گھر بیٹھی خواتین کی آواز یا دقیانوسی انداز: ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا دوسرا سیزن نئی نسل کو پسند آئے گا


انڈین ڈرامہ ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ پہلی مرتبہ ٹی وی سکرین پر سنہ 2000 کی دہائی کے وسط میں نشر ہوا تھا اور اس وقت یہ ڈرامہ تقریباً ہر گھر میں ہی دیکھا جاتا تھا۔اب تقریباً 25 برس بعد یہ ڈرامہ ایک مرتبہ پھر ٹی وی سکرین پر نشر ہو گا۔تاہم اب وقت بدل چکا ہے۔ لوگوں کی اب او ٹی ٹی اور سوشل میڈیا تک رسائی ہے اور ناظرین بھی ماضی کے مقابلے میں زیادہ آگاہ ہیں۔اس کا مطلب یہ ہے کہ تُلسی کی کہانی ایک بار پھر شروع ہو رہی ہے لیکن کیا یہ کہانی نئی نسل کے دل میں گھر بنا پائے گی؟’گھر گھر کی رانی، تُلسی ویرانی‘جب سنہ 2004 میں سمرتی ایرانی نے جب بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا تو ان کے نعرے سیاسی نہیں تھے بلکہ ان کی شناخت ڈرامے کا کردار ’تُلسی ویرانی‘ ہی تھا۔لوگ انھیں ان کے اصلی نام سے نہیں جانتے تھے بلکہ ٹی وی پر ان کے کردار کے نام سے ہی جانتے تھے۔تُلسی ویرانی یعنی کہ سمرتی ایرانی ڈرامہ سیریز ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' میں سب سے زیادہ مشہور ہونے والی بہو تھیں۔ اسی کردار کی وجہ سے وہ صرف انڈیا ہی نہیں بلکہ ملک سے باہر بھی پہچانی جانی لگیں۔آج کی نئی نسل سمرتی ایرانی کو بطور بی جے پی رہنما یا سابق وزیر جانتی ہے۔ لوگوں نے انھیں سیاسی مباحثے کرتے ہوئے دیکھا ہے اور وہ کانگریس کے رہنما راہُل گاندھی پر بھی سخت تنقید کیا کرتی تھیں۔ٹی وی پر ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کی پہلی قسط جولائی سنہ 2000 میں ریلیز ہوئی تھی۔Getty Imagesیہ وہ وقت تھا جب انڈیا کے شہروں اور دیہاتوں میں لوگ اپنے تمام کاموں سے فارغ ہو کر رات ساڑھے دس بجے 'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' دیکھنے ٹی وی کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔یہ ایک ایسا ڈرامہ تھا جو پورا خاندان ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھتا تھا۔رواں ہفتے منگل کو لوگ ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا سیزن ٹو دیکھنے ٹی وی کے سامنے بیٹھے تھے۔اس مرتبہ اس ڈرامے میں سمرتی ایرانی کی طرح پُرانے چہرے تو تھے ہی لیکن بہت سارے نئے بھی تھے۔'مجھے تُلسی جیسے بہو چاہیے''کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' ایک کامیاب ڈرامہ تھا لیکن اس پر شدید تنقید بھی ہوتی تھی۔ کہا جاتا تھا کہ اس ڈرامے میں خواتین کے بارے میں دقیانوسی خیالات کا اظہار کیا جاتا تھا۔سب سے اہم بات یہ تھی کہ یہ ڈرامہ انڈیا کے باہر بھی بہت مشہور تھا اور اس وقت تو سوشل میڈیا بھی نہیں تھا۔ یہ ایک حیران کُن بات تھی۔'سوفٹ پاور آف انڈین ٹیلی ویژن شوز اِن نیپال' نامی تحقیق میں دمبر راج بھٹہ لکھتے ہیں کہ: ’نیپال کے شہری علاقوں میں بھی اس ڈرامے کا اثر ہوتا تھا، وہ بھی اتنا کہ شہری خواتین کہتی تھیں کہ انھیں تُلسی جیسی بہو چاہیے۔‘’کیا ڈرامہ ہے‘: وہ شو جس کے نقادوں کے تبصرےڈرامے سے زیادہ وائرل ہو جاتے ہیں’بسمل‘ کی معصومہ: ’خواتین کہتی ہیں ڈرامہ دیکھنے کے بعد ہم نے اپنے شوہروں کی تعریف شروع کر دی‘ڈرامہ ’تن من نیل و نیل‘ کے شجاع اسد: ’مردوں کے ریپ پر اداکار شرمندہ ہوتے ہیں کہ میں یہ کردار کیوں کروں‘’کے ڈرامہ‘ کیوں دیکھا۔۔۔؟ دو لڑکوں کو 12 سال قید بامشقت کی سزا’میری ایک رشتہ دار نے بہت واضح انداز میں کہا تھا کہ مجھے تلسی جیسی بہو چاہیے جو ہمیشہ اپنے بڑوں کی بات مانتی ہے۔‘یہ وہ پہلا ڈرامہ تھا جو کہ درّی زبان میں افغانستان میں بھی نشر ہوا تھا اور وہاں اس ڈرامے کا نام ’تلسی‘ رکھا گیا تھا۔کہا جاتا ہے کہ چور چوری کرنے کے لیے اس وقت کا انتخاب کرتے تھے جس وقت یہ ڈرامہ ٹی وی پر نشر ہو رہا ہوتا تھا کیونکہ اس وقت تمام لوگ یہ ڈرامہ ہی دیکھ رہے تھے۔اس ڈرامے کو افغانستان میں نشر کرنے سے پہلے اس میں کچھ تبدیلیاں کی گئیں تھیں جیسے کہ خواتین کے کپڑوں کو دھندلا کیا گیا، تمام رقص کے مناظر نکالے گئے تھے اور مذہبی حوالوں کو بھی حذف کر دیا گیا تھا۔’روشن خیالی کے جھوٹے دعوے‘سیزن ٹو کی ابتدائی اقساط میں اب تک جنزیشن ذی کو دکھایا گیا ہے جو کہ سوشل میڈیا استعمال کر رہی ہے اور سیلفیاں بنا رہی ہے لیکن کچھ چیزیں اب بھی اس میں پُرانی ہی ہیں۔مثال کے طور پر تُلسی اپنی بہو کو بتا رہی ہیں کہ ’جب ماں، بہو اور بیٹی ساتھ مل کر کھانا بناتی ہیں اس وقت ہی گھر میں خوشبو پھیلتی ہے اور گھر دراصل گھر جیسا نظر آتا ہے۔‘ایک سین میں تُلسی اپنے بچوں کو بتا رہی ہیں کہ ’اگر میں کام نہیں کروں گی تو کون کرے گا؟ یہ گھر اسی طرح سے چلتا ہے۔‘اس ڈرامے کا پہلا سیزن بہت کامیاب تھا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب دوسرے سیزن میں خواتین کے معاملات کس پہلو سے دکھائے جائیں گے؟کچھ دنوں پہلے ایکتا کپور نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا تھا کہ ’ایک غیرملکی ادارے کی طرف سے کی گئی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ اس ڈرامے نے گھروں میں بیٹھی خواتین کو ایک آواز فراہم کی ہے۔’پہلی مرتبہ خواتین کو خاندانی معاملات میں بولنے کی آزادی سنہ 2000 اور 2005 ملی تھی۔ یہ تبدیلی کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی اور کہانی گھر، گھر کی جیسے ڈراموں کے سبب آئی تھی۔‘پمراج شاردا کالج کی پروفیسر مادھوری ڈرامہ اور فلم انڈسٹری پر تنقیدی کالمز لکھتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے مسائل ان ڈراموں میں بڑے ہی دقیانوسی انداز سے دکھائے جاتے ہیں۔ آپ دیکھتے ہیں کہ ان ڈراموں میں خواتین بہت سارے سمجھوتے کر رہی ہوتی ہیں۔’اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ڈرامے کا اختتام کیسے ہوتا ہے کیونکہ گھر میں پدرشاہی نظام قائم ہی رہتا تھا۔‘خواتین کی جدوجہد ’راجنی‘، ’شانتی‘ اور ’اُڑان‘ میں دکھائی گئی تھیاب ایکتا کپور کے بیان پر واپس آ جاتے ہیں کہ ’اس ڈرامے نے خواتین کو اپنے گھروں میں ایک نئی زبان دی تھی۔‘اگر ہم سنہ 2000 سے قبل ہندی ڈراموں کی بات کریں تو سنہ 1985 میں دور درشن پر ’راجنی‘ نامی ڈرامہ نشر ہوا تھا۔اس ڈرامے میں پریا تندولکر نے ایک عام خاتون کا کردار ادا کیا تھا جو سرکاری محکموں میں کرپشن اور نااہلی کے خلاف اپنی آواز اُٹھاتی ہے۔اس ڈرامے کی ایک قسط میں ساڑھی میں ملبوس راجنی ایل پی جی سیلنڈر کی قیمت میں غیرقانونی اضافے کے خلاف آواز اُٹھا رہی ہوتی ہیں۔اس قسط کا اتنا گہرا اثر پڑا تھا کہ آل انڈیا ایل پی جی ڈسٹری بیوڑرز ایسوسی ایشن نے اس ڈرامے کے خلاف احتجاج کا اعلان کر دیا تھا۔سنہ 1989 میں دور درشن پر 'اُڑان' نامی ایک ڈرامہ نشر ہوا تھا۔ یہ ڈرامہ انڈیا کی پہلی خاتون ڈی جی پی کی زندگی پر بنایا گیا تھا۔1990 کی دہائی میں ڈرامہ 'شانتی' میں اداکارہ مندرہ بیدی کو ایک بہادر اور آزاد خیال خاتون صحافی دکھایا گیا تھا جو نہ صرف اپنا کام کرنا جانتی تھیں بلکہ اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کرنے سے بھی گریز نہیں کرتی تھیں۔Getty Imagesان تمام عوامل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ایکتا کپور کا بیان درست نہیں لگتا کہ 'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' نے خواتین کو نئی آواز دی تھی۔ازدواجی زندگی سے متعلق اہم معاملات پر گفتگوکچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو 'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' اور ایکتا کپور کے حق میں بولتے ہوئے نظر آتے ہیں۔روہنی نناوے انڈین ٹی وی انڈسٹری میں کام کرتی ہیں اور گذشتہ 28 برسوں سے ڈرامے لکھ رہی ہیں۔وہ 'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' کا ذکر کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ 'میں یہ نہیں کہوں گی کہ یہ ڈرامہ دقیانوسی تھا۔ اس ڈرامے میں خواتین کو ان کے حقوق اور وجود کے حوالے سے آگاہی دینے کی کوشش نظر آتی ہے۔ با (ساس) سے لے کر بہو تک کے کرداروں میں خواتین کو بہتر دکھایا گیا تھا۔'یہ وہ وقت تھا جب خواتین اپنے حقوق سے آگاہ ہو رہی تھیں۔ لیکن دیہاتوں اور چھوٹے قصبوں میں صورتحال اب بھی بہت مختلف ہے۔روہنی کہتی ہیں کہ 'ان خواتین کو بڑوں کا احترام کرنا، گھروں میں کام کرنا سکھایا جاتا تھا اور وہ اپنے تعلقات میں پھنسی رہتی تھیں۔ تو بات یہ ہے کہ ڈرامے میں حقیقت ہی دکھائی جاتی تھی۔'مصنف لکمشی یادیو کہتی ہیں کہ اس ڈرامے میں نے بالواسطے طریقے سے خواتین کی شناخت کو ایک بار پھر گفتگو کا حصہ بننے میں مدد دی۔ان کے مطابق 'اس ڈرامے کو دیکھنے کے بعد گھروں میں یہ توقع کی جانے لگی کہ خواتین روایتی طریقے سے پیش آئیں۔ اس ڈرامے نے خواتین کو اقسام میں تقسیم کر دیا تھا: تلسی دیو اور چُڑیل مندرا۔'سمرتی ایرانی نے تنقید مسترد کر دیسمرتی ایرانی یعنی تُلسی اس ڈرامے پر ہونے والی تنقید کو یکسر مسترد کرتی ہوئی نظر آتی ہیں۔'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' کے دوبارہ نشر ہونے سے قبل انھوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر لکھا کہ: 'اس معاملے نے انڈیا میں متعدد گھریلو معاملات کو اُٹھایا۔ یہ اس وقت کیا گیا جب مین سٹریم میڈیا میں ایسا کرنے کی جرات نہیں تھی لیکن اس ڈرامے نے لوگوں کو معاشرے کے پیچیدہ مسائل سے آگاہ کیا۔''کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' میں ایک کہانی میں شادی کے بعد ریپ کا واقعہ دکھایا گیا تھا اور اس موقع پر تُلسی اپنی بہو کے لیے لڑتی ہوئی دکھائی دی تھیں۔اس ڈرامے میں با یعنی (دادی ساس) کو فیشن سکول جاتے ہوئے بھی دکھایا گیا تھا۔ سمرتی ایرانی نے کرن جوہر کے پروگرام میں بھی اس معاملے پر بات کی تھی۔ان کا کہنا تھا کہ ان کے ڈرامے میں ان کے کردار نے خواتین کے لیے ایک نیا معیار متعارف کروا دیا تھا جہاں انھیں مرد اداکاروں سے زیادہ معاوضہ ملتا تھا۔اگر آپ سوشل میڈیا پر دیکھیں تو لوگوں کی آرا آپ کو منقسم نظر آئیں گی۔Getty Imagesسوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کندر رائے لکھتی ہیں کہ 'میری والدہ کی پسندیدہ بہو تلسی ایک بار پھر روایات، رواج اور تمیز کے ساتھ واپس آ رہی ہیں۔ میری والدہ تو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں لیکن پوری دنیا ابھی تُلسی کے انتظار میں ہے۔'کیا سمرتی ایرانی جنریشن زی کی توقعات پر پورا اتریں گی؟جب 'کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی' پہلی مرتبہ نشر ہوا تو لوگوں کے لیے ٹی وی تفریح کا واحد ذریعہ تھا لیکن اب سوشل میڈیا اور او ٹی ٹی پلیٹ فارمز بھی موجوود ہیں۔اس کے علاوہ جنریشن زی کے رشتوں اور شادی کے حوالے سے خیالات بھی بہت مختلف ہیں۔سنہ 2000 کی دہائی میں تُلسی لوگوں کو متاثر کیا کرتی تھیں لیکن کیا اب وہ نئی نسل پر کوئی اثر ڈال سکیں گی؟جب ایکتا کپور نے پہلی مرتبہ اس ڈرامے کو متعارف کروایا تو بہت سے لوگوں نے اسے ایک تجربے کے طور پر دیکھا تھا۔کچھ لوگوں کو یہ روش خیال لگا، کچھ کو پُرانے زمانے کا اور کسی کو یکسر دقیانوسی۔جب یہ ڈرامہ ایک مرتبہ پھر نشر ہو رہا ہے تو اس میں کچھ تبدیلیاں نظر آتی ہیں۔ ایسے میں یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا ٹی وی انڈسٹری تبدیل ہو رہی ہے؟کیا اب بھی خاندانی روایات اور رواج کو دکھانا درست فیصلہ ہے؟روہنی نناوے کہتی ہیں کہ ’یہ ڈرامہ ایک کاروبار کا حصہ ہے اور ایسے تجربے ہوتے رہنے چاہییں۔‘’خواتین کو آگاہ کریں کہ رشتے برقرار رکھتے ہوئے وہ اپنے وجود کو بھی نہ بھولیں۔ اگر ایسا کیا جا رہا ہے تو اس ڈرامے کو دوبارہ نشر کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے۔‘10 دن میں 250 کروڑ کا بزنس کرنے والی فلم ’سیارہ‘ کیا معروف کورین فلم کا ری میک ہے؟’دیمک‘: پاکستانی ہارر فلم جس کی کہانی ایک ’اصلی واقعے‘ پر مبنی ہے’سو کروڑ کی بجائے صرف 100 روپے‘: عامر خان نے نیٹ فلکس کی بجائے اپنی فلم یوٹیوب پر کیوں ریلیز کی؟’ستارے زمین پر‘ اور عامر خان کا ’جوا‘: وہ فلم جس کے لیے ’مسٹر پرفیکشنسٹ‘ نے 120 کروڑ کی ڈیل ٹھکرا دی’سو جا بیٹا ورنہ گبر آ جائے گا‘: پانچ سال تک سینما میں چلنے والی ’شعلے‘ جو 50 برس بعد نئے اختتام کے ساتھ ریلیز ہو گی

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید آرٹ اور انٹرٹینمنٹ

’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘: گھر، گھر کی کہانی بیان کرنے والے ڈرامے کا دوسرا سیزن اور اس کے دقیانوسی انداز پر بحث

گھر بیٹھی خواتین کی آواز یا دقیانوسی انداز: ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا دوسرا سیزن نئی نسل کو پسند آئے گا؟

گھر بیٹھی خواتین کی آواز یا دقیانوسی انداز: ’کیونکہ ساس بھی کبھی بہو تھی‘ کا دوسرا سیزن نئی نسل کو پسند آئے گا

بیٹی کو مرے 2 عیدیں گزر گئیں اور۔۔ کراچی کو برا بھلا کہنے پر غزالہ جاوید نے حمیرا اصغر کی والدہ کو آڑے ہاتھوں لے لیا

نیرہ نور سے پہلی ملاقات کیسے ہوئی تھی؟ شہریار زیدی نے مرحومہ بیوی سے جڑا دلچسپ قصہ سنا دیا

حنا رضوی کی شوہر سے علیحدگی ہوگئی؟ انسٹاگرام پر پوسٹ شیئر کردی

ایسی جگہ شادی کروا دو جو میرا قرضہ اتار دے۔۔ عائشہ ثنا اچانک کیوں غائب ہوگئیں؟

وار 2 اور جولی ایل ایل بی تھری سمیت 2025 میں بالی وڈ کی کون سی اہم فلمیں ریلیز ہوں گی؟

’سو کروڑ کی بجائے صرف 100 روپے‘: عامر خان نے نیٹ فلکس کی بجائے اپنی فلم یوٹیوب پر کیوں ریلیز کی؟

سارہ علی خان کے ’بوائے فرینڈ‘ ارجن پرتاپ باجوہ کون ہیں؟

’سو کروڑ کی بجائے صرف 100 روپے‘: عامر خان نے نیٹ فلکس کی بجائے اپنی فلم یوٹیوب پر کیوں ڈال دی؟

سارہ علی خان کی ’بوائے فرینڈ‘ کے ساتھ دوستی کے چرچے، ارجن پرتاپ باجوہ کون ہیں؟

گلے لگایا تو رو پڑا۔۔ حمائمہ سے طلاق کے بعد فیروز خان سے دوبارہ بات چیت کیسے ہوئی؟ شمعون عباسی نے پورا واقعہ سنا دیا

شرم تم کو مگر نہیں آتی۔۔ اسماء عباس کا چندا نامی لڑکی سے کیا رشتہ ہے؟ جواب دے کر تنقید کرنے والوں کی بولتی بند کردی

چند گھنٹے پہلے اپنی تصویر لگائی تھی۔۔ نوجوان اینکر اسامہ خان شیروانی کا اچانک انتقال کیسے ہوا؟ مداح صدمے کا شکار

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی