
پنجاب کے سیلاب زدہ علاقوں میں جب پانی کی سطح کم ہوئی تو بہت سے خاندانوں کو اپنے گھروں میں ایک نیا خلا محسوس ہوا۔ خالی کمروں کی ٹھنڈی ہوا، اکھڑے ہوئے دروازے، اور وہ سامان جس پر زندگی دوبارہ جوڑنے کی امید بندھی تھی وہ غائب تھا۔ نارووال اور سیالکوٹ کے دیہی حلقوں سے لے کر لاہور کے نواح تک اور اب جنوبی پنجاب میں جان بچانے کے لیے چھوڑے گئے خالی گھروں سے سامان چوری ہونے کے واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں۔ سیلاب اور لوٹ مار اگست اور ستمبر میں دریائے راوی، ستلج اور چناب کے کنارے بسے درجنوں قصبات اور سینکڑوں بستیاں زیرِ آب آئیں۔ لوگ کیمپوں میں منتقل ہوئے، عارضی پناہ گاہوں میں دن گزرنے لگے اور وقتاً فوقتاً کشتیوں کے ذریعے گھروں کا حال دیکھنے واپس گئے۔اسی دوران کچھ ایسے واقعات بھی ہوئے کہ قدرتی آفت کے بعد انسانی ہاتھوں نے بھی متاثرین کو نقصان پہنچایا۔ جنوبی پنجاب سے ایسی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جن میں گھروں کی چھتوں پر رکھا تعمیراتی سامان، سولر پلیٹس اور بیٹریاں، پانی کے پمپ اور برقی آلات تک غائب ہوئے۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ شکایات موصول ہو رہی ہیں اور متاثرہ پٹی میں پانی پر گشت بڑھا دیا گیا ہے۔ علی پور کے رہائشی محمد حسنین نے اپنے گھر کی مرمت اور توسیع کے لیے برسوں کی جمع پونجی سے سامان اکٹھا کیا تھا۔ سیلاب آیا تو وہ اہلِ خانہ کے ساتھ قریبی بند پر منتقل ہو گئے۔ انہیں یہ اطمینان تھا کہ قیمتی چیزیں چھت پر اٹھا دی گئی ہیں، کم از کم پانی سے محفوظ رہیں گی۔ چند دن بعد جب وہ کشتی پر واپس پہنچے تو منظر بدل چکا تھا۔ چھت پر رکھے بھاری گارڈر، پانی کا پمپ، پنکھے اور واٹر ٹینک تک گم تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ہم سمجھے تھے بلند جگہ پر رکھا ہے اس لیے محفوظ ہوگا، لیکن لُوٹنے والے شاید چھتوں تک بھی پہنچ گئے۔‘اسی طرح سیت پور کے علاقے میں محمد غفران کہتے ہیں کہ ’ہم لوگ اپنے گھر چھوڑ کر پانچ روز سے پرانے سیت پوری والی سائیڈ پر ہیں اور کل جب میں نے ایک کشتی پر جا کر اپنے گھر کو دیکھا تو اس ہمارا الیکٹرانک کا سارا سامان غائب تھا۔ فریج بھی نہیں تھا۔ ٹی وی اور پانی کی موٹر بھی غائب تھی۔ بعد میں ہمیں پتا چلا کہ چور بھی کشتیوں پر گھوم رہے ہیں اور گھروں سے سامان چوری کر رہے ہیں۔‘سیلاب سے متاثرہ بعض علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی کی۔ (فوٹو: اے ایف پی)جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انہوں نے اس حوالے سے پولیس کو کوئی شکائت درج کروائی ہے۔ تو ان کا کہنا تھا کہ ’پولیس والے بھی کشتیوں پر ہی آتے ہیں اور ان کو بتایا ہے وہ کاغذ پر لکھ کے چلے گئے تھے۔ اور کہتے تھے کہ ڈھونڈ دیں گے۔ ابھی تو پانی ہی اتنا ہے۔ ہمیں نہیں لگتا کہ پولیس کا کوئی فائدہ ہے۔‘جلالپور پیروالا سے تعلق رکھنے والے امتیاز علی کہتے ہیں کہ ان کی سولر پلیٹس اور بیٹریوں کو چوری کر لیا گیا ہے۔ ’ہم نے اپنا سرمایا سولر پلیٹس پر لگادیا تھا۔ سیلاب کے بعد گھر کی خبر لینے گئے سولر پلیٹس، انورٹرز اور بیٹریاں سب اکھاڑ کے وہ لوگ لے گئے۔‘ انہوں نے پولیس سے کارروائی اور بازیابی کا مطالبہ کیا ہے۔ لاہور، نارووال اور سیالکوٹ کے کئی علاقوں میں متاثرین کی بڑی تعداد نے نقل مکانی اور عارضی پناہ گاہوں میں رہائش اختیار کی تو بھی ایسے کئی کیسز سامنے آئے۔ حتیٰ کہ لاہور کی سوسائیٹیز کے رہائشیوں نے اپنے گھر صرف اس لیے چھوڑنے سے انکار کر دیا کہ انہیں خدشہ ہے کہ ان کا سامان چوری ہو جائے گا۔ اور کچھ واقعات رپورٹ بھی ہوئے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے سامان کو محفوظ مقامات پر پہنچایا۔ (فوٹو: اے ایف پی)حکومت اور پولیس کیا کہہ رہی ہے؟ ملتان ریجن سمیت متاثرہ اضلاع کی پولیس نے اعتراف کیا ہے کہ چوری کی شکایات سامنے آ رہی ہیں۔ پانی پر گشت بڑھانے، کشتیوں کی نگرانی اور مشکوک سرگرمیوں کی رپورٹنگ کے لیے ہیلپ لائنز فعال رکھنے کا تاثر دیا گیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کی طرف سے بحالی اور ریلیف کے اقدامات کی تفصیل بھی سامنے آتی رہی ہے۔ صوبائی سطح پر ’خالی گھروں میں چوری‘ کی مجموعی تعداد کا کوئی مرکزی، جامع ڈیٹا سیٹ تاحال دستیاب نہیں۔ جنوبی پنجاب سے سامنے آنے والے دستاویزی واقعات اور متعدد متاثرین کے بیانات یہ ضرور بتاتے ہیں کہ معاملہ چند ایک کیسز تک محدود نہیں ہے۔سی ٹی او ملتان صادق علی ڈوگر کہتے ہیں کہتے ہیں کہ ’کچھ شکایات آئی ہیں۔ اور اس حوالے سے ہم نے کشتیوں پر پولیس کا گشت بھی بڑھا دیا ہے۔ ایف آئی آرز بھی درج ہو رہی ہیں اور ہم ان ملزموں کو ڈھونڈ نکالیں گے۔ پولیس اس وقت لوگوں کو سیلاب سے بچانے میں بھی مدد کر رہی ہے اور ساتھ ہم کرائم کنٹرول کی ذمہ داری بھی نبھا رہے ہیں۔‘