چند بال نظر آنے پر گرفتاری اور اخلاقی پولیس کی حراست میں ایک ہلاکت نے کیا ایران کی بنیادوں کو ہلا دیا؟


Fatemeh Bahrami/Anadolu via Getty Imagesتین سال قبل گرمیوں کے موسم میں جب 22 سالہ مہسا امینی تہران آئیں تھیں تو انھیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ چند ہی گھنٹوں میں وہ گرفتار ہوں گی، اُن پر تشدد ہو گا اور پھر وہ ایران کی بدنامِ زمانہ اخلاقی پولیس کی حراست میں مشکوک حالات میں ہلاک ہو جائیں گی۔یہ معاملہ بس اتنا ہی تھا کہ سکارف میں سے اُن کے کچھ بال دکھائی دے رہے تھے۔اُن کی موت نے ملک گیر احتجاج کو جنم دیا جسے بعد میں ’مہسا تحریک‘ یا ’خواتین، زندگی، آزادی‘ کا نام دیا گیا۔یہ احتجاج ابتدا میں مہسا امینی کے ہلاکت کے بعد انصاف کے حصول کے لیے شروع ہوا لیکن جلد ہی خواتین کے حقوق کے لیے ملک گیر تحریک اور حکومت ہٹانے کے مطالبے تک پہنچ گیا۔اس تحریک کے تحت احتجاجی ریلیوں میں آزادی اور حقوق کا مطالبہ کیا گیا اور پھر یہ احتجاج ایران میں اثرورسوخ رکھنے والے سخت گیر مولویوں کی حکومت کے خاتمے کے لیے ایک تحریک میں بدل گیا جو مظاہرین کے خیال میں گذشتہ کئی عرصے سے ایرانیوں کی شخصی آزادی کو سلب کر رہی ہے۔مہسا امینی ایران کے کردستان صوبے کے شہر قیز سے دارالحکومت تہران اپنی رشتے دار سے ملنے آئیں تھی اور وہ شہر میں گھوم رہی تھیں لیکن پھر ان کی ہلاکت سے ایران میں تبدیلی کا مطالبہ زور پکڑنے لگا۔اس کے بعد سے ایران میں وہ تبدیلیاں آئیں جو وہاں کی حکومت کے گمان میں نہ تھیں۔ ان تین برسوں میں ایرانی خواتین نے حکومت کی جانب سے رائج ڈریس کوڈ کی کھلے عام خلاف ورزی کی۔ایران میں رائج شرعی قوانین کے تحت خواتین کے لیے سر ڈھانپا اور عبایہ پہنا لازمی ہے جس میں اُن کے جسمانی خدوخال نمایاں نہ ہوں۔2006 کے بعد سے پولیس کا خصوصی یونٹ اس ڈریسں کوڈ پر عمل درآمد یقینی بناتا ہے لیکن سنہ 2022 کے اس واقعے نے ان تمام چیزوں کو چیلنج کر دیا۔Stringer/Anadolu Agency via Getty Imagesمہسا امینی کی ہلاکت کے بعد ایران میں ملک گیر احتجاج شروع ہوئےاس سے قبل بھی خواتین کبھی کبھار ڈریس کوڈ کی خلاف ورزی کرتی رہیں ہیں لیکن یہ تہران یا دوسرے بڑے شہروں تک ہی محدود تھا۔ اب بڑی تعداد میں خواتین چار دہائیوں سے لاگو اس ڈریس کوڈ کی پرواہ نہیں کرتی ہیں بلکہ وہ خود اس بات کا تعین کرتی ہیں کہ انھیں کیا پہننا ہے۔ایک انتہائی قدامت پرست معاشرے میں اب بڑی تعداد میں خواتین رنگ برنگے لباس، قمیض، جینز اور سکرٹ پہنے ہوئے دکھائی دیتی ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد تبدیلی آئی ہے۔ایران میں خواتین کے برابری کے حقوق کے لیے سرگرم وکیل ثمانہ سویدی کا کہنا ہے کہ ’یہ صرف کپڑوں تک محدود نہیں۔ یہ ریاست کی جانب سے خواتین کے جسم اور انتخاب پر جبری کنٹرول ہے۔ کیسے آپ خواتین کی زندگیوں کو کنٹرول کر سکتے ہیں، وہ کیسے رہنا چاہتی ہیں، کیا پڑھنا چاہتی ہیں، کیا کام کرنا چاہتی ہیں۔‘کیا اس واقعے نے ایران کے سخت گیر معاشرے کی بنیادوں کو ہلایا یا پھر یہ محض دکھاوے کے لیے کی گئی تبدیلیاں ہیں۔HOSSEIN FATEMI/Middle East Images/AFP via Getty Imagesایران میں اخلاقی پولیس عوامی مقامات پر ڈریس کوڈ کی پابندی کرواتی ہےیونیورسٹی آف میلبرن میں مشرقِ وسطیٰ کے اُمور کے ماہر ڈاکٹر ڈرا کونڈیٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ مظاہرے اب نہیں ہو رہے ہیں لیکن گذشتہ دو دہائیوں میں ایرانی خواتین کی تحریکوں نے خواتین کی آزادی کے معاملے کو سیاسی مسئلہ بنایا۔‘اگرچہ عارضی طور پر ہی صحیح لیکن شواہد یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اس سے فرق پڑا اور تین سال قبل ہونے والے احتجاج کے بعد بظاہر یہ لگتا ہے کہ ایرانی معاشرے پر خواتین اب قابض ہو رہی ہیں۔ایک نوجوان خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پینٹ اور جیکٹ پہن کر بغیر سکارف لیے باہر جاتی ہیں اور اب انھیں کوئی کچھ نہیں کہتا۔بیرون ملک مقیم ایک ایرانی خاتون نے بی بی سی کو بتایا کہ ’معاشرہ بدل رہا ہے۔ پچھلی مرتبہ جب میں ایران گئی تھی تو میں نے ایک بار بھی سکارف نہیں لیا تھا۔‘معاشرے میں اس تبدیلی کے لیے خواتین نے بڑی قیمت ادا کی ہے ۔2022 کی احتجاجی تحریک میں پولیس اور سکیورٹی فورسز نے 500 افراد کو ہلاک کیا، کئی شدید زخمی ہوئے اور ہزاروں کو حراست میں لیا گیا۔میں اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹروں نے مجھے اندر جانے نہیں دیا، والد مہسا امینی’گشتِ ارشاد فورس‘: ایران نے اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا، اٹارنی جنرلمہسا امینی کی ہلاکت: ایران میں خواتین کا بال کٹوا کر احتجاجایران: انقلاب کے بعد اور ابMorteza Nikoubazl/NurPhoto via Getty Imagesایرانی حکومت کا کہنا ہے کہ خواتین عوامی مقامات پر سر کو سکارف سے ڈھانپیںگذشتہ تین برسوں کے دوران خواتین کی تحریک میں کردار ادا کرنے والے 12 افراد کو پھانسی دی گئی۔ سرگرم افراد کا کہنا ہے کہ انھیں فیئر ٹرائل کا حق نہیں ملا جبکہ ان افراد کے اہلخانہ کے مطابق دورانِ حراست انھیں تشدد کیا گیا اور جرم قبول کرنے پر مجبور کیا گیا۔ایران میں مظاہرے کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی حکومت نے تشدد کے ذریعے اختلافی رائے کو کچلا تاکہ نہ صرف احتجاج کو ختم کیا جائے بلکہ اُمید بھی دم توڑ جائے۔آخرکار حکومت مہسا امینی کی موت کے بعد مظاہروں کو دبانے میں کامیاب ہو گئی لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اس سے دیرپا تبدیلی کو روکنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔مبصرین کے خیال میں مہسا تحریک کے بعد ایران اب پہلے جیسا ملک نہیں رہا۔ATTA KENARE/AFP via Getty Imagesتین برسوں کے دوران ایران بدل گیاڈاکٹر کونڈیٹ کا ماننا ہے کہ احتجاج اور اختلاف کو دبانے کے لیے حکومتی موقف نرم نہیں ہوا بلکہ اُن کے طریقہ کار میں تبدیلی آ گئی۔سنہ 2023 میں بھی ایران کی پارلیمینٹ نے حجاب بل کی منظوری تھی جس کے تحت عوامی مقامات پر حجاب کی پابندی نہ کرنے پر سخت سزائیں تجویز کی گئیں لیکن پھر ملک گیر احتجاج کے بعد اس قانون کا اطلاق مؤخر کر دیا گیا۔دوسری جانب کئی افراد کا کہنا ہے کہ اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ حکومت خواتین کے حقوق کے معاملے سے الگ ہو گئی ہے۔ایران کے لیے اقوام متحدہ کے بین الاقوامی فیکٹ فائنڈنگ مشن کے ماہرین نے رواں سال مارچ میں ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں انھوں نے ایران کے نام نہاد ’نور پلان‘ پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ یہ نگرانی اور جاسوسی کے لیے جدید نظام ہے۔ اس کی مدد سے ملک میں رائج ڈریس کوڈ کو نافذ کیا جائے گا۔رپورٹ میں اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ ضابطے کی خلاف ورزی کرنے والی خواتین کے لیے قید کی سزاؤں میں اضافہ ہوا۔ ایران نے اس رپورٹ پر کوئی ردعمل جاری نہیں کیا۔لیکن دوسری جانب اختتامِ ہفتہ یعنی جمعرات یا جمعے کی شام سڑکوں پر کسی کیفے کے باہر، پارک میں یا شاپنگ مال میں نوجوان جوڑے، لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ بیٹھے ہوئے نظر آتے ہیں۔ یہ سب پہلے ممکن نہیں تھا۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ایران تبدیل ہو رہا ہے لیکن کیا یہ کافی ہے؟سونیا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ سچ ہے کہ شہر اچھے ہیں اور حجاب کی پابندی کم ہے لیکن مظاہرین اس سے زیادہ چاہتے تھے۔ ہم آزادی اظہار، عقیدے کی آزادی، سیاسی قیدیوں کی آزادی اور ایک سیکولر حکومت چاہتے ہیں۔‘بی بی سی نے جن افراد سے بات کی اُن میں سے اکثر اس بات پر متفق ہیں کہ ’سکارف ختم ہو گیا‘ لیکن اُن کا کہنا ہے کہ ’خواتین کے لیے ملازمت کے مواقع کم ہیں اور انھیں اکثر مردوں پر انحصار کرنا پڑتا ہے۔ جب تک قانون تبدیل نہیں ہوتا اور خواتین بغیر خوف کے گھروں سے باہر نہ نکل سکیں اُس وقت تک کچھ تبدیل نہیں ہو گا۔‘ان تمام باتوں کے باوجود، کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ایران میں وقت کو پلٹا نہیں جا سکتا اور 2022 میں شروع والے احتجاج اور عوام میں بے یقینی کو آسانی سے خاموش نہیں کروایا جا سکتا۔ثمانہ سویدا کا کہا ہے کہ ’عوامی مقاماتپر اب حجاب کے بغیر زیادہ خواتین دکھائی دیتی ہیں، اس لیے نہیں کہ قانون بدل گیا بلکہ وہ حجاب کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرتے ہوئے، خطرات سے پوری طرح آگاہ ہیں۔‘انھوں نے کہا کہ معاشرے میں اب بحث کا رخ تبدیل ہو گیا ہے کہ حجاب کی شرط کو ایک لڑائی کے بجائے خواتین کی آزادی کی وسیع تر علامت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔سویدا کے مطابق ’اب بھی ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے راکھ کے نیچے آگ موجود ہے جسے فی الوقت جبری طور پر بجھا دیا گیا لیکن آگ دوبارہ بھڑک اٹھے گی۔‘بلاشبہ ایران میں خواتین کے ایسے جذبات ہیں کہ جنھوں نے مہسا امینی کی قبر پر نصب کتبے پر لکھا کہ ’تمہارا نام علامت بن گیا۔‘خاتون کی ہلاکت پر ایران میں احتجاج: ’ژینا نے ہمارے لیے آزادی کا راستہ کھول دیا‘’انھوں نے مجھے اسرائیلی جاسوس کہا اور دھمکایا کہ اگر ہم چُپ نہ ہوئے تو وہ ہمارا ریپ کر دیں گے‘’گشتِ ارشاد فورس‘: ایران نے اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا، اٹارنی جنرلایران: انقلاب کے بعد اور ابمیں اپنی بیٹی کو دیکھنا چاہتا تھا لیکن ڈاکٹروں نے مجھے اندر جانے نہیں دیا، والد مہسا امینی

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

دوحہ پر حملہ جائز تھا، کیونکہ قطر حماس کو پناہ اور مدد فراہم کرتا ہے: نیتن یاہو

اسرائیل کو تین بہنوں کی بد دعا ہے

طالبان کی نئی حکمت عملی، دوحہ معاہدہ یا صوبے اور وفاق میں سیاسی چپقلش: خیبرپختونخوا میں کالعدم ٹی ٹی پی کی کارروائیوں میں شدت کیسے آئی؟

ایشیا کپ کے حوالے سے حتمی فیصلہ نہیں ہوا، پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھا جائے گا: پی سی بی

سوپ کے پیالے میں پیشاب کرنے والے چینی لڑکوں کو تین لاکھ ڈالر جرمانہ، جو والدین کو ادا کرنا پڑے گا

’سیاسی قتل کا جشن منانا تہذیب کے دائرے میں نہیں آتا‘: چارلی کرک کی موت پر ’نامناسب‘ تبصروں پر امریکہ میں ملازمین کی برطرفیاں

ویکسینیشن کے بعد متلی اور چکر۔۔ والدین پریشان ! محکمہ صحت نے کیا تاکید کردی؟

پیٹرول مہنگا ہوا یا سستا؟ حکومت نے پیٹرولیم مصنوعات کی نئی قیمتوں کا اعلان کردیا

چند بال نظر آنے پر گرفتاری اور اخلاقی پولیس کی حراست میں ایک ہلاکت نے کیا ایران کی بنیادوں کو ہلا دیا؟

اپنے کئے پر شرمندگی نہیں۔۔ 70 سے زائد بچیوں سے جنسی زیادتی کرنے والے ملزم کی ڈھٹائی ! ہتھکڑی پہن کر مزید انکشافات کردیے

اے پی پی میگا کرپشن کیس: 13 ملزمان کی ضمانتیں خارج، 7 گرفتار، متعدد فرار

اسرائیل غزہ میں ’نسل کشی کا مرتکب‘: ’اقوام متحدہ کی رپورٹ اسرائیلی اقدامات پر فردِ جرم ہے‘

’میری آنکھیں ضائع ہو گئیں‘: اسرائیلی پیجر حملوں کے متاثرین کو آج بھی وہ پیغام یاد ہے جس نے درجنوں افراد کو نابینا بنا دیا

ماہواری سے پہلے خواتین میں میٹھا کھانے کی خواہش کیوں بڑھ جاتی ہے؟

عام سا محنتی باپ ’ڈرگ سلطنت‘ کا بادشاہ نکلا: جب واٹس ایپ چیٹ نے کروڑوں پاؤنڈ کی منشیات کے کاروبار کا بھانڈا پھوڑ دیا

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی