سیلاب میں بہنے والے مویشیوں کے پریشان مالکان: ’حکومت آئے گی، فوٹو بنائے گی اور پھر شاید کچھ ہو جائے‘


BBCسرکاری باڑے میں موجود مویشی مالکان کا دعویٰ ہے کہ وہ اپنے خرچے پر جانوروں کے چارے کا بندوبست کر رہے ہیں’میرے پاس اتنے مویشی تھے کہ میں پورے گاوٴں کو دودھ فراہم کرتا تھا، مگر اب صورتحال یہ ہے کہ میرے اپنے بچوں کے پاس پینے کے لیے دودھنہیں ہے۔‘صوبہ پنجاب کے ضلع منڈی بہاالدین کے گاوٴں جوکالیاں سے تعلق رکھنے والے 35 سالہ مزمل حسین بی بی سی کو سیلاب کے باعث ہونے والے نقصان کے بارے میں بتا رہے تھے۔ ’میرا گھر، مال مویشی سب ہی سیلاب کی نذر ہو گیا۔ اور جو جانور بچ گئے ہیں انھیں انتظامیہ ہمارے حوالے نہیں کر رہی ہے۔‘یاد رہے کہ محکمہ لائیوسٹاک پنجاب کے مطابق سیلاب کے باعث 1600 جانور ہلاک ہوئے ہیں جبکہ تقریباً تین لاکھ سے زائد مویشیوں کو سیلاب زدہ علاقوں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔مزمل حسین بھی اِن مویشی بانوں میں شامل ہیں جن کے کچھ جانور تو سیلابی ریلوں کے باعث ہلاک ہوئے مگر کچھ کو ریسکیو کر لیا گیا۔ مزمل کہتے ہیں کہ بچ جانے والے جانور دو ہفتے گزرنے کے بعد بھی انتظامیہ کی جانب سے انھیں واپس نہیں کیے گئے ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’گاؤں میں موجود بند کے ایک طرف میرا گھر تھا اور دوسری طرف جانوروں کا باڑہ۔ اب کسی حد تک سیلابی پانی اُترنے کے بعد میں اس جگہ کو دیکھتا ہوں تو لگتا ہے کہ ہم پر قیامت گزر گئی ہے۔‘اس رات کو یاد کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے علاقے میں جب یہ اعلانات کیے گئے کہ سیلاب آ رہا ہے اور لوگ محفوظ مقامات پر منتقل ہو جائیں، تو میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ چلو میں تو اپنے گھر والوں کو یہاں سے لے جاوٴں گا لیکن جانوروں کا کیا بنے گا۔‘انھوں نے بتایا کہ ’ہم اس علاقے میں عرصہ دراز سے رہ رہے ہیں اس لیے ہمیں لگا کہ پانی کو یہاں پہنچتے ہوئے کم از کم چھ سے سات گھنٹے لگ جائیں گے۔ جب سیلاب کے آنے کا اعلان کیا گیا تو اس وقت رات کے ساڑھے آٹھ بج رہے تھے اور ہمارے علاقے میں سیلاب گیارہ بچے داخل ہو گیا تھا۔‘مزمل کے مطابق ’میں فوراً اپنے جانور بچانے کے لیے بھاگا تو بند پر موجود انتظامیہ کے لوگوں نے مجھے کہا کہ اپنی جان بچاوٴ جانوروں کو چھوڑ دو۔ صبح جب میں ریسکیو والوں کے ساتھ گیا تو دیکھا کہ کچھ جانور تو مر گئے تھے، کچھ بہہ گئے اور جو بچ گئے تھے انھیں میں نے غوطے لگا کر کھولا تو وہ بہہ کر آگے ہیڈ قادرآباد پر پہنچ گئے۔‘’میں اور میرے گاوٴں کے لوگ اپنے جانور لینے جب وہاں پہنچے تو انھیں پولیس نے اپنے قبضے میں لیا ہوا تھا۔ ہم نے انھیں بتایا کہ یہ ہمارے جانور ہیں تو انھوں نے کہا کہ یہ جانور تصدیق کے بعد آپ کے حوالے کیے جائیں گے لیکن دس بارہ دن گزر گئے ہم یہاں روزانہ چکر لگاتے ہیں لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔‘’ہم خود اپنے جانوروں کے لیے مہنگا چارہ خرید رہے ہیں‘BBCمویشی بانوں کا دعویٰ ہے کہ انھیں اُن کے ریسکیو کیے گئے جانور واپس نہیں کیے جا رہے ہیںبی بی سی کی ٹیم ڈیڑھ گھنٹے کا سفر طے کر کے مزمل حسین کے گاؤں سے ہیڈ قادر آباد پہنچی۔ جب ہم اس جگہ پہنچے تو ہم نے دیکھا کہ وہاں مزمل جیسے کئی اور مویشی بان بھی موجود تھے جو اس باڑے کے گرد جمع تھے جسے انتظامیہ نے خاردار تاریں لگا کر بنایا ہے اور جہاں جانوروں کو سرکاری حفاظت میں رکھا گیا ہے۔ہم نے وہاں موجود مزید لوگوں سے بات کی تو سب نے اپنی مشکلات کے بارے میں بتایا۔ان کے مطابق وہ کئی روز سے یہاں موجود ہیں اور اپنے جانوروں کی رکھوالی کر رہے ہیں تاہم ان میں سے بیشتر نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ ان کے جانور انتظامیہ کے قبضے میں ہونے کے باوجود بھی بھوکے ہیں اور وہ خود چارہ ڈھونڈ کر اُن کو کھلا رہے ہیں۔محمد علی نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم اپنے سیلاب زدہ علاقے سے روز اس مقام تک آتے ہیں جبکہ میرا ایک بیٹا دن رات یہاں ہی رہ رہا ہے تاکہ جانوروں کی نگرانی کر سکے۔‘انھوں نے کہا کہ ’میرا گھر اور بچے پہلے ہی سیلاب سے متاثر ہیں۔ ہم اپنے معاملات کو دیکھیں یا پھر یہاں ڈیوٹی دیں۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے ڈی سی کو درخواستیں بھی دی ہیں، میں تو شناختی کارڈ رکھوانے اور ساتھ میں علاقے کے 20 لوگوں کو بطور گواہ پیش کرنے کو بھی تیار ہوں لیکن مجال ہے کوئی یہاں بات سُنے۔‘محمد علی کے مطابق ’یہ بس یہی کہتے ہیں کہ بڑا افسر آئے گا تو وہ دے گا۔ ہمیں پتا ہے کہ مسئلہ صرف فوٹو سیشن کا ہے۔ حکومت آئے گی فوٹو بنائے گی اور پھر شاید کچھ ہو جائے۔‘’اوپر کوبرا تھا اور نیچے 10 فٹ پانی‘: سیلاب سے بچاؤ کے لیے 24 گھنٹے درخت پر گزارنے والے شخص کی کہانیسیلاب متاثرین کو بھوکے مویشیوں کی فکر: ’ہمارے لیے کھانا نہ لائیں، جانوروں کے چارے کا انتظام کر دیں‘ لاہور کی رہائشی سوسائٹی جہاں سیلاب لوگوں کی جمع پونجی بہا لے گیا: ’سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ گھر چھوڑنا ہے یا رُکنا ہے؟‘مال مویشی لیے سڑکوں پر بیٹھے اور چھتوں سے مدد کے لیے پکارتے لوگ: بی بی سی نے سیالکوٹ، نارووال اور کرتارپور میں کیا دیکھا؟ بی بی سی کی ٹیم کو یہاں ایسی کئی کہانیاں سننے کو ملیں۔ متاثرین کے اس الزام کی تصدیق کرنے کے لیے ہم تھوڑی ہی آگے ایک حویلی میں گئے تو دیکھا کہ وہاں سو سے زائد گائے اور بھینسیں ایک چار دیواری کے اندر رکھی گئی تھیں۔ وہاں جانوروں کی ’کُھرلیاں‘ یعنی چارے والی جگہ اور ’حوضیاں‘ یعنی جانوروں کے پینے کے پانی والا حصہ خشک تھا جبکہ مویشی خالی ’حوضیوں‘ میں منھ مارتے اور چلے جاتے۔BBC’ایک جانور کے کئی دعویدار نکل آتے ہیں‘اس تمام تر معاملے پر بات کرنے کے لیے ہیڈ قادر آباد کے ساتھ بنائے گئے عارضی باڑے میں موجود پولیس والوں اور ایس ایچ او سے میں نے پوچھا کہ یہ جانور کب سے یہاں موجود ہیں تو انھوں نے بتایا کہ سیلاب کے دنوں میں انھیں یہاں پہنچایا گیا تھا۔میں نے سوال کیا کہ اتنے دن گزرنے کے بعد کیا کوئی پالیسی تشکیل دی گئی کہ کس طرح یہ جانور اصل مالک تک پہنچائے جائیں گے؟ جس پر انھوں نے جواب دیا کہ ’ابھی تو کچھ پتا نہیں۔ ہو سکتا ہے دو دن تک دے دیں۔ اصل میں یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایک جانور کے کئی دعویدار نکل آتے ہیں، اس لیے جانور تاحال ہمارے قبضے میں ہیں۔‘اس معاملے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پنجاب کے وزیر برائے لائیو سٹاک عاشق حسین کرمانی کا کہنا تھا کہ ’یہ آفت بہت بڑی ہے۔ اس لیے کہیں کہیں ایسے واقعات رپورٹ ہو جاتے ہیں۔ ابھی ہم تک چونکہ کوئی ایسی بات پہنچی نہیں تھی اس لیے اس معاملے کو حل کرنے کے لیے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی تاہم حکومت کی جانب سے ایسے مسائل کو حل کرنے کا اختیار ضلعی انتظامیہ اور پولیس کو دیا گیا ہے۔‘انھوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی جانب سے ہر ضلع میں جانوروں کی خوراک موجود ہے اور اب تک ہم چھ سو ٹن ونڈا، ہزار ٹن سائلیج، تین سو ٹن بھوسہ اور 1900 ٹن سبز چارہ تقسیم کر چکے ہیں۔کیا سیلاب کے باعث ڈیری کا کاروبار بھی متاثر ہوا؟BBCمنڈی بہاؤالدین کے مضافاتی علاقے سے تعلق رکھنے والے 70 برس کے محمد زمان کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس 103 گائیں اور بھینسیں تھیں اور وہ ان کا دودھ نجی ڈیری کمپنی کو فروخت کرتے تھے اور یہی ان کا ذریعہ معاش تھا جو اب بند ہو چکا ہے۔بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’جب سیلاب آیا تو میرے جانور سیلابی ریلے میں بہہ گئے۔ میرے چار بیٹے ہیں، انھوں نے جانوروں کو بچانے کے لیے اس سیلابی ریلے میں چھلانگیں لگا دیں۔ وہ کچھ جانوروں کو بچانے میں کامیاب ہو گئے لیکن میرے دو بیٹے خود بھی سیلاب میں بہہ گئے، جنھیں ہم نے درختوں کی ٹہنیوں سے لٹک کر ریسکیو کیا۔‘ان کے مطابق ’اس وقت قادر آباد حویلی میں میرے بچ جانے والے جانور پولیس کی تحویل میں ہیں جس کے باعث ہمارا کاروبار بھی رک گیا ہے۔‘جب ہم نے اس معاملے پر سروے کیا تو معلوم ہوا کہ چند نجی ڈیری کمپنیاں جو دریائے چناب کی زد میں آنے والے علاقوں میں کام کرتی ہیں ان کی مصنوعات کی مارکیٹ میں نمایاں کمی واقع آئی ہے۔اس حوالے سے وزیر برائے لائیو سٹاک پنجاب کا کہنا تھا کہ ’اس وقت جانور بھی بہت ذہنی دباؤ میں ہیں اور جب جانور سٹریس میں ہوتا ہے تو دودھ بھی کم دیتا ہے اور دوسری وجہ یہ ہے کئی راستوں اور دودھ اکٹھا کرنے والے پوانٹس تک سیلاب کی وجہ سے رسائی مشکل ہے۔‘’اوپر کوبرا تھا اور نیچے 10 فٹ پانی‘: سیلاب سے بچاؤ کے لیے 24 گھنٹے درخت پر گزارنے والے شخص کی کہانی’واش رومز میں پانی نہیں، جوان بچیوں کو کہاں سلاؤں‘: ملتان میں حکومتی کیمپس کے اندر اور باہر سیلاب متاثرین کس حال میں ہیں؟پنجاب میں سیلاب: ایک ہی خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت اور گاڑی میں تین بچوں کا جنمسیلاب متاثرین کو بھوکے مویشیوں کی فکر: ’ہمارے لیے کھانا نہ لائیں، جانوروں کے چارے کا انتظام کر دیں‘ لاہور کی ہاؤسنگ سوسائٹیز میں سیلاب: کیا یہ گھر اب رہنے کے قابل رہیں گے؟ایک ٹیوب کے ذریعے حافظ آباد کے درجنوں لوگوں کو بچانے والے ’ملنگ‘: ’میرے لیے ایک ہزار روپے انعام کروڑوں سے بہتر ہے‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

بنوں فوجی مرکز پر حملے میں ہلاک ہونے والے ’ایڈونچر پسند‘ میجر عدنان اسلم کون تھے؟

اسرائیلی سفیر کا حماس کے رہنماؤں کو دوبارہ نشانہ بنانے کا عندیہ، قطر کا ’جارحیت کے خلاف سخت کارروائی‘ کا انتباہ

’ہم مکان کی بالائی منزل پر بیٹھے اپنے اجڑنے کا تماشہ دیکھتے رہے‘: گجرات شہر پانی میں کیسے ڈوبا؟

قطر میں اسرائیلی حملے کے غزہ میں جنگ بندی کے امکانات اور مشرقِ وسطیٰ میں امریکی اتحاد پر کیا اثرات پڑیں گے؟

’تحریک کو موقع پرستوں نے ہائی جیک کر لیا‘: ’جین زی‘ گروپس کا نیپال میں پُرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اعلان

جھارا: 19 برس کی عمر میں جاپان کے انوکی کو شکست دینے والے پہلوان جو ’جوانی میں نشے کی لت‘ میں پڑ گئے

تیز بارش کا امکان.. کراچی میں آج کس وقت بادل برس سکتے ہیں؟

’تحریک کو موقع پرستوں نے ہائی جیک کرلیا‘: ’جین زی‘ گروپس کا نیپال میں پُرتشدد واقعات سے لاتعلقی کا اعلان

کراچی میں بارش کے بعد مختلف سڑکوں پر پانی جمع، ٹریفک کی روانی متاثر

کراچی میں سب سے زیادہ بارش کہاں ہوئی؟ محکمہ موسمیات نے بتا دیا

مبینہ جنسی حملے کے دوران حملہ آور کی زبان کاٹنے والی خاتون 61 برس بعد الزامات سے بری

کراچی میں موسلا دھار بارش ، تھڈو ڈیم اوور فلو، لٹھ ندی میں طغیانی

دوحہ میں حماس کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملہ جس نے ’سفارتکاری کے دروازے بند کر دیے‘

’جنگ‘ اخبار کا آخری اداریہ

دہشتگردوں کے خلاف ریاست پوری طاقت سے کارروائی کرے گی، وزیراعلیٰ بلوچستان

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی