپ کروانے والا شوہر: ’میری والدہ اس شخص کی دیکھ بھال کر رہی تھیں جس نے اُن کا ریپ کروایا‘خدا کی بستی میں ’غیرت‘ کے نام پر میاں، بیوی اور دو بچوں کا قتل جس کی ’اطلاع مبینہ قاتلوں نے خود دی‘بلوچستان میں خاتون اور مرد کے قتل کی وائرل ویڈیو: چیف جسٹس کا ازخود نوٹس، ’مقتولہ خاتون کو سات، مرد کو نو گولیاں لگیں‘’یہ تم نے کیا ہے‘: جب ایک ڈاکٹر نے چند منٹ میں ساس، سسر سمیت چار افراد کو زہر دینے والی ’سنگ دل قاتلہ‘ کو پہچان لیا