
انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی حکومت کی جانب سے 25 کتابوں پر پابندی عائد کیے جانے کے بعد پولیس کتابوں کی دکانوں پر چھاپے مار رہی ہے۔خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق یہ چھاپے جمعرات کو مارے گئے ہیں۔حکام نے ان کتابوں پر پابندی کی وجہ ’علیحدگی پسندی کے جذبات اکسانا‘ قرار دیا ہے۔ممنوعہ قرار دی گئی ان کتابوں میں بُکر پرائز جیتنے والی معروف مصنفہ اور انسانی حقوق کی کارکن ارون دھتی رائے، کشمیری صحافی انورادھا بھسین اور کچھ عرصہ قبل گزر جانے والے معروف انڈین ماہر قانون اے جی نورانی کی کتابیں بھی شامل ہیں۔حکومت نے ان 25 کتابوں سے متعلق الزام عائد کیا ہے کہ ان کے مصنفین کشمیر سے متعلق ’غلط معلومات‘ پھیلا کر ’نوجوانوں کو انڈیا کے خلاف گمراہ کرنے میں اہم کردار‘ ادا کر رہے ہیں۔کشمیر کی پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اس کارروائی کا مقصد ایسے مواد کو ہدف بنانا ہے جو علیحدگی پسند نظریات اور دہشت گردی کو اجاگر کرتا ہے۔‘پولیس نے یہ بھی کہا ہے کہ ’امن اور یکجہتی برقرار رکھنے کے لیے عوام کا تعاون ناگزیر ہے۔‘اس سے قبل فروری میں کشمیر کے حکام نے کتابوں کی دکانوں اور گھروں سے اسلامی تعلیمات سے مبنی کتابیں ضبط کی تھیں۔حکام نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کتابوں کے مصنفین کشمیر سے متعلق ’غلط معلومات‘ پھیلا کر نوجوانوں کو گمراہ کیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)کشمیر سنہ 1947 کے بعد سے انڈیا اور پاکستان کے درمیان منقسم ریاست ہے اور دونوں ممالک اس کے دعوے دار ہیں۔ان کتابوں پر پابندی کا حکم گو کہ منگل کو جاری ہوا تھا تاہم اس کی جانب عوامی حلقوں کی توجہ کچھ دیر بعد مبذول ہوئی۔کشمیر کے مذہبی و سیاسی رہنما میر واعظ عمر فاروق نے کہا ہے کہ ’یہ پابندی حکام کے عدم تحفظ اور کم فہمی کو آشکار کرتی ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’محققین اور مستند مؤرخین کی کتابوں پر پابندی لگانے سے تاریخی حقائق اور کشمیری عوام کی یادداشت کو نہیں مٹایا جا سکتا۔‘اگست 2019 میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد نومبر 2024 میں وہاں پہلے انتخابات منعقد ہوئے تھے۔ ان انتخابات میں اپوزیشن کی حمایت یافتہ حکومت قائم ہوئی تاہم اس مقامی حکومت کے اختیارات محدود ہیں جبکہ نئی دہلی سے مقرر کردہ گورنر عملی طور پر مؤثر منتظم سمجھے جاتے ہیں۔ممنوع قرار دی جانے والی ان کتابوں میں وزیراعظم نریندر مودی کی بلند آہنگ ناقد اور انڈیا کی مقبول ترین مصنفہ ارون دھتی رائے کی کتاب ’آزادی‘ بھی شامل ہے۔انڈیا کے نمایاں قانون دان اور مصنف اے جی نورانی اور لندن سکول آف اکنامکس میں سیاسیات کی پروفیسر سمانترا بوس کی کتابوں پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔Banning of books is the most regressive act in a democracy. It reflects an inherent fear of ideas, debate, and dissent. Democracies thrive on the free exchange of thoughts, even those that are uncomfortable or critical of the ‘official truth.’ The moment we ban a book, it signals… pic.twitter.com/1NUcLRmDS6— Manoj Kumar Jha (@manojkjhadu) August 7, 2025تارٰیخ دان صدیق واحد نے حکومت کے اس اقدام پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’یہ حکم آئین کے برعکس ہے جو بولنے اور اظہار کرنے کی آزادی دیتا ہے۔‘انہوں نے کہا کہ ’اس فہرست میں متعدد ایسی کتابیں شامل ہیں جن کے مصنفین اور ناشرین اپنے نتائج فکر کے لیے شواہد، منطق اور استدالال پر انحصار کرنے کے لیے معروف ہیں۔‘’کیا اب اس چیز کی کوئی اہمیت باقی رہ گئی ہے۔‘