
BBCویلنٹینا کام پر واپس آنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی بیٹی ڈیلیٹا کی دیکھ بھال اس کے اہل خانہ کریں گے شمالی اٹلی میں اپنے گاؤں کی تنگ گلی میں گھومتے ہوئے جیاکومو ڈی لوکا نے ایسے کاروباروں کی نشاندہی کی جو اب بند ہو چکے ہیں: دو سپر مارکیٹیں، ایک ہیئر سیلون، ریستوران، سبھی بند ہیں۔ پہاڑیوں کے دامن میں واقع فریگونا کا خوبصورت گاؤں اب خالی ہو رہا ہے یہاں کے مقامی شہری یہاں سے تیزی سے بڑے شہروں میں نقل مکانی کر رہے ہیں یا بیرون ملک منتقل ہو رہے ہیں۔کم بچوں کی وجہ سے مقامی ایلیمنٹری سکول اس وقت خطرے میں ہے اور یہاں کے میئر کو اس پر تشویش ہے۔ڈی لوکا بتاتے ہیں کہ سکول کا پہلا ’نیا سال جاری نہیں رہ سکتا کیونکہ صرف چار بچے ہیں۔ وہ اسے بند کرنا چاہتے ہیں۔‘ فنڈنگ حاصل کرنے کے لیے، کم از کم کلاس کا سائز 10 بچوں کا ہونا ضروری ہے۔ ان کے مطابق ’پیدائش کی شرح اور آبادی میں کمی بہت زیادہ تیزی سے ہوئی ہے۔‘میئر کا اندازہ ہے کہ وینس کے شمال میں ایک گھنٹے کی مسافت پر واقع فریگونا کی آبادی پچھلی دہائی میں تقریباً 20 فیصد کم ہوئی ہے۔ اس سال جون تک، اس گاؤں میں صرف چار بچے پیدا ہوئے تھے اور تقریباً 2,700 باقی رہنے والے باشندوں میں سے زیادہ تر بوڑھے ہیں۔BBCکیاکومو پرائمری اسکولوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہے۔ڈی لوکا کے لیے، نئی کلاس کا اختتام ایک اہم لمحہ ہو سکتا ہے: اگر بچے اس سکول کو چھوڑ کر کو کہیں اور پڑھنے کے لیے چلے جاتے ہیں تو میئر کو ڈر ہے کہ وہ کبھی ادھر کا رخ نہیں کریں گے۔اس لیے وہ ارد گرد کے علاقے میں گھوم رہے ہیں، یہاں تک کہ قریبی پیزا فیکٹری کا دورہ کر رہے ہیں۔ وہ اس سکول کو کھلا رکھنے کے لیے والدین سے بات کر ر ہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کا داخلہ یہاں کروائیں۔میئر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’میں انھیں ایک منی بس میں سکول لے جانے کی پیشکش کر رہا ہوں اور ہم نے بچوں کو شام چھ بجے تک سکول میں رکھنے کی پیشکش کی ہے، جس کی تمام ادائیگی کونسل نے کی ہے۔‘انھوں نے کہا کہ ’میں پریشان ہوں۔ آہستہ آہستہ، اگر حالات ایسے ہی رہے تو شہر مٹ جائے گا۔‘BBCایک قومی مسئلہاس گاؤں کی حد تک ہی نہیں بکہ اٹلی کا آبادیاتی بحران بہت گہرا ہوتا جا رہا ہے۔پچھلی دہائی میں قومی آبادی میں تقریباً 19 لاکھ افراد کی کمی آئی ہے اور پیدائش کی تعداد میں مسلسل 16 سالوں سے کمی واقع ہوئی ہے۔اوسطاً، اطالوی خواتین میں صرف 1.18 بچے پیدا ہو رہے ہیں، جو اب تک کی سب سے کم شرح ہے۔ یہ یورپی یونین کی شرح افزائش 1.38 سے کم ہے اور آبادی کو برقرار رکھنے کے لیے درکار 2.1 سے بھی کم ہے۔پیدائش کی حوصلہ افزائی کی کوششوں اور خاندان نواز پالیسیوں کے بارے میں بہت زیادہ بیان بازی کے باوجود، جارجیا میلونی کی دائیں بازو کی حکومت اس متعلق مسئلے سے نمٹنے میں ناکام رہی ہے۔فریگونا کے چوک میں اپنے دس ماہ کے بچے کو لے کر آنے والی ویلنٹینا ڈاٹر تسلیم کرتی ہیں کہ ’آپ کو بچہ پیدا کرنے سے پہلے بہت سوچنا پڑتا ہے۔‘ BBCمیلانیا کو اپنے کام کی جگہ کے قریب ایک ڈے کیئر سنٹر تک رسائی حاصل ہے ویلنٹینا کو ڈیلیٹا کی زندگی کے پہلے سال کے لیے ماہانہ تقریباً 200 یورو یعنی تقریباً 50000 روپے ملتے ہیں۔ لیکن انھیں 2025 میں پیدا ہونے والے بچوں کے لیے حکومت کی طرف سے ملنے والے 100 یورو یعنی تقریباً اڑھائی لاکھ روپے کے نئے ’بے بی بونس‘ کی فہرست سے نکال دیا گیا ہے۔ اٹلی میں ٹیکس کریڈٹ اور زچگی کی مزید چھٹیاں بھی ہیں۔لیکن ویلنٹینا کو اب کام پر واپس جانا ہے اور وہ کہتی ہیں کہ بچوں کی نگہداشت تک رسائی اب بھی مشکل ہے۔وہ کہتی ہیں کہ ’زیادہ بچے نہیں ہیں، لیکن ڈے کیئر سینٹرز میں بھی گنجائش نہیں ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ میری دادی نے میری بیٹی کی دیکھ بھال کی۔ اگر نہیں، تو مجھے نہیں معلوم کہ میں اسے کہاں چھوڑتی۔‘اس لیے اس کی سہیلیاں ماں بننے سے ڈرتی ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ’کام، سکول اور پیسے کی وجہ سے یہ سب بہت مشکل ہے۔‘ ویلنٹینا کہتی ہیں کہ بچے پیدا کرنے کے لیے کچھ مدد دی جاتی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے۔ اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔اپنی مدد آپ کے پروگرامBBCکاٹیا ڈا روز کا کہنا ہے کہ اطالویوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی اجازت دینے کے لیے بڑی تبدیلیوں کی ضرورت ہے وینیٹو کے علاقے میں کچھ کمپنیوں نے اس معاملے پر کارروائی کی ہے۔فریگونا سے اس وادی میں ایک مختصر سفر پر ایک بڑا صنعتی کمپلیکس واقع ہے جو چھوٹی اور درمیانے درجے کی کمپنیوں سے بھرا ہوا ہے، جن میں سے اکثر کا انتظام یہاں کے رہنے والے خاندان خود چلا رہے ہیں۔الٹرا فاسٹ فریزر بنانے والی کمپنی ’آئرنوکس‘ نے بہت پہلے بچوں کی پرورش کے مسئلے کو تسلیم کیا تھا اور قیمتی ملازمین کو کھونے سے پہلے ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تھا۔کمپنی نے فیکٹری سے محض چند قدم کے فاصلے پر نرسری بنانے کے لیے سات دیگر افراد کے ساتھ مل کر اس منصوبے کا آغاز کیا۔ یہ اگرچہ مفت منصوبہ نہیں ہے مگر اس میں نمایاں رعائت دی گئی ہے۔ یہ اٹلی میں اپنی نوعیت کا پہلا منصوبہ تھا۔BBCٹریویزو میں اس سکول کی بندش کے موقع پر ایک تقریب منعقد ہوئی، جہاں طلبہ کی تعداد کم ہوگئی تھی فرم کی فنانس مینیجرز میں سے ایک میلانیا سینڈرین کے مطابق ’یہ جاننا کہ میں اپنے بیٹے کو دو منٹ کی دوری پر چھوڑ سکتی ہوں، بہت اہم تھا کیونکہ میں کسی بھی وقت، بہت جلد اس کے پاس پہنچ سکتی ہوں۔‘نرسری کے بغیر انھیں کام پر آنے میں مشکل پیش آتی: وہ اپنے والدین پر بوجھ نہیں ڈالنا چاہتی تھیں اور سرکاری نرسری عام طور پر پورے دن کے لیے بچوں کو قبول نہیں کرتیں۔میلانیا کہتی ہیں کہ ’ان کے پاس ترجیحی فہرست بھی ہے۔۔۔ اور بہت کم جگہیں ہیں۔‘ویلنٹینا کی طرح ان کے دوستوں نے بھی تقربیاً 40 برس تک بچے پیدا نہیں کیے۔ وہ اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں اور میلانیا کو یقین نہیں ہے کہ انھیں اب دوسرے بچے کی خواہش ہے۔ ان کے مطابق ’یہ آسان نہیں ہے۔‘یہاں دیر سے پیدائش کا بڑھتا ہوا رجحان، شرح پیدائش کو کم کرنے کا ایک اور عنصر ہے۔ان تمام وجوہات کی بنا پر ایگزیکٹو ڈائریکٹر کٹیا دا روز کا خیال ہے کہ اٹلی کو اپنی آبادی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے ’بڑی تبدیلیاں‘ کرنے کی ضرورت ہے۔وہ کہتی ہیں مسئلہ کوئی 1000 یورو ملنے کا نہیں ہے بلکہ بچوں کی مفت دیکھ بھال جیسی خدمات کی دستیابی ہے۔ اگر ہم صورتحال کو بدلنا چاہتے ہیں تو ہمیں اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔اٹلی کا وہ قصبہ جہاں مسلمانوں کی اجتماعی نماز اور کرکٹ پر پابندی عائد کی گئی’مظاہرین کا برتاؤ ایسا، جیسے وینس کے مالک ہوں‘: دنیا کی امیر شخصیات میں شامل جیف بیزوس کی شادی پر اٹلی میں احتجاج کیوں؟’عشق و محبت کے ملک‘ اٹلی کے شہری سیاحوں سے نالاں: ’ہم سیاحت کی وجہ سے مرنا نہیں چاہتے‘’بے ایمان‘ اطالوی سیاحوں کے کھانے کا بل حکومت کو بھرنا پڑ گیا: ’یہ ہماری عزت کا معاملہ تھا‘دوسرا حل امیگریشن میں اضافہ ہے، جو حکومت کے لیے بہت زیادہ متنازع مسئلہ ہے۔آئرنوکس کمپنی میں 40 فیصد سے زیادہ ملازمین غیر ملکی ہیں۔کٹیا دا راس کا کہنا ہے کہ اٹلی اور وینیٹو دونوں کو اپنی معیشت کو فروغ دینے کے لیے مزید غیر ملکی کارکنوں کی ضرورت ہوگی۔’مستقبل ایسا ہی ہوگا۔‘BBCپرنسپل لوانا سکارفی بتاتی ہیں کہ سکول کے اندراج میں کمی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں ایک سکول کا اختتام’امیگریشن‘ پڑوس میں واقع قصبے ’ٹریوسو‘ میں ایک سکول کو نہیں بچا سکی۔گذشتہ ماہ پاسکولی ایلیمنٹری سکول نے اپنے دروازے ہمیشہ کے لیے بند کر دیے کیونکہ وہاں طلبا کی مطلوبہ تعداد پوری نہیں تھی۔آخری تقریب کے لیے سکول کی سیڑھیوں پر صرف 27 بچے جمع ہوئے، جن پر ایک بگلر نے اپنی ٹوپی میں پنکھ لگا کر اطالوی پرچم کو نیچے اتارا۔الیانورا فرانسیچی نے اپنی 8 سالہ بیٹی کو یہاں سے آخری بار اٹھاتے ہوئے کہا کہ ’یہ ایک افسوسناک دن ہے۔‘ ستمبر سے شروع ہو کر، اسے ایک مختلف سکول میں جانے کے لیے بہت زیادہ سفر کرنا پڑے گا۔ایلینورا کو یقین نہیں ہے کہ گرتی ہوئی شرح پیدائش واحد وجہ ہے: ان کا دعویٰ ہے کہ پاسکولی سکول نے دوپہر کی کلاسز کی آفر نہیں دی، جس سے کام کرنے والے والدین کے لیے زندگی مزید مشکل ہو گئی جنھوں نے پھر اپنے بچوں کو کہیں اور منتقل کر دیا۔اس معاملے پر سکول کی پرنسپل کے پاس ایک اور وضاحت ہے۔لوانا سکارفی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ خطہ تبدیل ہو گیا ہے کیونکہ بیرون ملک سے بہت سے لوگ یہاں آئے تھے۔‘ وینیٹو کے علاقے میں دو دہائیوں کی امیگریشن کا حوالہ دیتے ہوئے انھوں نے اس کی بہت سی فیکٹریوں اور بے شمار ملازمتوں کا ذکر کیا۔BBCایلینورا، یہاں اپنی بیٹی اور والد کے ساتھ ہیں وہ تسلیم کرتی ہیں کہ سکول کو بند دیکھنا ایک افسوسناک دن تھا ’پھر کچھ خاندانوں نے دوسرے سکولوں میں جانے کا فیصلہ کیا جہاں نقل مکانی کرنے والوں کی شرح اتنی زیادہ نہیں تھی۔کشیدگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پرنسپل کہتی ہیں کہ ’گذشتہ برسوں کے دوران ہمارے پاس اس سکول میں آنے کا انتخاب کرنے والے بہت کم لوگ آئے ہیں۔‘اقوام متحدہ کی ایک پیشن گوئی کے مطابق اٹلی کی آبادی اگلے 25 سالوں میں تقریباً 50 لاکھ تک کم ہو جائے گی، جو کہ اس کی موجودہ تعداد 59 ملین ہے جو بڑھتی ہوئی آبادی بھی معیشت پر بوجھ ڈال رہی ہے۔اس رجحان سے نمٹنے کے لیے حکومتی اقدامات زیادہ سودمند ثابت نہیں ہوئے ہیں۔ لیکن ایلینورا کہتی ہے کہ حکومت کی طرف سے اس جیسے والدین کو خدمات کے لیے مزید مدد کی ضرورت ہے نہ کہ صرف نقد عطیات کی۔ان کے مطابق ’ہمیں ماہانہ چیک موصول ہوتے ہیں، لیکن ہمیں عملی مدد کی بھی ضرورت ہوتی ہے، جیسے بچوں کے لیے مفت سمر کیمپ۔‘ وہ جون میں شروع ہونے والی تین ماہ کی تعطیلات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہتی ہیں، جو کام کرنے والے والدین کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ہو سکتا ہے۔ایلینورا کہتی ہیں کہ ’حکومت ایک بڑی آبادی چاہتی ہے، لیکن ساتھ ہی یہ مدد نہیں کر رہی ہے۔’ہم اس صورتحال کے ساتھ مزید بچے کیسے پیدا کریں گے؟‘اٹلی کا وہ قصبہ جہاں مسلمانوں کی اجتماعی نماز اور کرکٹ پر پابندی عائد کی گئیاٹلی کی کرکٹ ٹیم نے ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے لیے کوالیفائی کر لیا: ’مطلب ہم ذہنی طور پر تیار رہیں؟‘جب حادثے نے ایک ڈاکٹر کی 12 سالہ یادداشت مٹا دی: ’پرانی ای میلز پڑھ کر پتا چلا کہ میں ایک بُرا آدمی، سخت گیر باس تھا‘’مظاہرین کا برتاؤ ایسا، جیسے وینس کے مالک ہوں‘: دنیا کی امیر شخصیات میں شامل جیف بیزوس کی شادی پر اٹلی میں احتجاج کیوں؟’عشق و محبت کے ملک‘ اٹلی کے شہری سیاحوں سے نالاں: ’ہم سیاحت کی وجہ سے مرنا نہیں چاہتے‘