طالبان کی نئی حکمت عملی، دوحہ معاہدہ یا سیاسی چپقلش: خیبرپختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت کیسے آئی؟


Getty Imagesپاکستانی فوج کے میجر عدنان اسلم ایک حملے میں شدید زخمی ہونے کے بعد چل بسے تھےرواں ماہ صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں میں ایک فوجی مرکز پر شدت پسندوں کے حملے کی وائرل فوٹیج میں پاکستانی فوج کے میجر عدنان اسلم کی جانب سے اپنے زخمی ساتھی کی جان بچانے کی جدوجہد کے مناظر سامنے آنے کے بعد جہاں عوامی اور سرکاری سطح پر انھیں خراج تحسین پیش کیا گیا، وہیں بہت سے افراد نے خیبرپختونخوا میں بڑھتی ہوئی شدت پسندانہ کارروائیوں پر خدشات کا اظہار بھی کیا ہے۔حالیہ عرصے میں خیبر پختونخوا کے مختلف علاقوں سے آنے والی خبروں کو دیکھ کر بظاہر ایسا لگتا ہے کہ وہاں پاکستانی سکیورٹی فورسز پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے تواتر سے حملے ہو رہے ہیں جن میں فوجی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے اہلکاروں کے ساتھ ساتھ عام شہری بھی ہلاک ہو رہے ہیں۔پاکستان کے فیلڈ مارشل عاصم منیر اور وزیر اعظم شہباز شریف نے گذشتہ سنیچر کو بنوں کا دورہ کیا جہاں وزیر اعظم نے واضح انداز میں افغانستان میں طالبان حکام پر زور دیا کہ انھیں پاکستان یا تحریک طالبان پاکستان میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہو گا۔ یاد رہے کہ پاکستان بارہا یہ دعویٰ کر چکا ہے کہ پاکستان میں شدت پسندی کی کارروائیوں میں ملوث کالعدم ٹی ٹی پی کو افغانستان سے حمایت حاصل ہے، تاہم افغان حکام اِن دعوؤں کی تردید کرتے ہیں۔انسداد دہشت گردی کے شعبے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 میں افغانستان میں طالبان کے ایک بار پھر اقتدار میں آنے کے بعد سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں اور اثر ورسوخ میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے، جس کا واضح اظہار سرکاری سطح پر جاری ہونے والے اعداد و شمار سے بھی ہوتا ہے۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال یعنی 2024 میں پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی کے حملوں میں ڈھائی ہزار سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے اور سنہ 2024 میں ہونے والے حملوں کی تعداد سنہ 2023 کے مقابلے میں 66 فیصد زیادہ تھی۔اسی طرح خیبرپختونخوا کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے مطابق رواں برس کے ابتدائی آٹھ ماہ میں (جنوری 2025 سے اگست 2025) صوبے میں شدت پسندی کے کُل 766 واقعات پیش آئے ہیں جن میں 166 سکیورٹی اہلکار، 92 پولیس اہلکار، 159 عام شہری ہلاک ہوئے۔ جب کہ اس دورانیے میں ہلاک ہونے والے شدت پسندوں کی تعداد 293 رہی۔خیبر پختونخواکے جن علاقوں میں سب سے زیادہ حملے ہوئے اُن میں بنوں، شمالی وزیرستان، خیبر اور باجوڑ کے اضلاع سرِفہرست ہیں۔ دوسری جانب خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس سمجھتے ہیں کہ اگرچہ ٹی ٹی پی کے حملوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے لیکن اس کے نتیجے میں ہونے والا جانی نقصان پچھلے سال کی نسبت کم ہے اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے مؤثر طریقے سے دہشت گردوں سے نمٹ رہے ہیں۔ان حملوں میں سے زیادہ تر کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے قبول کی جو سنہ 2024 کی اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان، افغانستان میں سرگرم سب سے بڑی دہشت گرد تنظیم ہے، جسے سرحد پار پاکستان میں حملے کرنے کے لیے افغانستان کی طالبان حکومت کی حمایت حاصل ہے۔ اِس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کی تعداد چھ سے ساڑھے چھ ہزار کے درمیان ہے۔بی بی سی اُردو نے اس رپورٹ میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ پاکستان میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کی بڑھتی ہوئی کارروائیوں اور اثر و رسوخ کے پیچھے کیا وجوہات ہیں؟ یہ شدت پسند تنظیم بظاہر پاکستانی سکیورٹی فورسز کے لیے اتنا بڑا اور مشکل چیلینج کیوں بن گئی ہے؟ ہم یہ جواب ڈھونڈنے کی کوشش بھی کریں گے کہ مفتی نور ولی محسود کی قیادت میں اس کالعدم تنظیم نے گذشتہ چند برسوں کے دوران اپنی کارروائیوں کو کس طرح منظم کیا اور اس تنظیم کی میڈیا سٹریٹجی اور فنڈنگ کے ممکنہ ذرائع کیا ہیں؟ٹی ٹی پی کی بڑھتی کارروائیوں اور اثر و رسوخ کی وجوہات کیا ہیں؟BBCسنہ 2018 میں مولوی فضل اللہ کی ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد نور ولی محسود کو ٹی ٹی پی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھاماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر اس کی بنیادی وجہ افغانستان میں سنہ 2021 میں طالبان حکومت کا قیام ہے جس کی بدولت ناصرف کالعدم ٹی ٹی پی کا حوصلہ بڑھا ہے بلکہ اُنھیں نئے وسائل تک رسائی بھی حاصل ہوئی ہے۔اُن کے مطابق اِس کے ساتھ ساتھ ٹی ٹی پی کے امیر مفتی نور ولی محسود کی قیادت میں یہ کالعدم جماعت پہلے سے مقابلے میں اب کہیں زیادہ متحد اور یکسو نظر آتی ہے۔خیبرپختونخوا کے سابق آئی جی اختر علی شاہ کا کہنا ہے کہ چاہے مذہبی انتہا پسند گروہ ہوں یا قوم پرست تنظیمیں، یہ سب گورننس کے نظام میں موجود اُس خلا سے فائدہ اٹھاتی نظر آتیں ہیں جومعاشی، معاشرتی اور عدالتی انصاف کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہوتا ہے۔’مختلف وجوہات کی بنیاد پر ایسے عناصر کے لیے معاشرے کی سطح پر کسی حد تک قبولیت بھی موجود ہے، اُن کی ریکروٹمنٹ بھی جاری رہتی ہے، اُن کی فنڈنگ بھی جاری ہے، اُن کے پاس پراپیگنڈا مشینری بھی ہے اور لاجسٹکس بھی ۔۔۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ جیسے ریاست کے دوسرے ادارے موجود ہیں اور اپنا کام کر رہے ہیں بلکہ اُسی طرح وہ بھی اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘تحریک طالبان پاکستان کے سابق سربراہ مولوی فضل اللہ کی سنہ 2018 میں ایک امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے دو ماہ بعد مفتی نور ولی محسود کو اس کالعدم تنظیم کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ ماہرین کے مطابق بطور سربراہ ٹی ٹی پی نور ولی محسود نے جو نئی حکمت عملی ترتیب دی، اُس میں ناراض اور ماضی میں ٹی ٹی پی سے علیحدہ ہو جانے والے چھوٹے شدت پسند گروہوں کو واپس اپنے ساتھ ملانا شامل تھا۔ AFPاس کے ساتھ ساتھ انھوں نے پراپیگنڈا مشینری کے ذریعے اس بات کو فروغ دیا کہ ٹی ٹی پی عوام کے خلاف نہیں بلکہ اس کی کارروائیاں مکمل طور پر فوج اور سکیورٹی اداروں کے خلاف ہیں۔اختر علی شاہ کے مطابق ’ٹی ٹی پی اپنی اِسی نئی حکمت عملی کے تحت صرف سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنا رہی ہے۔ حالیہ کارروائیوں کو دیکھا جائے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اب یہ گروہ عام شہریوں کو ٹارگٹ نہیں کر رہا۔ ایسا کرنے کا واحد مقصد یہ ہے کہ عام افراد کی ہمدردیاں اُنھیں حاصل رہیں۔‘ ’پولیس اور اداروں کو نشانہ بنا کر وہ فزیکل سپیس حاصل کرنا چاہتے ہیں، کسی ایک علاقے میں حملے زیادہ ہوں گے، اور پولیس پیچھے ہٹے گی تو اس جگہ اس گروہ کو داخل ہونے کا موقع ملے گا۔ سوشل سپیس وہ اس طرح حاصل کرتے ہیں کہ لوگوں کے درمیان فیصلے کرنے لگتے ہیں، اور پھر تشہیر کرتے ہیں کہ دیکھو جو فیصلہ انگریزی عدالتیں برسوں میں نہ کر پائیں، ہم نے دنوں میں کر دیا۔‘انھوں نے کہا کہ ماضی میں ان پر کسی حد تک قابو پایا گیا مگر امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان دوحہ معاہدے کے بعد ٹی ٹی پی کے لیے راستے مزید کُھل گئے۔ ’افغانستان میں جیلوں کے دروازے کُھل گئے، بہت سے طالبان رہنما باہر آ گئے جہاں انھیں موافق حالات بھی میسر آ گئے۔ پناہ گاہیں اور تنظیمی سٹرکچر پہلے سے موجود تھے جس کا انھیں فائدہ ہوا۔‘ ’پاکستان اس خوش فہمی میں بھی رہا کہ افغانستان میں طالبان کے آ جانے سے پاکستان میں حالات بہتر ہوں گے، مگر ایسا ہوا نہیں۔ اسی دورانیے میں انھیں پھلنے پھولنے کا موقع مل گیا اور یہی طالبان کے دوبارہ منظم ہونے اور ان کے بڑھتے اثر و رسوخ کی وجوہات ہیں۔‘’پاکستانی سکیورٹی ادارے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد کرتے ہیں‘: افغان وزیرِ دفاع کا اسلام آباد کو تعاون بڑھانے کا مشورہجنت، حوریں اور شدت پسندی: ایک افغان نوجوان کی کہانی جو ’فدائی‘ بننے کے قریب پہنچ گیا تھاسکیورٹی تجزیہ کار عبدالسید کے مطابق ’پاکستانی طالبان نے ماضی کی داخلی خونریزی اور دیگر پالیسیوں کی وجہ سے ہونے والی تنزلی سے نجات پانے کے لیے 2018 سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلیوں کا آغاز کیا تھا جو 2020 میں طالبان اور امریکہ کے درمیان ہونے والے دوحہ امن معاہدے کے بعد عملی شکل اختیار کرنے لگیں۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے ماضی کے طالبان کے اہم دھڑوں سمیت 80 کے قریب چھوٹے بڑے شدت پسند گروپ ٹی ٹی پی میں شامل ہوئے جس کے باعث اس گروہ کے حملوں میں اضافہ ہوا۔ اسی طرح ٹی ٹی پی نے افغان طالبان کی طرز پر ایک مرکزی نظام کے تحت ریاست کے خلاف جنگ کو منظم کیا، جس سے اس کے حملوں کی شدت میں اضافہ ہوا۔ مثال کے طور پر 2025 کے آغاز میں ٹی ٹی پی نے اپنے شیڈو سٹرکچر کا اعلان کرتے ہوئے 1200 کے قریب عہدیداروں کا اعلان کیا، جس میں خیبر پختونخوا کے ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر نیٹ ورک کا قیام شامل تھا اسی طرح بلوچستان، پنجاب اور سندھ کے بعض اضلاع میں بھی اسی قسم کا شیڈو نیٹ ورک بنایا گیا۔‘Reutersستمبر کے دوران بنوں میں ایف سی ہیڈکوارٹر پر حملہ کیا گیا تھاماہرین کے مطابق وقت کے ساتھ ساتھ اس کالعدم گروہ کا نظریہ صرف شریعت کے قیام کے لیے ’جہاد‘ پر مرکوز ہونے سے ذرا آگے بڑھ کر ایک ایسی تحریک بن گیا ہے جو پشتونوں اور بلوچوں کے حقوق کے دفاع کی باتیں بھی کرتی ہے، تاکہ وہ اپنی ایک مقبول تصویر پیش کر سکیں۔انسداد دہشت گردی کے ماہر اور پاکستان میں شدت پسند گروہوں پر کام کرنے والے خرم اقبال کہتے ہیں کہ ’اگر افغانستان سے امریکی اور بین الاقوامی افواج کا انخلا زیادہ ذمہ دارانہ طریقے سے ہوتا تو شاید آج پاکستان میں ہم جو دہشت گردی کے دوبارہ بڑھتے واقعات دیکھ رہے ہیں، وہ ایسے نہ ہوتے۔ افغانستان سے بین الاقوامی أفواج کا انخلا انتہائی غیر ذمہ دارانہ طریقے سے ہوا، بڑی تعداد میں اسلحہ بلیک مارکیٹ میں دستیاب ہوا، اور اسی بلیک مارکیٹ کے ذریعے یہ جدید اسلحہ تحریک طالبان پاکستان جیسے گروہوں کے ہاتھ لگا، جس کی ان کی کارروائیوں کی شدت بڑھی۔‘انھوں نے کہا کہ ’پاکستان میں طالبان کے بڑھتے اثر و رسوخ کی ایک اور وجہ پاکستان سے جڑے جو ہمارے قبائلی علاقہ جات ہیں جب ماضی میں وہاں جب أفواج پاکستان نے آپریشنز کیے، 2014 کے بعد، تو عسکری سطح پر تو کافی کامیابیاں حاصل ہوئیں مگر ان کامیابیوں کے بعد دوبارہ تعمیر (پوسٹ کنفلیکٹ ریکنسٹرکشن) کے عمل میں ہم زیادہ سنجیدگی نہ دیکھا سکے۔ (سابقہ) فاٹا کے لیے 100 ارب روپے کا وعدہ کیا گیا مگر اس علاقے کی تعمیر و ترقی میں ہمیں اس کا عشر عشیر بھی لگتا نظر نہیں آیا۔‘ خرم اقبال کے مطابق اس رویے اور عدم سنجیدگی نے فوجی آپریشنز کے ذریعے حاصل ہونے والی کامیابیوں کو بڑی حد تک متاثر کیا۔انھوں نے مزید کہا کہ تیسری وجہ وفاق اور صوبہ خیبرپختونخوا کے درمیان گذشتہ چند برسوں سے چلنے والی سیاسی چبقلش ہے، جو دہشت گردی کے حوالے سے قومی کوششوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔اگر خصوصاً گذشتہ چار برسوں کی بات کی جائے تو اس دورانیے میں ٹی ٹی پی کی استعداد کار میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، اب یہ تنظیم پہلے سے کہیں زیادہ جدید اسلحہ استعمال کر رہی ہے، ان کے حملے پہلے سے زیادہ منظم نظر آتے ہیں، اور یہ سب ان کی بڑھتی ہوئی صلاحیت کو ظاہر کرتی ہیں۔تو کیا کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی سٹریٹجی ناکام نظر آتی ہے؟ اس پر خرم اقبال کا کہنا تھا کہ 'اگر اعداد و شمار پر نگاہ ڈالی جائے تو اس میں کوئی شک و شبہ نظر نہیں آتا، کیونکہ پاکستان دنیا میں برکینافاسو کے بعد دنیا کا شدت پسندی سے متاثرہ دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔عبدالسید کے مطابق بظاہر پاکستان میں 2022 میں اقتدار کی تبدیلی اور ملک میں ہونے والی داخلی سیاسی تقسیم کی وجہ سے بھی سیاسی و فوجی قیادت متفقہ طور پر پاکستانی طالبان کے حوالے سے ایک مؤثر فیصلہ سازی میں ناکام رہی ہے۔ ’2022 اور 2023 کے دوران ملک کے اندر سیاسی کشیدگی کی وجہ سے حکومت پاکستانی طالبان کے خلاف مؤثر اقدامات کی بجائے اپنے اقتدار کی بقا اور استحکام کی مشکلات سے دوچار رہی، جس کی بدولت پاکستانی طالبان نے اپنی سیاسی و عسکری قوت بڑھانے کے لیے اہم کام کیا۔‘ٹی ٹی پی فنڈنگ کہاں سے حاصل کرتی ہے؟Getty Imagesماہرین کہتے ہیں کہ ٹی ٹی پی کا معاشی ڈھانچہ منظم اور درجہ بندی کے نظام پر مبنی ہے۔ ایک مرکزی فنانس کمیٹی ہے جو علاقائی یا ذیلی کمیٹیوں کی نگرانی کرتی ہے۔ علاقائی کمیٹیاں روزانہ کی بنیاد پر فنانشل رپورٹس تیار کرتی ہیں اور اسی رپورٹس کی بنیاد پر ماہانہ آڈٹ تیار کیے جاتے ہیں جو پھر سینٹرل کمیٹی کے ساتھ شئیر کیے جاتے ہیں، یعنی سادہ الفاظ میں یہ ایک پیچیدہ فنانشل آپریشن ہے۔شدت پسند گروہوں پر رپورٹ کرنے والے صحافی افتخار فردوس کہتے ہیں کہ سنہ 2018 میں ٹی ٹی پی ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کو انھوں نے ’لائحہ عمل‘ کا عنوان دیا تھا۔ ’اس دستاویز میں ٹی ٹی پی کے معاشی معاملات کا ایک جامع ماڈل پیش کیا گیا ہے، اور اسی ماڈل کے تحت ٹی ٹی پی آج بھی کام کر رہی ہے۔ ریاست کی نظر میں جو اعمال لوٹنے، چوری کرنے اور بھتہ لینے سے متعلق ہیں انھیں ٹی ٹی پی نے ایک اور رنگ دیتے ہوئے اپنے لیے جائز قرار دیا ہے۔ اس ماڈل میں کلیدی شعبہ ’ٹیکسیشن‘ کا ہے، یعنی وہ علاقے جو اُن کے زیر اثر ہیں، اور کراس بارڈر تجارت کرنے والے افراد جن سے وہ باقاعدگی سے بھتہ لیتے ہیں (اور اپنے الفاظ میں اسے ٹیکس قرار دیتے ہیں)۔‘انھوں نے بتایا کہ وہ چینلز جن کے ذریعے ٹی ٹی پی اپنے پراپیگنڈے کو فروغ دیتی ہے، ان پر مختلف ڈیجیٹل کرنسیوں کے اکاؤنٹ نمبرز دستیاب ہوتے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر لوگ ان کو فنڈ دینا چاہیں تو ڈیجیٹل کرنسی کے اکاؤنٹس بھی دستیاب ہیں۔یاد رہے کہ ٹی ٹی پی بہت عرصے سے کرپٹو کرنسی میں چندے اکٹھے کر رہی ہے اور مارچ 2025 میں اس کالعدم تنظیم نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر جاری پیغام میں ٹی ٹی پی کہا تھا کہ اُس کے حامی ’بائنانس اکاؤنٹ‘ کے ذریعے بھی تنظیم کی مالی معاونت کر سکتے ہیں۔مارچ 2025 بی بی سی کی ایک رپورٹ کے لیے اٹلی میں مقیم محقق رکارڈو ویلے نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’عمومی طور پر دیکھا جائے تو دہشتگرد تنظیموں کی جانب سے کرپٹو کرنسی کو بڑے پیمانے پر چندہ جمع کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کرپٹو کرنسی کا استعمال شدت پسندوں کو فوری طور پر چندہ اکٹھا کرے اور اس دوران سکیورٹی فورسز سے خفیہ رہنے میں مدد کرتا ہے جب تک کوئی اس کرپٹو والٹ کو فلیگ نہیں کر دیتا۔‘موثر میڈیا آپریشنماہرین کے مطابق کالعدم ٹی ٹی پی کے میڈیا وِنگ کا نام 'عمر میڈیا' ہے جس کے آپریشنز حالیہ برسوں میں کافی وسیع ہوئے ہیں اور اس کا مقصد شدت پسندی کی کارروائیوں کی تعریف اور ریاست مخالف جذبات کو ہوا دینا ہے۔ جنوری 2025 میں ٹی ٹی پی نے عمر میڈیا کو ایک نئے انداز میں پیش کرتے ہوئے ایک تفصیلی تنظیمی ڈھانچے کا اعلان کیا، جس کے مطابق عمر میڈیا سے لگ بھگ تین درجن کے قریب افراد منسلک ہیں۔عمر میڈیا کا ایک وسیع پورٹ فولیو ہے جس میں ویڈیو اور آڈیو سیریز، معمول کے بیانات اور اردو اور پشتو میں شائع ہونے والے میگیزینز شامل ہیں۔ اِس کے آڈیو، ویڈیو، میگزینز، ایف ایم ریڈیو اور سوشل میڈیا کے لیے پانچ مختلف محکمے ہیں اور اِس کے ساتھ ساتھ ایک سینٹرل میڈیا کمیشن بھی ہے۔اِس کے علاوہ ٹی ٹی پی اپنا مواد شئیر کرنے کے لیے ٹیلیگرام اور وٹس ایپ جیسے پلیٹ فارمز کا استعمال کرتی ہے۔افتخار فردوس کہتے ہیں کہ اب ٹی ٹی پی کا پراپیگنڈا مواد صرف اُن روایتی پلیٹ فارمز یا سی ڈی پر دستیاب نہیں ہے جو چند سال پہلے تک اس نوعیت کی شدت پسند تنظیموں کا خاصہ تھے۔ ’اب وہ لگ بھگ ہر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود ہیں۔ اگر ان کے مواد کا جائزہ لیا جائے تو وہ سکیورٹی فورسز کے کردار پر پراپیگنڈے کو کافی فوکس کرتے ہیں، ان کا ٹارگٹ پاکستان کے نوجوان ہیں، ان کی ویب سائٹ کا سرور بھی کافی ممالک میں رکھا گیا ہے، یعنی وہ ایک جگہ مشکل پیش آنے کی صورت میں دوسری جگہ سے اس کو آپریٹ کر سکتے ہیں۔‘’مگر یہ واضح ہے کہ ٹی ٹی پی کے آپریشنز ان کے پراپیگنڈا کی نسبت کافی کم ہیں۔ وقت کے ساتھ انھوں نے پراپیگنڈا کے فن میں مہارت حاصل کی ہے۔‘’ماضی کی نسبت جانی نقصان کم ہے‘BBCذوالفقار حمید: ’ماضی کی نسبت حملوں میں ہونے والے جانی نقصان میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے‘بی بی سی نے خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل پولیس ذوالفقار حمید سے اس سلسلے میں بات کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اگرچہ رواں سال کے پہلے آٹھ ماہ میں پولیس اور سکیورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے لیکن ماضی کی نسبت اس دورانیے میں جانی نقصان میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے کیونکہ اب پولیس زیادہ چوکس اور عسکریت پسندوں کے خلاف بھرپور انداز سے کارروائیاں کر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ صوبے کے بیشتر علاقوں میں حالات بہتر ہوئے ہیں مگر چند اضلاع میں چیلینجز کا سامنا ہے۔ انھوں نے اس توقع کا اظہار کیا کہ بہت جلد ان علاقوں میں بھی حالات بہتر ہو جائیں گے۔انھوں نے دعویٰ کیا کہ گذشتہ آٹھ ماہ کے دوران صورتحال میں کافی بہتری آئی ہے۔ ’اب کوئی مسئلہ نہیں ہے، ہائی ویز محفوظ ہیں اور سال کے شروع کے دنوں میں پولیس پر حملے بہت زیادہ ہوئے تھے جن کے خلاف کارروائیاں کی گئیں اور اب حالات کافی بہتر ہوئے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ جہاں بھی تشویشناک صورتحال پیدا ہوتی ہے وہاں بھر پور کارروائی کی جاتی ہے اور شدت پسندوں کے حملوں سے موثر انداز میں نمٹا جاتا ہے اور اسی کی بدولت جانی نقصان میں 20 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔انھوں نے مزید کہا کہ جہاں بھی اِن کی موجودگی نظر آتی ہے وہاں نفری بڑھا دی جاتی ہے اور کارروائیاں کی جاتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ لکی مروت اور کچھ دیگر علاقوں میں ان کے اہم کمانڈرز بھی مارے گئے ہیں۔’پاکستانی سکیورٹی ادارے اپنی کمزوری چھپانے کے لیے افغانستان پر الزامات عائد کرتے ہیں‘: افغان وزیرِ دفاع کا اسلام آباد کو تعاون بڑھانے کا مشورہپاکستانی طالبان کی نمائندگی کرنے والا ’عمر میڈیا‘ کیسے کام کرتا ہے اور اسے کون چلاتا ہے؟جنت، حوریں اور شدت پسندی: ایک افغان نوجوان کی کہانی جو ’فدائی‘ بننے کے قریب پہنچ گیا تھاافغانستان میں رہ جانے والے امریکی ہتھیار جو ’القاعدہ سے وابستہ گروہوں نے بلیک مارکیٹ سے خریدے‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

جسٹس طارق جہانگیری کو کام سے روکنے کا حکم، عدالتی فیصلے کے خلاف وکلا کی ہڑتال

بلوچستان کے ضلع شیرانی میں شدت پسندوں کا پولیس اور لیویز کے تھانوں پر حملہ

’لازوال عشق‘: ’سچی محبت کی تلاش‘ کے لیے بنایا گیا پروگرام پاکستان میں متنازع کیوں بنا؟

عمران خان نے آرمی چیف کو پیغام دیا ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ٹوٹ جائیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے: علیمہ خان

عمران خان نے آرمی چیف کے لیے پیغام دیا ہے کہ اگر آپ سمجھتے ہیں ہم ٹوٹ جائیں گے تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے: علیمہ خان

وزیراعظم شہباز شریف تین ملکی دورے پر روانہ

پاکستان سے جانے والے 22 ’فٹبالر‘ جاپان کے ایئرپورٹ پر کیسے پکڑے گئے؟

شیرانی: دہشت گردوں کا تھانے پر حملہ، 4 سکیورٹی اہلکار شہید

بنوں اور کرک میں دہشت گردوں کے حملے ناکام، 3 ہلاک، 4 زخمی

سیلاب کے اندھیروں میں روشنی: بابر بھائی کی کہانی، پانی ہی جن کی زندگی ہے

طالبان کی نئی حکمت عملی، دوحہ معاہدہ یا سیاسی چپقلش: خیبرپختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت کیسے آئی؟

وزیراعظم شہباز شریف کا تین ملکی دورہ، آج سعودی عرب روانہ ہوں گے

غزہ شہر پر قبضے کے لیے اسرائیل کے شدید حملے: گذشتہ 24 گھنٹوں میں 59 فلسطینی ہلاک، نقل مکانی کا عمل جاری

غزہ شہر پر قبضے کے لیے اسرائیل کے شدید حملے جاری: گذشتہ 24 گھنٹوں میں 59 فلسطینی ہلاک، نقل مکانی کا عمل جاری

اقوام متحدہ کے ریزیڈنٹ کوآرڈینیٹر کا عمرکوٹ میں ایچ پی وی ویکسی نیشن کا جائزہ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی