
"آپ کراچی یا کسی قسم کے لوگوں کو مت کوسیں، پہلے یہ بتائیں کہ آپ خود کس قسم کی ماں ہیں؟ آپ کی بیٹی کو مرے دو عیدیں گزر گئیں اور آپ کو خبر تک نہ ہوئی. میری بھی بیٹیاں ہیں، اگر ان میں سے کسی کو بخار بھی ہو جائے تو نیند نہیں آتی۔ حمیرا بہت نفیس لڑکی تھی، اگر وہ میری بیٹی ہوتی تو میں اس پر فخر کرتی۔ وہ سات سال سے تنہا زندگی گزار رہی تھی، لیکن کبھی اس نے کوئی غلط راستہ نہیں اپنایا۔ اگر وہ غلط کام کرتی، نشہ کرتی، بوائے فرینڈز بناتی، تو آج اس کے پاس گاڑی، اپنا فلیٹ اور مال ہوتا۔ وہ نہ بےروزگاری کی شکار کہلاتی، نہ ہی اس کے مالی مسائل پر بات ہوتی۔ وہ نہایت باصلاحیت تھی، لیکن بہت جلد اس دنیا سے رخصت ہوگئی۔ افسوس صرف اس بات کا ہے کہ وہ اس ماں کی بیٹی تھی جو اس کے ساتھ نہ کھڑی ہو سکی۔ میری نظر میں دنیا کے سب سے بدقسمت وہ بچے ہیں جن کی مائیں ان کی زندگی میں موجود ہو کر بھی ان کے درد سے بے خبر رہیں۔"
پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کی سینیئر اداکارہ غزالہ جاوید نے حالیہ انٹرویو میں مرحومہ اداکارہ حمیرا اصغر کی موت پر دل دہلا دینے والی گفتگو کرتے ہوئے، ان کی والدہ کے بیانات پر کھل کر تنقید کی۔
غزالہ جاوید نے انکشاف کیا کہ حمیرا کی والدہ نے اپنے ایک بیان میں کراچی کے لوگوں کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے، جس پر وہ خاموش نہ رہ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ بجائے دوسروں پر انگلی اٹھانے کے، حمیرا کی والدہ کو اپنے کردار کا جائزہ لینا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک ماں اپنی بیٹی کے درد کو محسوس کرتی ہے، پھر کیسے ممکن ہے کہ کسی ماں کو دو عیدیں گزرنے کے بعد بھی اپنی بیٹی کی موت کا علم نہ ہو؟
غزالہ جاوید نے حمیرا کی زندگی اور کردار کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ وہ لڑکی اکیلے رہ کر بھی باعزت زندگی گزار رہی تھی، کبھی کسی اسکینڈل کا حصہ نہیں بنی، نہ کوئی ناجائز تعلقات، نہ نشہ۔ اگر وہ ایسا کرتی تو شاید فلیٹ کی ادائیگی پر عدالت کے نوٹس نہ آتے، اس کے پاس آسائشیں ہوتیں، لیکن اس کی ایمانداری نے اسے خاموشی سے اس دنیا سے رخصت کر دیا۔
اداکارہ کا کہنا تھا کہ ایک بیٹی جب تنہا زندگی گزار رہی ہو تو ماں کی ذمہ داری دگنی ہو جاتی ہے، لیکن افسوس کہ حمیرا کے والدین نے اس درد میں اس کا ساتھ نہ دیا۔ ان کے مطابق حمیرا کی موت کے بعد ان کی خاموشی اور غفلت سب کچھ بیان کر چکی ہے۔
یاد رہے کہ اداکارہ حمیرا اصغر کی لاش 8 جولائی کو کراچی کے اتحاد کمرشل میں واقع فلیٹ سے اس وقت ملی جب مالک مکان کرایہ نہ ملنے پر عدالت گیا اور بیلف کے ہمراہ فلیٹ کا دروازہ توڑا گیا۔ ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق، ان کی موت کو 8 سے 10 ماہ ہو چکے تھے اور لاش گلنے سڑنے کے آخری مرحلے میں تھی۔
یہ المناک واقعہ جہاں معاشرتی لاتعلقی کی نشاندہی کرتا ہے، وہیں غزالہ جاوید جیسے فنکاروں کی آواز ہمیں جھنجھوڑتی ہے کہ صرف معاشرے کی نہیں، گھر والوں کی غفلت بھی کسی کی زندگی کو خاموشی سے نگل سکتی ہے۔