بلوچستان میں انسداد دہشت گردی ترمیمی ایکٹ 2026 سے قانونی ماہرین اور سیاستدانوں کو تحفظات کیوں؟


بلوچستان میں انسداد دہشت گردی ترمیمی ایکٹ 2026 منطور ہوگیا ہے، یہ قانون کس طرح قانون اور آئین سے متصادم ہے، اس حوالے سے ماہرین قانون اور سیاستدان تحفظات رکھتے ہیں، جو سمجھتے ہیں کہ اس سے انصاف کی فراہمی مشکل ہوگی۔ اس بل کی منظوری کے دوران اسمبلی میں موجود اپوزیشن رہنما مولانا ہدایت الرحمان بلوچ نے "ہماری ویب" کو بتایا کہ 10 تاریخ کو انسدادِ دہشت گردی 1997 میں ایسی ترمیم پیش کی گئی ہے کہ عدالتی نظام کے ذریعے ہونے والے بہت سی چیزیں پوشیدہ رہیں گی، جج کا چہرہ نظر نہیں آئے گا، وکیل بھی نظر نہیں آئے گا اور گواہی آڈیو ریکارڈنگ کے ذریعے ہی استعمال کی جائے گی۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انصاف کا قتل پہلے سے ہو رہا ہے۔ عدالتیں پہلے ہی ناکام ہوچکی ہیں، یہاں تیس تیس سال گزر جاتے ہیں اور عدالتیں انصاف نہیں دیتیں۔ پاکستان کا عدالتی نظام دنیا میں سب سے زیادہ مراعات لیتا ہے اور کم انصاف فراہم کرتا ہے۔ اس کے بجائے کہ عدالتوں کو بہتر بنایا جائے، اس طرح کے اقدامات انسانی حقوق کی واضح خلاف ورزی ہیں۔ واٹس ایپ کے ذریعے پورا عمل درآمد ہوگا کیوں کہ میں نے جب اس بل کو پڑھا تو مجھے لگایہ نظام واٹس ایپ کے ذریعے چلایا جائے گا، یہ اس لیے بھی خطرناک ہے کہ ہر چیز پوشیدہ ہوسکتی ہے، گواہ کون ہے، جج کون ہے، یہ معلوم نہ رہے گا، جج کی شناخت چھپانے سے گواہی کا اعتبار بھی متاثر ہوگا اور لوگوں کی زندگیوں پر منفی اثر پڑے گا۔ مولانا ہدایت الرحمان نے مزید کہا کہ میرا ایک اور بڑا اعتراض یہ ہے کہ یہ نظام سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال ہوگا۔ گزشتہ انسدادِ دہشت گردی کے نفاذ کے دوران کتنے سیاسی کارکنوں، جس پر ماضی میں بھی مقدمات بنے، جو کوئی جلسہ خطاب کرے تو اسے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے، دھرنا دیا تو دہشت گردی کا مقدمہ بن گیا۔ اسی طرح یہ نیا نظام بھی سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال ہونے کا خدشہ پیدا کرتا ہے۔ میں کسی قوم خصوصاً بلوچ پشتون کے خلاف بات نہیں کر رہا، ہم خود مظلوم رہے ہیں — مگر یہ قانون مجموعی طور پر بلوچستان کے ہر قوم کے خلاف لاگو ہوسکتا ہے۔ جس کی رائے مختلف ہو، اس کے خلاف مقدمہ بن سکتا ہے، حکومت کے خلاف احتجاج، کسی پالیسی کی مخالفت، سب کچھ دہشت گردی کے زمرے میں آ سکتا ہے۔ یوں حکمران طبقہ اس کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرے گا — جسے سزا دینی ہو اسے سزا دے دیگا۔ یہ تاریخ بھی بتاتی ہے کہ ایسی پابندیوں اور قید و بند سے تحریکیں ختم نہیں ہوتیں، بلکہ مضبوط ہوتی ہیں۔ مولانا ہدایت کا مزید کہنا تھا کہ: پرسوں جو قانون سازی ہوئی، مجھے خدشہ ہے کہ یہ سیاسی کارکنوں کے خلاف کام آئے گی۔ مثال کے طور پر سابقہ سیاسی قیدیوں کے مقدمات دیکھیں، یہ ایک سیاسی ہتھکنڈہ بن سکتا ہے۔ اداروں اور قانون کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، نہ کہ امن و انصاف کے لیے، اصل قاتل، جو کبھی سرکاری طاقت ہو یا سرکاری ملزم، اکثر بے اثر رہتے ہیں۔ یہ بل طاقتور طبقات کو فائدہ پہنچا کر عام شہریوں کے لیے خطرہ بنے گا۔ مجھے خدشہ ہے کہ جو شخص مجھے سزا دے رہا ہوگا، شاید وہ جج نہ ہو بلکہ کوئی دوسرا فرد ہو اور مجھے معلوم ہی نہ ہو کہ مجھے کون سنا رہا ہے۔ اس طرح کے ترامیم سے انصاف پہلے ہی ختم ہے، اور عوام کو سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے بھی انصاف ملتا دکھائی نہیں دیتا، انصاف اکثر طاقتوروں تک محدود رہتا ہے۔ سپریم کورٹ رات 12 بجے کھل سکتی ہے، مگر کس کے لیے؟ نامور سیاسی شخصیات کے لیے مراعات دستیاب ہوتیں ہیں جبکہ عام آدمی کے بچے یا غریب شہری کے لیے وہی دروازے بند رہتے ہیں۔ ججوں کو ’جج‘ کہنا بھی بعض اوقات مناسب محسوس نہیں ہوتا، کیونکہ وہی ادارے انسانی حقوق کی پامالی کا باعث بنتے ہیں۔ انصاف نہ ملنے کی وجہ سے لوگ قانون اپنے ہاتھ میں لینے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ایسی ترامیم عدالتوں کی اہمیت، پراسیکیوشن کی افادیت، اور فری اینڈ فیئر ٹرائل کے حق کو ختم کردیں گی — اور بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہوگی۔ ظلم و زیادتی ہر جگہ بڑھیں گی اور انسانی وقار متاثر ہوگا۔ اور عوام میں جو لاوا پک رہا ہے وہ جس دن پھٹ گیا پھر کوئی نہیں بچے گا۔ بلوچستان میں انسداد دہشت گردی ترمیمی ایکٹ 2026 میں نیا کیا ہے؟ یہ قانون انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 میں نئی دفعہ 21AAA شامل کر کے بنایا گیا ہے جسے ’بعض مقدمات کی سماعت سے متعلق خصوصی احکام‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ اس دفعہ کو دیگر تمام نافذ قوانین پر بالادستی حاصل ہوگی۔ قانون کے مطابق جج، سرکاری اور صفائی کے وکلا، گواہوں اور متعلقہ افراد کی اصل شناخت پوشیدہ رکھی جائے گی، ریکارڈ میں صرف عہدے یا سرکاری عنوان درج ہوں گے جبکہ گواہوں کو خصوصی کوڈ یا علامتی شناخت دی جائے گی، عدالتی احکامات بھی پوشیدہ شناخت کے ساتھ دستخط ہوں گے، اس کار یکارڈ سیل کر کے صرف چیف جسٹس اور اتھارٹی کے پاس محفوظ ہوگا۔ مخصوص مقدمات کی کارروائی ویڈیو کانفرنسنگ، آڈیو و وڈیو ریکارڈنگ جیسے جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع کے ساتھ بھی کی جا سکے گی۔ جبکہ شناخت پوشیدہ رکھنے کے لیے آواز بدلنے کی ٹیکنالوجی بھی استعمال میں لائی جاسکے گی۔ سماعت صرف محفوظ احاطے میں ہوگی جہاں صرف متعلقہ افراد کو رسائی ہوگی۔ قانون کے مطابق صوبائی حکومت گریڈ 21 یا مساوی افسر پر مشتمل اتھارٹی قائم کرے گی جو چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کی مشاورت، غیر معمولی حفاظتی انتظامات کے متقاضی مقدمات کے انتخاب اور ان مقدمات کو مخصوص ججوں کو تفویض کرنے اور حکومت بلوچستان کے ساتھ مستقل رابطے کا ذمہ دار ہوگا۔ اتھارٹی کے افسر کا نام، تقرری اور کوائف بھی خفیہ رکھے جائیں گے اور سرکاری گزٹ میں بھی شائع نہیں کیا جائے گا۔ ان معلومات تک صرف چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ کو رسائی ہوگی۔ نئے قانون کے مطابق اگر دہشتگردی کے کسی مقدمے میں ججوں، وکلا، گواہوں یا دیگر متعلقہ افراد کو غیر معمولی تحفظ درکار ہو تو چیف جسٹس بلوچستان تین ججوں پر مشتمل پینل تشکیل دیں گے۔ ان میں سے ایک جج کو اتھارٹی مقدمہ سننے کے لیے نامزد کرے گی۔ اسی طرح پانچ سرکاری وکلا کا پینل بنایا جائے گا جن میں سے ایک کو مقدمے کی پیروی کے لیے منتخب کیا جائے گا۔ قانون میں یہ گنجائش بھی رکھی گئی ہے کہ جہاں ججوں، وکلا یا گواہوں کی شناخت چھپانا ضروری ہو وہاں سماعت وڈیو لنک کے ذریعے روایتی عدالت کی بجائے الگ مقام سے بھی کی جاسکے گی۔ اسی طرح اگر تحفظ یا لاجسٹک رکاوٹوں کی وجہ سے ملزم کی پیشی مشکل ہو تو سماعت جیل یا کسی محفوظ مقام سے جدید ورچوئل نظام کے ذریعے کی جاسکے گی۔ نئے قانون کو اپیلوں اور تمام متعلقہ کارروائیوں پر لاگو کیا گیا ہے تاکہ معلومات خفیہ رکھ کر تمام متعلقہ افراد کی حفاظت یقینی بنائی جاسکے۔ جون 2025 میں صوبائی اسمبلی پہلے ہی ایک اور انسدادِ دہشت گردی قانون منظور کرچکی تھی، جس کے تحت دہشت گردی، بھتہ خوری یا اغوا برائے تاوان کے مقدمات میں مشتبہ افراد اور سہولت کاروں کو 90 دن تک حراست میں رکھا جاسکتا تھا۔ دوسری جانب قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے قوانین سے انصاف کی راہ میں رکاوٹ پیدا ہوگی، ممتاز ماہر قانون عمران بلوچ ایڈووکیٹ جنہوں نے اس ایکٹ کو بلوچستان ہائی کورٹ میں چلینج بھی کر رکھا ہے، انہوں نے اس حوالے سے "ہماری ویب" کو بتایا کہ یہ مسئلہ صرف مقامی نہیں، عالمی مثالیں بھی موجود ہیں جہاں انصاف کے بنیادی اصول پامال ہوئے، مگر وہاں بھی کم از کم وکیل اور ٹرائل کا حق دیا جاتا رہا۔ اگر ہم کسی انسان کو شناخت کے بغیر، وکیل کے بغیر، شفاف ٹرائل کے بغیر زمین میں دفن کردیں تو یہ دنیا ایسا قانون قبول نہیں کرے گی۔ ہم نے پہلے بھی بلوچستان ہائی کورٹ میں 1997 کے ایکٹ کو چیلنج کیا تھا جس میں لوگوں کو چھ سال تک حراست میں رکھنے کی گنجائش تھی اور بعد ازاں مزید دو سال تک توسیع ممکن تھی — جسے ہم نے عدالت میں چیلنج کیا۔ عمران ایڈووکیٹ نے بتایا: اب جو نئی امینڈمنٹ آئی ہے وہ اسی سلسلے کا تسلسل معلوم ہوتی ہے، مگر اس میں یہ اضافی خدشہ ہے کہ جج، وکیل، گواہ سب چھپ جائیں گے۔ یہ بنیادی اصولِ انصاف، آرٹیکل 10A اور دیگر آئینی تقاضوں کی کھلی خلاف ورزی ہے۔ ضابطۂِ فوجداری کی شق 61 اور سی آر پی سی 24 گھنٹے کے اندر پیش کرنے کا مطالبہ کرتی ہے اور وکیل تک رسائی کا حق دیتی ہے: یہ ترامیم ان حقوق کو متاثر کرتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایسی سخت ضرورت کیوں پیش آئی؟ بلوچستان کو کیوں ’بلیک ہول‘ بنایا جا رہا ہے؟ میڈیا اور سوشل میڈیا پر پابندیاں، لوگوں کے بنیادی حقوق کی مسلسل پامالی — ان سب کا مقصد شواہد اور مظالم کو چھپانا معلوم ہوتا ہے۔ ہم نے یہ معاملات بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کے سامنے رکھے ہیں اور کہا ہے کہ آئین اور بنیادی حقوق کے ماورا قانون سازی نہیں کی جاسکتی۔ یہ غیر انسانی عمل ہے جو لوگوں کے بنیادی حقوق کو ختم کرتا ہے۔ عمران کے بقول: گمشدگان کا مسئلہ پہلے سے موجود ہے — لوگ لاپتہ کیے جا رہے ہیں — اور اب یہ خیال رائج کیا جا رہا ہے کہ لوگوں کو اٹھایا جاسکتا ہے اور عدالت کے بغیر رکھا جاسکتا ہے۔ پراسیکیوشن اور انویسٹی گیشن کے کردار کو ختم کر کے آپ کورٹس کی اہمیت کم کر رہے ہیں۔ ہمارے بنیادی حقوق، فری اینڈ فیئر ٹرائل، وکیل تک رسائی — یہ سب خطرے میں ہیں۔ ہم نے بلوچستان ہائی کورٹ کے سامنے جو چیلنج کیا تھا، اس کا مقصد یہی تھا کہ آئینِ پاکستان اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے معیارات کے مطابق عمل ہو۔ پارلیمنٹ عوامی نمائندوں کا فورم ہے، مگر جو قانون سازی انسانی حقوق کے خلاف ہو وہ آئین اور بین الاقوامی فرائض کے خلاف شمار ہوگی۔ اس لیے ایسی ترامیم ہم قابل قبول نہیں سمجھتے اور انہیں انسانی حقوق کے خلاف قرار دیتے ہیں۔

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

افغانستان میں بگرام ایئر بیس واپس چاہتے ہیں، وہاں سے ایک گھنٹے کی دُوری پر چین جوہری ہتھیار بناتا ہے: صدر ٹرمپ

غزہ کو ’ریئل اسٹیٹ‘ میں تبدیل کرنے کا ’بزنس پلان‘ اب بھی صدر ٹرمپ کی میز پر ہے: اسرائیلی وزیر خزانہ

پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان دفاعی معاہدہ قطر پر اسرائیلی حملے کے تناظر میں کیا معنی رکھتا ہے؟

’سپریم کورٹ سے صرف 31 کلومیٹر دُور ہوں لیکن انصاف کے دروازے میرے لیے بند ہیں‘: عمران خان کا چیف جسٹس پاکستان کو خط

کیا رات کو سونے سے پہلے انٹرنیٹ بند کر دینا چاہیے؟

جیولین تھرو فائنل: ارشد ندیم تیسری تھرو کے بعد ہی میڈل کی دوڑ سے باہر، کیشورن والکوٹ سونے کا تمغہ جیت گئے

جیولین تھرو فائنل: ارشد ندیم کی مایوس کن کارکردگی، والکوٹ سونے کا تمغہ جیت گئے

ورلڈ ایتھلیٹکس چیمپئین شپ میں جیولین تھرو کا فائنل: ارشد ندیم اور نیرج چوپڑا میڈل کی دوڑ سے باہر

اسلام آباد: گیس کنکشنز پر مستقل پابندی، 30 لاکھ درخواستیں منسوخ

کیسے ایک انجینیئر نے درجنوں لوگوں کے اے ٹی ایم کارڈ تبدیل کر کے ان کی جمع پونجی لوٹ لی؟

’آئی پیڈ چھوڑو اور دھیان دو‘: جب ایک مسافر طیارہ امریکی صدر کے ’ایئر فورس ون‘ کے نزدیک آ گیا

آریان خان کی پہلی سیریز اور فلمی دنیا میں اقربا پروری پر بحث: ’پاپا کی پرچھائیں سے نکلو، تو معلوم ہو گا کہ باہر کتنی دھوپ ہے‘

”کراچی چلڈرن غزہ مارچ“، شاہراہ قائدین پر تاحد نگاہ طلبہ وطالبات

آریان خان کی پہلی سیریز اور فلمی دنیا میں اقربا پروری پر بحث: ’پاپا کی پرچھائی سے نکلو، تو معلوم ہو گا کہ باہر کتنی دھوپ ہے‘

محکمہ بلدیات کی حکومت خیبر پختونخوا سے 15 کروڑ اضافی گرانٹ کی درخواست

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی