
"ہم بچی کا جہیز جوڑ رہے تھے، اور آج اس کے کفن کے لیے پیسے اکٹھے کر رہے ہیں۔ کہاں سے لائیں حوصلہ؟ کیسے کریں صبر؟ ہمیں بس انصاف چاہیے۔"
روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک اور رات ایسی گزری جو امیدوں کو ملبے میں اور خوابوں کو آنسوؤں میں بدل گئی۔ راشد منہاس روڈ پر ہونے والا یہ المناک حادثہ ایک خاندان پر قیامت کی طرح ٹوٹا۔ تیز رفتار ڈمپر نے ایک موٹر سائیکل کو یوں روند ڈالا کہ لمحوں میں ایک بہن اور بھائی کی سانسیں رک گئیں، جبکہ باپ اسپتال کے بیڈ پر زندگی اور موت کے درمیان جھول رہا ہے، اور اسے یہ کڑوی خبر ابھی تک نہیں دی گئی کہ اس کے جگر کے ٹکڑے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔
جاں بحق ہونے والی بائیس سالہ ماہ نور کی شادی محض چند ہفتوں بعد طے تھی۔ گھر والے ایک ایک پیسہ بچا کر جہیز تیار کر رہے تھے، مگر قسمت نے سب کچھ الٹ دیا۔ آنکھوں میں آنسو اور لہجے میں لرزتی ہوئی آواز کے ساتھ مقتولہ کے چچا ذاکر نے بتایا کہ خوشیوں کے اس سفر سے واپسی موت کا پیغام لے آئی۔ ان کا بھائی، جو کپڑوں کا کاروبار کرتا ہے، اب جناح اسپتال میں دماغی چوٹوں کے باعث بے ہوش ہے۔
حادثے کے بعد شہر کا غصہ سڑکوں پر ابل پڑا۔ مشتعل ہجوم نے سات ڈمپروں کو آگ کے شعلوں میں لپیٹ دیا، جبکہ ملزم ڈرائیور کو مارپیٹ کے بعد پولیس کے حوالے کردیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ ڈرائیور سمیت دس سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ دوسری طرف ڈمپر ڈرائیور ایسوسی ایشن نے جلتی گاڑیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے سپرہائی وے بند کردی اور نیشنل ہائی وے بلاک کرنے کی دھمکی دی۔ ان کا مؤقف ہے کہ یہ حادثہ ٹینکر کی ٹکر سے ہوا، اور ڈمپروں کو نذر آتش کرنے کا ذمہ دار سندھ حکومت ہے۔
کراچی ڈمپر حادثے میں جان بحق بچوں کے چچا کی گفتگو، 22 سال کی ماہ نور کی اگلے ماہ شادی تھی #Karachi #KarachiAccident #Dumper pic.twitter.com/cdYNckpkLq— Shehzad Qureshi (@ShehxadGulHasen) August 10, 2025
گورنر سندھ کامران ٹیسوری نے اس سانحے پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے ملزم کو عبرتناک سزا دینے اور ڈمپر مافیا کے خلاف کریک ڈاؤن کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے عوام سے اپیل کی کہ قانون ہاتھ میں لینے سے گریز کریں۔ مگر سوال اپنی جگہ قائم ہے: جب سڑکیں انسانی جانوں کو نگل جائیں اور انصاف برسوں فائلوں میں دب جائے، تو غریب کہاں جائیں؟
یہ المیہ ایک کڑوا سچ یاد دلاتا ہے کہ کراچی میں زندگی سستی اور گاڑیاں بے قابو ہیں۔ اگر قانون نے اپنی گرفت نہ مضبوط کی، تو آج ماہ نور اور علی رضا کی کہانی کل کسی اور گھر میں دہرائی جائے گی، جہاں شادی کے گیتوں کی جگہ جنازے کے نوحے گونج رہے ہوں گے۔