افغانستان میں ’لاوارث خواتین‘ کا قلعہ جس کے بارے میں مقامی لوگ بہت کم بات کرتے ہیں


BBCقلعہ کابل میں ذہنی صحت کا سب سے بڑا مرکز ہے جہاں 104 خواتین کو رکھا گیا ہےافغانستان کے دارالحکومت کابل کے مغرب میں ایک پہاڑی پر، خاردار تاروں والے سٹیل کے بھاری دروازے کے پیچھے، ایک ایسی جگہ ہے جس کے بارے میں بہت کم مقامی لوگ بات کرتے ہیں۔افغان ہلال احمر سوسائٹی کے زیر انتظام چلنے والے دماغی صحت کے مرکز کا خواتین ونگ ملک کے ان مٹھی بھر ایسے اداروں میں سے سب سے بڑا ہے جو ذہنی بیماریوں میں مبتلا خواتین کی مدد کے لیے وقف ہیں۔مقامی لوگ اسے ’قلعہ‘ کہتے ہیں۔بی بی سی نے اس مرکز تک خصوصی رسائی حاصل کی جہاں عملے کو اس کی دیواروں کے اندر موجود 104 خواتین کا سامنا کرنا مشکل لگتا ہے۔BBCاس مرکز کی کچھ خواتین باہر جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہاں انھیں قبول کرنے والا کوئی نہیںان میں مریم* جیسی خواتین بھی شامل ہیں جن کا کہنا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کا شکار رہی ہیں۔اندازہ ہے کہ مریم کی عمر 25 برس کے لگ بھگ ہے۔ وہ اپنے اہلخانہ کی جانب سے بدسلوکی اور نظرانداز کیے جانے اور پھر کچھ عرصے کے لیے بےگھری کی زندگی گزارنے کے بعد نو سال سے یہاں ہیں۔ان کا الزام ہے کہ ’میں جب بھی کسی پڑوسی کے گھر جاتی تھی، میرے بھائی مجھے پیٹتے تھے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ ان کے گھر والے انھیں اکیلے گھر سے باہر نہیں جانے دینا چاہتے تھے، کیونکہ اس سماج میں یہ روایت تھی کہ نوجوان لڑکیوں کو کسی نگران کے ساتھ کے بغیر گھر سے باہر نہیں نکلنا چاہیے۔آخرکار، ان کے بھائیوں نے انھیں گھر سے نکال دیا اور وہ کم عمری میں سڑکوں پر رہنے پر مجبور ہو گئیں۔ یہیں انھیں ایک عورت ملی جو بظاہر ان کی ذہنی صحت کے بارے میں فکرمند ہو کر انھیں اس مرکز میں لے آئی۔اس تکلیف دہ ماضی کے باوجود مریم مسکراتی رہتی ہیں۔ انھں اکثر گنگناتے ہوئے دیکھا جاتا ہے اور وہ ان چند مریضوں میں سے ایک ہیں جنھیں عمارت کے بیرونی احاطے میں کام کرنے کی اجازت ہے جہاں وہ صفائی میں مدد کرنے کے لیے رضاکارانہ طور پر کام کرتی ہیں۔وہ اس مرکز سے باہر جانے کے لیے تیار ہیں لیکن وہ نہیں جا سکتیں کیونکہ ان کے پاس جانے کے لیے کوئی جگہ ہی نہیں ہے۔مریم کہتی ہیں ’مجھے اپنے والد اور ماں کے پاس واپسی کی امید نہیں ہے۔ میں یہاں کابل میں کسی سے شادی کرنا چاہتی ہوں، کیونکہ اگر میں گھر واپس بھی جاتی ہوں، تو وہ مجھے دوبارہ نکال دیں گے۔‘چونکہ وہ اپنے خاندان کے پاس واپس نہیں جا سکتیں، اس لیے وہ اس مرکز میں پھنسی ہوئی ہیں۔افغانستان میں طالبان کے سخت قوانین اور پدرشاہی روایات کی وجہ سے خواتین کا آزادانہ طور پر رہنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ خواتین کو قانونی اور سماجی طور پر سفر، کام، یا یہاں تک کہ بہت سی خدمات تک رسائی کے لیے ایک مرد سرپرست کی ضرورت ہوتی ہے اور زیادہ تر معاشی مواقع ان کے لیے دستیاب نہیں ہیں.صنفی عدم مساوات، محدود تعلیم اور محدود روزگار کی وجہ سے بہت سی خواتین مالی طور پر مرد کمانے والوں پر منحصر ہیں، جس سے ایک ایسے سلسلے کو تقویت ملی ہے جہاں بقا کا انحصار اکثر مرد رشتہ داروں پر ہوتا ہے۔ایک ہاسٹل میں بستر پر بیٹھی حبیبہ کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔اس 28 سالہ لڑکی کا کہنا تھا کہ انھیں ان کا شوہر مرکز میں لایا تھا، جو دوسری شادی کے بعد انھیں زبردستی گھر سے نکال رہا تھا۔مریم کی طرح، اب ان کے پاس جانے کے لیے کوئی اور جگہ نہیں ہے۔ وہ بھی ڈسچارج ہونے کے لیے تیار ہیں لیکن ان کا شوہر انھیں واپس نہیں لے جائے گا اور ان کی بیوہ ماں بھی ان کا خرچ برداشت نہیں کر سکتی۔ان کے تین بیٹے اب اپنے چچا کے ساتھ رہتے ہیں۔ وہ شروع میں ان سے ملنے آئے، لیکن حبیبہ نے اس سال انھیں نہیں دیکھا ہے اور فون تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے وہ ان سے رابطہ بھی نہیں کر سکتیں۔وہ کہتی ہیں ’میں دوبارہ سے اپنے بچوں کے ساتھ رہنا چاہتی ہوں۔‘BBCمریم نو برس سے اس مرکز کی مکین ہیںمریم ہوں یا حبیبہ ان کی کہانیاں اس مرکز میں موجود خواتین کی کہانیوں سے منفرد نہیں ہیں، جہاں عملے اور مریضوں کے ساتھ بات چیت سمیت ہمارے دورے کی نگرانی طالبان حکومت کے عہدیدار کرتے رہے۔اس مرکز کی ماہر نفسیات سلیمہ حلیب کہتی ہیں کہ کچھ مریض یہاں 35 سے 40 برس سے ہیں۔ ’کچھ کو ان کے اہلخانہ نے مکمل طور پر چھوڑ دیا ہے۔ انھیں کوئی بھی ملنے نہیں آتا، اور وہ یہیں رہتے ہیں اور پھر مر جاتے ہیں۔‘برسوں سے جاری تنازعات نے بہت سے افغانوں، خاص طور پر خواتین کی ذہنی صحت پر اپنی چھاپ چھوڑی ہے، اور اس مسئلے کو اکثر سمجھا ہی نہیں جاتا اور مریض بدنامی کا شکار ہو جاتا ہے۔افغانستان میں خواتین کے حقوق کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر اقوام متحدہ کی حالیہ رپورٹ کے جواب میں طالبان حکومت کے نائب ترجمان حمد اللہ فطرت نے بی بی سی کو بتایا کہ ان کی حکومت نے خواتین کے خلاف کسی قسم کے تشدد کی اجازت نہیں دی اور انھوں نے ’افغانستان میں خواتین کے حقوق کی فراہمی کو یقینی بنایا ہے۔‘لیکن 2024 میں جاری ہونے والے اقوام متحدہ کے اعداد و شمار خواتین کے حقوق کے خلاف طالبان کے کریک ڈاؤن سے منسلک ذہنی صحت کے بگڑتے ہوئے بحران کی نشاندہی کرتے ہیں: اس سروے میں شامل 68 فیصد خواتین نے ’خراب‘ یا ’بہت خراب‘ ذہنی صحت کی تصدیق کی۔اے آئی تھیراپسٹ: ’جب آپ کو کوئی مدد دستیاب نہ ہو تو انسان تنکے کا سہارا لینے پر مجبور ہو جاتا ہے‘نوجوان مردوں کو نفسیاتی مسائل کا سامنا مگر مدد مانگنے میں ہچکچاہٹ کیوں؟ آن لائن کھانا، فضلے کا ڈھیر اور ایک کرسی: وہ شخص جس نے تین سال تک خود کو گھر میں بند رکھاوہ خاتون جنھیں ’غلطی سے‘ 45 سال تک ذہنی صحت کے ہسپتال میں قید رکھا گیاحکام کو مرکز کے اندر اور باہر اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔ گذشتہ چار برس میں مریضوں میں کئی گنا اضافہ دیکھا گیا ہے اور اب ان کے پاس انتظارکنندگان کی فہرست ہے۔کابل کے ایک ہسپتال کے سینیئر ماہر نفسیات ڈاکٹر عبدالولی اتمانزئی کہتے ہیں کہ ’ذہنی بیماریاں، خاص طور پر ڈپریشن ہمارے معاشرے میں بہت عام ہے۔‘وہ کہتے ہیں کہ وہ ایک دن میں مختلف صوبوں سے 50 مریضوں کو دیکھتے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین ہوتی ہیں: ’انھیں شدید معاشی دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگوں کے پاس دیکھ بھال کرنے کے لیے کوئی مرد رشتہ دار نہیں ہے- میرے مریضوں میں سے 80 فیصد نوجوان خواتین ہیں جو خاندانی مسائل کا شکار ہیں۔‘طالبان حکومت کا کہنا ہے کہ وہ صحت کی سہولیات کی فراہمی کے لیے پرعزم ہے لیکن مرد سرپرست کے بغیر عورتوں کی نقل و حرکت پر پابندی کی وجہ سے، بہت سے لوگ مدد نہیں لے سکتے۔BBCذہنی صحت کا مرکز آبادی سے الگ تھلگ جگہ پر واقع ہے اور وہاں خاردار تاریں نصب ہیںیہ سب کچھ مریم اور حبیبہ جیسی عورتوں کے لیے اس مرکز کو چھوڑنا زیادہ مشکل بنا دیتا ہے اور وہ جتنی دیر تک یہاں رہتی رہیں گی ان لوگوں کے لیے جگہ دستیاب نہیں ہو گی جنھیں مدد کی اشد ضرورت ہے۔ایک خاندان ایک سال سے اپنی 16 سالہ بیٹی زینب کے مرکز میں داخلے کی کوشش کرتا رہا لیکن انھیں بتایا گیا کہ وہاں بستر دستیاب نہیں ہیں۔ اب وہ وہاں کے سب سے کم عمر مریضوں میں سے ایک ہیں۔یہاں آنے سے پہلے وہ اپنے گھر تک ہی محدود تھیں جہاں ان کے ٹخنوں کو زنجیروں میں جکڑ دیا گیا تھا تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔یہ واضح نہیں ہے کہ زینب کو ذہنی صحت کے کون سے مسائل کا سامنا ہےلیکن وہ اپنے خیالات کو زبانی طور پر بیان کرنے کے لیے جدوجہد کرتی دکھائی دیں۔ان کے پریشان حال والد فدا محمد کا کہنا ہے کہ پولیس کو حال ہی میں ان کی بیٹی ان کے گھر سے میلوں دورسے ملی تھی۔زینب کئی دنوں سے لاپتہ تھی جو خاص طور پر افغانستان میں خطرناک ہے جہاں خواتین کو مرد سرپرست کے بغیر گھر سے دور جانے کی اجازت نہیں ہے۔فدا محمد بتاتے ہیں، ’اگر ہم اسے باندھ کر نہ رکھیں تو وہ دیواروں پر چڑھ جاتی ہے اور بھاگ جاتی ہے۔‘زینب ہر وقت روتی رہتی ہیں، خاص طور پر جب وہ اپنی ماں کو روتے ہوئے دیکھتی ہیں۔فدا محمد کہتے ہیں کہ جب زینب آٹھ سال کی تھیں تو پہلی بار انھوں نے ان کی ایسی حالت دیکھی لیکن اپریل 2022 میں ان کے سکول پر متعدد بم حملوں کے بعد صورتحال مزید خراب ہو گئی۔وہ کہتے ہیں، ’دھماکے کے نتیجے میں وہ ایک دیوار سے جا ٹکرائی تھی۔ ہم نے زخمیوں کو نکالنے اور لاشیں جمع کرنے میں مدد کی۔ وہ خوفناک تھا۔‘اگر زینب کو جگہ نہ ملتی تو کیا ہوتا یہ واضح نہیں ہے۔ زینب کے والد کا کہنا تھا کہ بیٹی کی بار بار گھر سے بھاگنے کی کوششیں ان کے لیے بےعزتی کا باعث ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ ان کے اور ان کے اہلخانہ کے لیے بہتر ہے کہ زینب اس مرکز میں ہی رہیں۔کیا وہ مریم اور حبیبہ کی طرح اب قلعے کی لاوارث خواتین میں سے ایک بن پائیں گی، یہ دیکھنا باقی ہے۔*مریضوں اور ان کے اہل خانہ کے نام پورے ملک میں تبدیل کر دیے گئے ہیں۔ہجوم میں بھی تنہائی: کیا واقعی اردگرد موجود لوگ آپ کے اکیلے پن کا باعث بنتے ہیں؟ایران کی بدنامِ زمانہ جیل میں قید خواتین کی زندگی: پھانسی کی دھمکیوں سے شوہر کے ساتھ رات گزارنے کی اجازت تکحمل کے دوران خواتین کے دماغ میں ہونے والی پُراسرار تبدیلیاں جو جذبات اور یادداشت کو متاثر کرتی ہیںعصمت چغتائی: فحاشی کے مقدمے کا سامنا کرنے والی بےباک ادیبہ جنھوں نے موت کے بعد بھی دنیا کو چونکا دیا’مجھے ہوائی جہاز میں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، اب یہ خوف میرا پیچھا نہیں چھوڑتا‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

’ڈیجیٹل ریپ‘ کیا ہے اور انڈیا میں اسے روکنے کے لیے قوانین میں تبدیلی کی ضرورت کیوں پڑی؟

چھوٹا بھائی سودا لے کر آیا تو۔۔ کراچی میں کرنٹ لگنے سے دو بھائیوں کی موت کا افسوسناک واقعہ ! کے لیکٹرک کے خلاف مقدمہ درج

9 مئی مقدمات : عمران خان کی ضمانت منظور

اسرائیل کی غزہ سٹی پر قبضے کے لیے کارروائیاں جاری، دس لاکھ آبادی والے مضافاتی علاقے پر کنٹرول کا دعویٰ

کراچی میں آج کس وقت گرج چمک کے ساتھ بارش ہوگی؟ محکمہ موسمیات نے دو دن کی پیش گوئی کردی

کراچی والوں کو کس بات کی سزا دی جارہی ہے؟ 40 سے زائد گھنٹے گزرنے کے بعد بھی بجلی عدم بحال

کراچی میں بارش کے پیش نظر تعلیمی ادارے دوسرے روز بھی بند

پاکستان میں مقیم افغان شہریوں کے انخلا مہم میں تیزی

افغانستان میں ’لاوارث خواتین‘ کا قلعہ جس کے بارے میں مقامی لوگ بہت کم بات کرتے ہیں

لاہور کی بسمہ آصف آسٹریلوی ریاست کی پارلیمنٹ تک کیسے پہنچیں

نو مئی: سپریم کورٹ نے آٹھ مقدمات میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی ضمانت منظور کر لی

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انڈیا کے لیے جاسوسی کرنے کے الزام میں ایک شخص گرفتار

’ایک وعدہ‘ اور ڈیلیٹ شدہ میسج: اپنی ہی نومولود بیٹی کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار والد پر پولیس کو کیوں شک ہوا؟

سونے کی قیمت میں اضافہ۔۔ جانیں مہنگا ہو کر 1 تولہ سونا کتنے کا ہوگیا؟

عالمی جریدوں میں فیلڈ مارشل کی قیادت کا اعتراف، مردِ آہن قرار

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی