
Getty Imagesعلیمہ خان کا کہنا تھا کہ ہمیں علم تھا کہ ہمارے ساتھ ایسے واقعات ہو سکتے ہیںسابق وزیر اعظم عمران خان کی بہن علیمہ خان پر صحافیوں سے گفتگو کے دوران انڈہ پھینکنے کا واقعہ سوشل میڈیا پر موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ سیاسی اور عوامی حلقے اس اقدام کی مذمت کر رہے ہیں جبکہ بعض حلقوں کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات اب پاکستانی سیاست کا حصہ بنتے جا رہے ہیں۔ جمعے کو علیمہ خان اپنی دیگر بہنوں اور پارٹی کارکنوں کے ہمراہاڈیالہ جیل کے قریب صحافیوں سے گفتگو کر رہی تھیں کہ اس دوران ایک جانب سے اُن کی جانب انڈہ پھینکا گیا جو اُن کے چہرے پر لگا۔راولپنڈی پولیس کے مطابق انڈے مارنے والی دو خواتین کو تحویل میں لے کر اُنھیں اُن کی گاڑی سمیت اڈیالہ چوکی منتقل کر دیا گیا ہے۔ واقعے کے بعد علیمہ خان نے کہا کہ ’ہمیں فکر نہیں کہ ہمپر کوئی حملہ کرے، ہمیں پتا ہے کہ ایسا ہو گا۔‘انڈا پھینکے جانے کے واقعے کے بعد علیمہ خان نے میڈیا ٹاک ملتوی کر دی۔حملہ آور خواتین کون تھیں؟ترجمان راولپنڈی پولیس کا دعویٰ ہے کہ ’انڈہ پھینکنے والی خواتین کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہی ہے۔‘ترجمان کے مطابق ’یہ خواتین خیبر پختونخوا میں آل گورنمنٹ ایمپلائز گرینڈ الائنس اور آل پاکستان کلرک ایسوسی ایشن کے احتجاج کے سلسلے میں آئیں تھیں۔‘پولیس کے مطابق اپنے مطالبات سے متعلق خواتین کے سوالات پر علیمہ خان کی جانب سے جواب نہ دینے پر انڈہ پھینکنے کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے میں ملوث خواتین کو پولیس تحویل میں لے لیا گیا ہے۔ Getty Images’حملہ کرنے والے کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو، اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے‘ رانا ثنا اللہپاکستان تحریک انصاف کی جانب سے علیمہ خان پر انڈہ پھینکے کے واقعے کی مذمت کی گئی ہے۔ پارٹی چِیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا کہنا ہے کہ اب بات عمران خان کی فیملی پر حملے تک پہنچ چکی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’کوئی ہے جو بانی کے اہلخانہ پر حملہ کر کے حالات بگاڑنا چاہتا ہے۔‘ادھر وفاقی وزیر مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری کا کہنا ہے کہ ’حکومت یا کسی ادارے کو اس طرح کی چھوٹی حرکت کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔‘جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’اس معاملے میں تصدیق کا عمل جاری ہے۔ صرف دو خواتین ہی نہیں بلکہ اس میں مزید لوگ بھی ملوث ہیں اور اس دوران گاڑیوں کی بھی توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔‘کسی کی گرفتاری عمل میں لائے جانے سے متعلق سوال پر طلال چوہدری کا کہنا تھا کہ ’اگر کوئی درخواست آئی تو اس پر کارروائِی کی جائے گی۔‘عمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟نواز شریف اور عمران خان: کرکٹ سے سیاست اور رفاقت سے عداوت تک کا سفرشہریز خان: عمران خان کے ’بین الاقوامی ایتھلیٹ‘ بھانجے کو پولیس نے نو مئی کے دو برس بعد کیوں گرفتار کیا؟نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانیوزیر اعظم شہباز شریف کے مشیر برائے سیاسی اُمور رانا ثنا اللہ کا کہنا ہے کہ یہ انتہائی قابل مذمت واقعہ ہے۔جیو نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ’علیمہ خان بزرگ خاتون ہیں، عمران خان کی سیاست اپنی جگہ لیکن وہ ایک باوفا بہن ہیں اور میں اُن کی عزت کرتا ہوں۔‘رانا ثنا اللہ کا کہنا تھا کہ ’حملہ کرنے والے کا تعلق کسی بھی جماعت سے ہو اسے قرار واقعی سزا ملنی چاہیے۔‘جہاں حکومت میں شامل بیشتر افراد اس واقعے کی مذمت کر رہے ہیں وہیں کئی اس واقعے کی حقیقت پر اپنے شکوک و شبہات کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کی بہن مریم وٹو کا ایکس پر دیا گیا بیان شئیر کرتے ہوئے لکھا ’بشریٰ بی بی کی بہن کہہ رہی ہے کہ سب ڈرامہ ہے۔ علیمہ بی بی نے خود کو ہی انڈا پڑوایا۔‘مریم وٹو نے ایکس پر اس واقعے کے حوالے سے لکھا تھا ’آپ سب بیوقوف بن رہے ہیں۔‘’گذشتہ ایک دہائی سے پاکستانی سیاست میں اخلاقی گراوٹ آئی ہے‘پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹیو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے سربراہ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاست میں اب ایسے واقعات عام سی بات لگتے ہیں۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے احمد بلال محبوب کا کہنا تھا کہ نواز شریف جب لاہور کے جامعہ نعمیہ گئے تو اس وقت اُن پر جوتا پھینکا گیا۔ اُن کے بقول خواجہ آصف کے چہرے پر سیاہی پھینکی گئی، احسن اقبال پر حملہ کیا گیا جبکہ شہباز شریف کی جانب بھی ایک موقع پر جوتا اُچھالا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ملک سے باہر بھی ہمارے سیاست دانوں، سابق فوجی سربراہان، ججز اور بیورو کریٹس پر جملے کسے جاتے ہیں۔ یہ اب معمول کی بات بن گئی ہے۔ احمد بلال محبوب کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کی مذمت کے بجائے اسے عوامی ردعمل قرار دینے سے بھی ایسے واقعات کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے۔ سینئر صحافی اور تجزیہ کار ماجد نظامی کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاستگذشتہ ایک دہائی کے دوران تیزی سے زوال پذیر ہوئی ہے اور اس میں اخلاقی گراوٹ بھی آئی ہے۔ بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ملک کی دونوں بڑی سیاسی جماعتیں اس کا ذمے دار ایک دوسرے کو ٹھہراتی ہیں۔اُن کے بقول یہ واقعات اسی سوچ کی عکاسی کرتے ہیں جس میں آپ مخالف فریق کو بنیادی احترام دینا بھی گوارہ نہیں کرتے۔ ماجد نظامی کہتے ہیں کہ ایسے واقعات کا تدارک اُسی صورت ممکن ہے جس میں بغیر کسی اگر مگر کے تمام فریق کھل کر اس کی مذمت کریں۔ ’جو کل غلط تھا وہ آج بھی غلط ہے‘علیمہ خان پر انڈہ پھینکے جانے پر سوشل میڈیا پر بھی بات ہو رہی ہے۔ سابق وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے ایکس پر لکھا کہ ’یہ ایک شرمناک اور گھٹیا حرکت ہے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’نواز شریف پر جوتا اُچھالنا اور خواجہ آصف پر سیاسی پھینکنا بھی اسی ’فاشسٹ سوچ‘ کا نتیجہ تھا۔‘حنا پرویز بٹ نے ایکس پر لکھا ’علیمہ خان کو انڈہ مارنے کی شدید مذمت کرتی ہوں، عورت چاہے مخالف پارٹی کی ہو عورت ہی ہوتی ہے اور عورت پر کسی بھی قسم کا حملہ اور تشدد ناقابل قبول ہے۔‘سینئر صحافی اعزاز سید کہتے ہیں کہ ’ماضی میں ایسے واقعات پر خوشیاں منائی گئیں، لیکن وقت پلٹا اور عمران خان پر بھی جوتا اُچھالا گیا اور حملہ بھی ہوا۔ آج ان کی بہن پر انڈہ پھینکا گیا۔‘اُن کے بقول اس پر آج لیگی کارکن خوشیاں منا رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جو کل غلط تھا، وہ آج بھی غلط ہے۔ ایسے واقعات کے پیچھے ’کوئی‘ ہوتا ہے اسے تلاش کر کے بے نقاب کریں۔‘سینئر صحافی اور تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کہتی ہیں کہ ’سیاست کے اندر اس طرح کے واقعات کی گنجائش نہیں ہے۔‘’فیلڈ مارشل سے ملاقات‘ کے بارے میں آئی ایس پی آر کی تردید پر سہیل وڑائچ کی وضاحت: ’جن نکات کی اتنے بڑے پیمانے پر تردید کی گئی ہے ان کا ذکر تو کہیں تھا ہی نہیں‘عمران خان، فوج اور کنٹینرز: اقتدار کی جاری جنگ کا پاکستان کے لیے کیا مطلب ہے؟عمران خان کی میڈیکل رپورٹ: ’ورٹیگو‘ اور ’ٹائنائٹس‘ کیا ہوتا ہے؟شہریز خان: عمران خان کے ’بین الاقوامی ایتھلیٹ‘ بھانجے کو پولیس نے نو مئی کے دو برس بعد کیوں گرفتار کیا؟عمران خان کی قید کے دو سال اور پارٹی قیادت سے ’مایوس لیکن پرامید‘ کارکن: ’ریاست آج بھی عمران خان کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتی ہے‘