
BBC’وہ (ایرانی پولیس) مجھے مارنے کے لیے پانی کے پائپ اور لکڑی کی چھڑیاں استعمال کرتے تھے۔ انھوں نے ہمارے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا۔‘علی احمد (فرضی نام) ان بے شمار افغان باشندوں میں سے ایک ہیں جو چند روز قبل ایران افغانستان کی سرحد پر واقع قصبے اسلام قلعہ میں موجود تھے اور جنھیں ’قومی سلامتی کے لیے خطرہ‘ قرار دیتے ہوئے ایران سے ملک بدر کیا جا رہا تھا۔ افغانستان واپس جانے سے پہلے انھوں نے بی بی سی سے بات چیت کی۔انھوں نے بتایا کہ وہ ایران میں ڈھائی سال سے مقیم تھے تاہم جاسوسی کا الزام عائد کرتے ہوئے جب انھیں حراست میں لیا گیا تو ایرانی افسران نے ان پر بہت تشدد کیا۔ علی احمد نے یہ بات کہتے ہوئے اپنی قمیض اٹھا کر کمر پر گہرے زخم بھی دکھائے۔ تشدد کی اس کہانی کو بتاتے ہوئے ان کی آنکھیں بھیگ گئیں۔ علی احمد نے الزام عائد کیا کہ ایرانی حکام نے ان کی رقم اور فون ضبط کر لیے اور ’واپس جانے کے لیے ایک پیسہ بھی‘ پاس نہ رہنے دیا۔ واضح رہے کہ ایران نے رواں سال مارچ میں بغیر دستاویزات والے افغان باشندوں کو رضاکارانہ طور پر اپنے ملک جانے کے لیے جولائی کی ڈیڈ لائن دی تھی تاہم جون میں اسرائیل کے ساتھ ایک مختصر جنگ کے بعد سے بے دخلی کے اس عمل میں تیزی آئی اور ایرانی حکام نے قومی سلامتی کے خدشات کا الزام لگاتے ہوئے لاکھوں افغان باشندوں کو زبردستی واپس بھیج دیا۔ایران کے مطابق وہ 40 لاکھ سے زیادہ افغان باشندوں کی میزبانی کرتا رہا ہے جو اپنے وطن میں تنازعات کے دوران وہاں سے فرار ہوئے۔ اقوام متحدہ کے مطابق جولائی کے آغاز میں دشوار گزار سفر کے بعد ایران سے افغانستان لوٹنے والوں کی یومیہ تعداد تقریباً 50,000 افراد تک جا پہنچی تھی۔’قربانی کے بکرے‘ایران کا افغان باشندوں کے خلاف کریک ڈاؤن ایسے وقت میں ہوا، جب بڑے پیمانے پر افغان باشندوں پر اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی موساد سے تعلق رکھنے کے سنگین الزامات لگائے گئے۔ اس میں کئی ایسی ایرانی میڈیا رپورٹس بھی شامل ہیں جن میں پولیس ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ کچھ افراد کو جاسوسی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔ایک شخص نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی افغان نیوز کو بتایا کہ ’ہم کہیں بھی جانے سے ڈرتے ہیں، مسلسل فکر مند رہتے ہیں کہ ہم پر جاسوس کا لیبل نہ لگا دیا جائے۔‘ان کے مطابق ان الزامات میں اکثر کہا جاتا ہے کہ ’آپ افغان جاسوس ہیں یا آپ اسرائیل کے لیے کام کرتے ہیں یا پھر یہ کہ آپ اپنے گھروں میں ڈرون بناتے ہیں۔‘امریکی محکمہ خارجہ میں افغانستان کے ماہر کے طور پر کام کرنے والے سینیئر سابق مشیر بارنیٹ روبن کہتے ہیں کہ تہران اسرائیل کے خلاف جنگ میں اپنی کوتاہیوں کے لیے ’قربانی کے بکرے تلاش‘ کر رہا ہے۔ان کے مطابق ’اسرائیل کی انٹیلیجنس ایجنسی ایران کے اندر جا پہنچی جس کے باعث ایرانی حکومت اپنی سکیورٹی کی ناکامیوں سے بہت خائف ہے اور انھیں الزام لگانے کے لیے کسی کو تلاش کرنا پڑا۔‘ناقدین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایرانی حکومت کی جانب سے جاسوسی کے الزامات کا مقصد بغیر دستاویزات والے افغان باشندوں کو ملک بدر کرنے کے منصوبے کے لیے ٹھوس اور قانونی حیثیت حاصل کرنا ہے۔بی بی سی نے اس حوالے سے ایرانی حکومت سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن تاحال کوئی جواب نہیں موصول ہوا۔ تاہم ریاست کی حمایت یافتہ اسلامی جمہوریہ نیوز ایجنسی نے 18 جولائی کو رپورٹ کیا کہ ’افغان پناہ گزینوں کی واپسی ہر سطح پر بغیر تناؤ اور انسانی حقوق کے احترام کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے کی جا رہی ہے۔‘’چار برس کی مانند طویل وہ چار دن‘عبداللہ رضائی ( فرضی نام) کی کہانی بھی علی احمد کی کہانی سے ملتی جلتی ہے۔ عبداللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ ایران کے جس حراستی مرکز میں انھیں رکھا گیا وہاں تقریباً 15 ایرانی افسران نے انھیں اور دیگر جلاوطن افراد کو جسمانی طور پر بہت نقصان پہنچایا۔ ’ایرانی پولیس نے میرا ویزا اور پاسپورٹ پھاڑ دیا اور مجھے شدید مارا پیٹا۔ انھوں نے مجھ پر جاسوس ہونے کا الزام لگایا۔‘Getty Imagesایک اندازے کے مطابق ایران میں 40 لاکھ سے زیادہ افغان باشندے مقیم ہیںعبداللہ کا کہنا ہے کہ ان کے پاس ایران کا ویزہ تھا اور وہ حراست میں لیے جانے سے صرف دو ماہ قبل ایران آئے تھے۔ انھوں نے ایرانی پولیس پر بدسلوکی اور جسمانی تشدد کے الزامات لگائے۔ ’انھوں نے ہمیں پلاسٹک کے ڈنڈوں سے مارا اور کہا کہ تم جاسوس ہو، ہمارے ملک کو برباد کر رہے ہو۔ جن چار دن میں ہمیں حراست میں لیا گیا وہ چار سال کی طرح محسوس ہوئے۔‘افغان باشندوں اور اسرائیلی خفیہ اداروں کے درمیان تعاون کے حوالے سے سامنے آنے والے آن لائن الزامات جنگ کے اوائل میں شروع ہوئے تھے۔13 جون کو جب اسرائیل نے ایرانی جوہری اور فوجی تنصیبات پر حملہ کیا تب ایران نے عوام کو مشتبہ سرگرمیوں کی اطلاع دینے کے حوالے سے ہدایات دیں۔ یہ بھی کہا گیا کہ ایسی گاڑیوں کی غیر معمولی نقل و حرکت پر نظر رکھیں جو ممکنہ طور پر اسرائیل کے لیے ہتھیاروں کی نقل و حمل کر رہے ہوں۔ اس کے بعد بڑے فالوورز رکھنے والے ٹیلی گرام چینلز کی جانب سے حکومت کے اسی طرح کے انتباہی پیغامات شائع کیے گئے تاہم ان میں مزید کہا گیا کہ عوام کو ’اجنبی شہریوں‘ سے ہوشیار رہنا چاہیے جو بڑے شہروں میں ویگنز چلاتے ہیں۔ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جسے ایران میں افغانوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔اگلے دن اسرائیلی حملوں سے مبینہ طور پر منسلک لوگوں کو حراست میں لینے کا سلسلہ شروع ہوا جن میں کچھ افغان شہری بھی شامل تھے۔16 جون کو نیوز چینلز نے افغان باشندوں کو حراست میں لیے جانے کی ایک ویڈیو نشر کی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھ ڈرون لے کر جا رہے تھے۔ یہ کلپ وائرل ہو گیا تاہم وہ ویڈیو پرانی تھی اور اس میں پناہ گزینوں کو ان کی غیر دستاویزی حیثیت کی وجہ سے حراست میں لیا گیا تھا۔18 جون کو پاسداران انقلاب سے منسلک ایک ٹیلی گرام گروپ نے آزاد مانیٹرنگ گروپ افغان وٹنس کا حوالہ دے کر پوسٹ کیا کہ مشہد شہر میں 18افغان باشندوں کو اسرائیل کے لیے ڈرون بنانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔اگلے دن صوبائی ڈپٹی سکیورٹی چیف کا حوالے دے کر رپورٹ کیا گیا کہ ان افغان شہریوں کی گرفتاری کا تعلق ’ڈرون سازی یا اسرائیل کے ساتھ رابطے‘ نہیں۔ انھیں صرف غیر قانونی طور پر ایران میں ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔‘لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیں’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟پاکستان اور ایران کے بعد کیا تاجکستان بھی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے؟ایران میں گرفتار کیے جانے والے افغان پناہ گزین جن پر اسرائیل کے لیے ’جاسوسی‘ کا الزام ہےلیکن گرفتاریوں کا تعلق جاسوسی سے جوڑنے والی پوسٹس سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑے پیمانے پر پھیل چکی تھیں۔ ایکس پر موجود ایک ہیش ٹیگ ’افغانوں کی بے دخلی قومی مطالبہ‘ کو ایک ماہ میں دو لاکھ سے زیادہ بار شیئر کیا گیا اور یہاں تک کے دو جولائی کو یہی ہیش ٹیگ 20 ہزار سے زیادہ ٹیگ کیا گیا۔ افغان وٹنیس کے ایک آزاد محقق کے مطابق ایرانی سوشل میڈیا پر افغان مخالف جذبات کوئی نئی بات نہیں تاہم اس بار فرق یہ ہے کہ ’غلط معلومات صرف سوشل میڈیا صارفین کی طرف سے نہیں بلکہ ایران سے منسلک میڈیا سے آرہی ہیں۔‘’سیریل کلرز‘ سے ’جاسوس‘ تکاقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے کے مطابق جنوری سے اب تک 15 لاکھ سے زیادہ افغان پناہ گزین ایران چھوڑ چکے ہیں۔طالبان کی وزارت برائے مہاجرین اور وطن واپسی کے ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ 22 جون سے 22 جولائی کے درمیان نو لاکھ 18 ہزار سے زائد افغان باشندے ایران سے افغانستان میں داخل ہوئے۔ کئی افغان باشندے ایسے تھے جو کچھ کئی نسلوں سے ایران میں آباد تھے۔1979 میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے دوران اور حال ہی میں 2021 میں جب طالبان دوبارہ برسر اقتدار آئے تو اس دوران لاکھوں افغان فرار ہو کر ایران اور پاکستان منتقل ہوئے تھے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان میں طالبان کے موجودہ دور حکومت میں زبردستی واپس آنے والے شہریوں کی بڑی تعداد کو سنبھالنے کی صلاحیت نہیں۔افغانستان پہلے ہی پاکستان سے واپس لوٹنے والوں کی بڑی تعداد کو سنبھالنےکے چیلینج کا سامنا کر رہا ہے۔لندن کے سکول آف اورینٹل اینڈ افریقن سٹڈیز (SOAS) میں جبری نقل مکانی کے امور کی ماہر ڈاکٹر خدیجہ عباسی کا کہنا ہے کہ پہلے پہل ایران میں افغان باشندوں کا خیر مقدم کیا گیا لیکن اب افغان مخالف جذبات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کے مطابق سرکاری میڈیا نے افغان مہاجرین کو معاشرے کے لیے ایک ’معاشی بوجھ‘ کے طور پر پیش کیا۔ ایران میں افغان مہاجرین کے بارے میں گردش کرتی داستانیں بھی اسی کی عکاسی کرتی ہیں۔1990 کی دہائی میں تہران میں ریپ اور قتل کے سلسلہ وار واقعات کو بغیر کسی ثبوت کے ایک افغان شہری سے منسوب کیا گیا، جس کے نتیجے میں نفرت انگیز جرائم میں اضافہ ہوا۔ بعد میں انکشاف ہوا کہ قاتل ایرانی شہری تھا۔جب 2021 کے بعد کے دور میں اندازاً 20 لاکھ افغان ایران ہجرت کر کے آئے تو سوشل میڈیا پر مبالغہ آمیز پوسٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ ملک میں ایک کروڑ سے زائد افغان رہ رہے ہیں۔اُس وقت ایران واحد ہمسایہ ملک تھا جس نے بڑی تعداد میں پناہ گزینوں اور مہاجرین کو داخلے کی اجازت دی تھی۔ڈاکٹر خدیجہ عباسی کے مطابق افغانوں کی ایران سے جبری بے دخلی ’ان چند نایاب موضوعات میں سے ایک ہے جس پر زیادہ تر ایرانی حکومت سے متفق نظر آتے ہیں‘ حالانکہ جولائی میں 1,300 سے زائد ایرانی اور افغان کارکنوں نے ایک کھلے خط پر دستخط کیے جس میں ایران میں افغان شہریوں کے ساتھ ’غیر انسانی‘ سلوک ختم کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔آج ایران میں افغان مخالف جذبات وسیع پیمانے پر پھیل چکے ہیں۔خدیجہ عباسی کے مطابق ’یہ بہت خطرناک صورت حال بن چکی ہے۔ اس لیے لوگ بس گھر میں ہی رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔‘تاہم بہت سے لوگوں کے لیے اب یہ ممکن نہیں رہا۔ سرحد پر لوگوں کا ہجوم بڑھتا جا رہا ہے۔زبردستی بے دخل کیے جانے کے بعد عبداللہ کے لیے زندگی کے معنی بدل چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میری ہر چیز ختم ہو گئی۔‘اس مضمون کے لیے رپورٹنگ ببرک احساس، یاسین رسولی، روون اینگس، سچیرا مگوائر نے کی جبکہ اضافی رپورٹنگ میں سوروش پکزاد نے مدد کی۔لاکھوں افغان پناہ گزینوں کو پاکستان بدر کرنے کی چار ممکنہ وجوہات کیا ہیں’ہم نے جس ملک سے پناہ مانگی تھی، وہاں ہمارے لیے کوئی لچک نہیں‘: کیا پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے کوئی حقوق ہیں؟پاکستان اور ایران کے بعد کیا تاجکستان بھی افغان پناہ گزینوں کو ملک بدر کرنا چاہتا ہے؟افغان طالبان کے اہم عسکری رہنما کی پہلگام حملے کے بعد انڈیا ’خفیہ‘ آمد: ابراہیم صدر کون ہیں؟افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد اب افغان پناہ گزین کہاں جائیں گے؟ایران میں گرفتار کیے جانے والے افغان پناہ گزین جن پر اسرائیل کے لیے ’جاسوسی‘ کا الزام ہے