
"میرا بھانجا بسکٹس لینے نکلا تھا، کبھی سوچا نہیں تھا کہ یوں سڑک پر بھیک مانگتا ملے گا"
کراچی میں کمسن بچوں کو اغوا کر کے بھیک منگوانے والے منظم گروہ کا پردہ فاش ہو گیا، جب شاہ لطیف ٹاؤن کی سڑک پر ایک تین سالہ گمشدہ بچہ اچانک لوگوں کے سامنے آ گیا, ہاتھ میں کشکول، چہرے پر بے بسی، اور پیچھے کھڑا وہ شخص جو اسے سڑک پر دھکیل رہا تھا۔
بچے کا نام حسین علی ہے، جو دو ماہ قبل اچانک لاپتہ ہو گیا تھا۔ لیکن قسمت نے اُس وقت ایک نیا موڑ لیا جب اس کا چچا ناصر، فاروق اعظم مسجد سے نماز پڑھ کر باہر نکلا اور ایک بھکاری کے ساتھ ایک بچے کو دیکھ کر ٹھٹھک گیا۔ قریب جا کر غور کیا تو ہوش اُڑ گئے—یہ تو اس کا اپنا بھانجا حسین تھا۔
چند ہی لمحوں میں لوگوں نے بچے کے ساتھ موجود مشتبہ شخص کو دبوچ لیا اور پولیس کے حوالے کر دیا۔ اس شخص کی شناخت شہریار کے نام سے ہوئی ہے، جو پولیس کی تفتیش میں حیران کن انکشافات کرنے لگا۔ اس نے اقرار کیا کہ وہ حسین سے روزانہ دو سے تین ہزار روپے تک بھیک منگواتا تھا، اور یہ بچہ اُسے اُس کے سسر سلطان نے دیا تھا۔
یہ حالات ہیں کراچی کے: شاہ لطیف ٹاؤن سے اغوا ہونے والے بچے کو بھیک مانگتے دیکھ کر اہل خانہ نے پہچان لیا، مبینہ اغوا کار گرفتار-شہر قائد کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں ایک دلخراش واقعے نے سب کو ہلا کر رکھ دیا، جہاں تقریباً ڈھائی ماہ قبل اغوا ہونے والا معصوم بچہ حسین علی بھیک… pic.twitter.com/sSiTodGgm1— Amir H. Qureshi (@AmirHQureshi) July 21, 2025
ابتدائی تفتیش میں پولیس کو شواہد ملے ہیں کہ شہریار صرف ایک مہرہ ہے، جبکہ اس گھناؤنے دھندے کے پیچھے ایک مکمل نیٹ ورک کام کر رہا ہے، جو کمسن بچوں کو اغوا کر کے اُن سے زبردستی بھیک منگواتا ہے۔ پولیس نے مزید بچوں کی بازیابی اور گروہ کے دیگر کارندوں تک پہنچنے کے لیے تحقیقات کا دائرہ وسیع کر دیا ہے۔
شہریوں نے واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بچوں کے اغوا اور ان کے استحصال کے خلاف سخت قوانین نافذ کریں اور ایسے عناصر کو کڑی سزا دی جائے جو معصوم بچپن کو پیسوں کی ہوس میں بیچ دیتے ہیں۔
ادھر پولیس حکام کا کہنا ہے کہ وہ ایسے تمام مقدمات کو سنجیدگی سے دیکھ رہے ہیں اور دیگر علاقوں میں بھی اسی نوعیت کے کیسز کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ والدین سے اپیل کی گئی ہے کہ اپنے بچوں پر کڑی نظر رکھیں اور کسی بھی مشکوک سرگرمی کی فوری اطلاع متعلقہ اداروں کو دیں۔
پاکستان میں بچوں کے اغوا اور ان سے جبری مشقت کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے، اور اس سانحے نے ایک بار پھر اس المیے کو سب کے سامنے بے نقاب کر دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ریاست صرف نوٹس لیتی ہے یا عملی اقدامات بھی ہوتے ہیں۔