تحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟


Getty Imagesرواں ماہ پاکستان کی مذہبی و سیاسی جماعت تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ایک بار پھر سڑکوں پر نظر آئی۔ ٹی ایل پی نے غزہ امن معاہدہ طے پا جانے کے بعد اسلام آباد میں امریکی سفارتخانے کے سامنے احتجاج کرنے کے لیے لاہور سے اسلام آباد کی جانب 'غزہ مارچ' کا آغاز کیا تھا۔لاہور میں پرتشدد جھڑپوں کے بعد مریدکے کے مقام پر پولیس اور مظاہرین کے مابین دوبارہ شدید جھڑپیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ہلاکتیں بھی ہوئیں۔مریدکے واقعے کے بعد ٹی ایل پی کی قیادت اور کارکنان کے خلاف بڑے پیمانے پر کریک ڈاؤن کا آغاز کیا گیا اور پنجاب حکومت نے ٹی ایل پی کو کالعدم قرار دینے کا فیصلہ کیا۔جمعرات کے روز پاکستان کی وفاقی کابینہ نے تحریک لبیک پاکستان کو انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت کالعدم جماعت قرار دینے کی منظوری دے دی۔لیکن یہ پہلا موقع نہیں کہ تحریکِ لبیک پاکستان کو پابندی کا سامنا ہے۔ سنہ 2021 میں سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت نے اس جماعت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی عائد کی تھی تاہم صرف سات ماہ کے عرصے کے بعد ٹی ایل پی کے احتجاج کے نتیجے میں اس وقت کی حکومت نے ایک معاہدے کے تحت یہ پابندی ہٹا دی تھی۔یہ جماعت پرتشدد مظاہروں کے بعد حکومت سمیت اسٹیبلشمنٹ سے بھی معاہدے کرنے اور اپنے اوپر عائد ہونے والی ماضی کی پابندی کو ہٹوانے کرنے میں کامیاب رہی، اور ہر بار ریاست کو ہی پیچھے ہٹنا پڑا۔اپنی مختصر سیاسی اور احتجاجی تاریخ کے دوران مختلف مطالبات منوانے کے لیے تحریک لبیک سات مرتبہ اسی نوعیت کے احتجاج منظم کر چکی ہے۔Getty Imagesہر مرتبہ ان احتجاجوں نے پُرتشدد شکل اختیار کی اور ان کا اختتام ہر بار حکومتِ وقت سے کسی نہ کسی معاہدے پر ہوا۔ یہی نہیں، تحریک لبیک پر احمدی برادری سمیت مختلف اقلیتوں کے خلاف اقدامات کی وجہ سے مختلف مقدمات اور الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔دوسری جانب تحریک لبیک کو مختلف اوقات میں دیگر مذہبی اور سیاسی جماعتوں کی حمایت بھی حاصل رہی۔ چند حلقے ٹی ایل پی کے عروج میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار کی جانب بھی اشارہ کرتے ہیں۔اس تناظر میں بی بی سی نے اس تحریر میں یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ٹی ایل پی کیسے بنی اور یہاں تک کیسے پہنچی؟ کیا پاکستانی ریاست نے ٹی ایل پی کو ختم کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے اور کیا ایسا ممکن بھی ہو پائے گا؟ٹی ایل پی کا ارتقا اور سٹریٹ پاورتحریک لبیک پاکستان کی بنیاد جماعت کے موجودہ سربراہ کے والد خادم حسین رضوی نے رکھی تھی۔آگے چل کر ٹی ایل پی کے قیام کے پیچھے بڑی وجہ جنوری 2011 میں پیش آنے والا ایک واقعہ بنا۔ اس روز پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے اس وقت کے گورنر سلمان تاثیر کو ان ہی گارڈ نے اسلام آباد میں گولی مار کر قتل کر دیا تھا۔ممتاز قادری کے اعتراف کے بعد انھیں پھانسی کی سزا سُنائی گئی اور تحریک لبیک پاکستان اور دیگر دھڑوں کی مخالفت کے باوجود انھیں فروری 2016 کو اڈیالہ جیل میں پھانسی دے دی گئی۔یہی پھانسی ٹی ایل پی کے پہلے بڑے احتجاج کی وجہ بنی۔ ممتاز قادری کی تدفین کا عمل مکمل ہوتے ہی ملک بھر کے مختلف شہروں میں اس پھانسی کے خلاف احتجاج شروع ہوا اور کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور میں اجتماعات و مظاہرے ہوئے جن میں خادم رضوی کی تحریک پیش پیش رہی۔خادم رضوی نے اسلام آباد کے ڈی چوک میں ایک دھرنا دیا جو پُرتشدد ہو گیا۔پولیس رپورٹس کے مطابق اس احتجاج کی وجہ سے اسلام آباد ایکسپریس وے بند رہی اور فیض آباد کے پل کو بند کر کے گاڑیوں پر پتھراؤ کیا گیا، اس تشدد آمیز احتجاج کے دوران توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات ملک کے دیگرحصّوں میں بھی رونما ہوئے۔27 مارچ 2016 کو ممتاز قادری کے چہلم کے موقع پر بھی راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ہی لوگ جمع ہوئے اور ایک بار پھر پُرتشدّد احتجاجی واقعات رونما ہوئے۔اس تمام عرصے میں بھی خادم رضوی کی تحریک لبیک اُن کے سخت گیر موقف اور کٹّر رجحانات اور مستقل جاری رہنے والی شعلہ بیانی کی بنیاد پر مسلسل عوامی پذیرائی حاصل کرتی رہی۔تحریک لبیک کو کالعدم قرار دینے کی سفارش: پاکستان میں سیاسی جماعت پر پابندی کیسے لگائی جا سکتی ہے؟سعد رضوی سمیت ٹی ایل پی قیادت کے خلاف انسداد دہشتگردی کی دفعات کے تحت مقدمہ درج: مریدکے میں پولیس آپریشن کے دوران کیا ہوا؟تحریک لبیک پاکستان: کیا ملک میں بزور بازو مطالبات منوانے کی روش کا راستہ ہموار کیا گیا؟سیاسی مخالفتیا مقامی آبادی کا بے گھر ہونے کا خوف: پاکستانی فوج کو شدت پسندوں کے خلاف لڑائی میں کِن چیلنجز کا سامنا ہے؟اس کے بعد اکتوبر 2017 کے اوائل یعنی مسلم لیگ (ن) کے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے دور میں الیکشن ایکٹ 2017 میں ترامیم کے معاملے پر ایک پارلیمانی تنازع پیدا ہوگیا۔ اُن میں سے ایک شق انتخابی امیدواروں کے ختمِ نبوّت پر یقین رکھنے کے حلف نامے سے متعلق تھی۔متنازع ترامیم کے تحت جب بعض الفاظ کے ردو بدل کا معاملہ سامنے آیا تو حکومت نے اسے غلطی سے تعبیر کیا جبکہ حزب اختلاف نے سیاسی موقع غنیمت جان کر معاملے کی عدالتی تحقیقات کا مطالبہ کر دیا۔اگرچہ حزب اختلاف کی نشاندہی پر حکومت نے ترامیم کے مسوّدے و متن کو پرانے الفاظ میں ہی بحال کر دیا مگر خادم رضوی اور اُن کی جماعت نے اسے ایک ’بڑی سازش کا حصّہ‘ قرار دیتے ہوئے الزام عائد کیا کہ حکومت نے اس شق کا متن جان بوجھ کر بدلنے کی کوشش کی اور اس کے ذمہ دار (اس وقت کے) وزیر قانون زاہد حامد ہیں۔خادم رضوی اور اُن کی تحریک نے وزیر قانون کے استعفے کا مطالبہ کر دیا اور دھمکی دی کہ اگر مطالبہ نہ مانا گیا تو وہ اسلام آباد میں دھرنا دے دیں گے۔مطالبہ پورا نہ ہونے پر تحریک لّبیک نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنایا اور آٹھ نومبر 2017 کو خادم رضوی کے حامی مظاہرین نے اسلام آباد کو راولپنڈی سے ملانے والی شاہراہ بند کر دی اور ٹریفک معطل ہونے سے ایک نومولود بچّے کی جان چلی گئی۔16 نومبر کو وزیر قانون نے قومی اسمبلی میں بل پیش کیا جس کے تحت الیکشن ایکٹ میں متنازع ہو جانے والی ترامیم کو ختم کر کے پرانی شکل میں بحال کر دیا گیا اور خود وزیر قانون کو بھی اس موقع پر ختمِ نبوّت کے اپنے عقیدے کا اظہار کرنا پڑا۔اس تمام معاملات بالآخر 25 نومبر 2017 کو حکومت نے پولیس کے ذریعے دھرنا ختم کروانے کی کوشش کی اور اس دوران ہونے والی جھڑپوں میں دونوں جانب سے جانی نقصان کی اطلاعات آنے لگیں۔کراچی اور لاہور میں کئی افراد کی ہلاکت کی اطلاعات آئیں اور ملک بھر خصوصاً پنجاب بھر میں مسلم لیگ نون کے رہنماؤں اور کارکنان کے گھروں پر بھی ہجوم حملے کرتے رہے۔خادم رضوی کی یہ سیاسی فتح اور ان کی سیاسی طاقت تب درج ہوئی جب کشیدگی اور ہلاکتوں سمیت تمام جانی و مالی نقصان کے بعد بالآخر 27 نومبر کو فوجی قیادت کی مداخلت سے ہی فریقین کو پھر مذاکرات کی میز پر بٹھایا گیا اور ایک چھ نکاتی معاہدہ عمل میں آیا۔اس معاہدے کے تحت وزیر قانون زاہد حامد نے استعفی دیا، حکومت نے تحریک لّبیک کے گرفتار کارکنوں کو بڑی تعداد کو رہا کر دیا، متنازع بن جانے والے قانون کے مسودے کا متن بحال کر دیا گیا اور تب بھی یہی لگا کہ تحریک لّبیک کے مطالبات کے آگے حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے۔تحریک لبیک، سنی تحریک اور دیگر کے ساتھ ہونے والے حکومت کے اس معاہدے میں سرکاری اور تحریری طور پر تسلیم کیا گیا کہ فوج نے اس معاہدے میں مرکزی کردار ادا کیا اور معاہدے میں جس پر جنرل فیض حمید کے بھی دستخط تھے یہ تحریر تھا کہ یہ جنرل باجوہ اور اُن کے نمائندے کی خصوصی کوشش سے طے پایا۔اس دھرنے کے اختتام پر رینجرز کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی مظاہرین میں رقم تقسیم کرنے کی ویڈیو بھی منظرِ عام پر آئی، جس کا ذکر آگے چل کر سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے میں بھی آیا۔اس فیصلے میں فوج اور اس کے خفیہ اداروں کو واضح نام لے کر تنبیہہ کی گئی کہ وہ اپنے دائرہ کار اور آئینی کردار تک محدود رہیں اور اس سے تجاوز نہ کریں۔دراصل تحریک لبیک کو صحیح معنوں میں سیاسی شکل اسی احتجاج کے بعد مل گئی تھی۔19 نومبر 2020 کی شام تحریک لّبیک کے بانی امیر مولانا خادم حسین رضوی ایک ہنگامہ خیز اور شہرت و تنازعات سے بھرپور زندگی گزار کر محض چند روزہ معمولی بیماری کے بعد 54 برس کی عمر میں لاہور میں وفات پا گئے۔انھیں لاہور کی ’مسجدِ رحمت اللعالمین‘ کے ’مدرسۂ ابوذر غفّاری‘ کے احاطے میں دفن کیا گیا اور 21 نومبر 2020 کو ان کے صاحبزادے سعد حسین رضوی کو ان کا جانشین اور تحریک کا دوسرا امیر مقرر کر دیا گیا۔اپنے والد اور پیشرو خادم رضوی کی طرح سعد حسین رضوی نے بھی احتجاج کا راستہ ہی اپنایا۔تحریکِ لبیک کی احمدیوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں، مقدمے اور پولیس کی جانب سے چھوٹتحریک لبیک پاکستان اپنے قیام کے بعد سے ہی نہ صرف توہینِ مذہب کے قانون کے حق میں پیش پیش رہی بلکہ اس پر ملک میں احمد کمیونٹی کے خلاف پرتشدد اقدامات کرنے کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔پاکستان اور اس کے زیرِ انتظام کشمیر میں اس جماعت کے کارکنان نے احمدی برادری کے اراکین کے خلاف درجنوں مقدمات درج کروائے۔کچھ واقعات میں احمدی کمیونٹی بھی ٹی ایل پی کے مقامی عہدیداران اور ٹکٹ ہولڈروں کے خلاف مقدمات درج کروانے میں کامیاب ہوگئی ہے، تاہم احمدی کمیونٹی مقدمات میں نامزد ہونے والے ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور کارکنوں کو عدالتوں سے سزائیں نہ ملنے کا شکوہ کرتی ہے۔دو ماہ قبل ہی پنجاب کے شہر فیصل آباد کے کرتارپور نامی گاؤں میں احمدیوں کی دو عبادت گاہوں پر حملہ کیا گیا تھا۔ اس حملے کے بعد ٹی ایل پی کارکنان کے خلاف دو مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں 47 افراد کو نامزد کیا گیا تھا اور 300 افراد کو نامعلوم ظاہر کیا گیا تھا۔ان مقدمات میں 27 افراد کو گرفتار کیا گیا تھا جن میں سے چار ضمانت کے بعد رہا ہو گئے تھے۔اس کے اگلے ہی ماہ ایک احمدی خاتون کی تدفین پر شروع ہونے والا تنازع اس وقت شدت اختیار کر گیا جب سیالکوٹ میں احمدی شہریوں کے گھروں ڈیرے پر حملہ کیا گیا۔ ان پُرتشدد کارروائیوں میں چھ افراد زخمی ہوئے اور اس حملے کا مقدمہ 31 نامزد اور 300 نامعلوم ملزمان کے خلاف درج کیا گیا۔Getty Imagesسیالکوٹ پولیس ترجمان خرم شہزاد کے مطابق مقدمے میں نامزد 30 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا تھا جن میں سے 13 ملزمان شناخت پریڈ کے مرحلے میں مقدمے سے ڈسچارج ہوگئے اور یوں اب 17 ملزمان پولیس کی حراست میں ہیں اور جسمانی ریمانڈ پر ہیں۔اس کے علاوہ ملک بھر میں عید الاضحیٰ پر جانور قربان کرنے پر بھی اس جماعت کے اراکین احمدی شہریوں کے خلاف مقدمات درج کرواتی رہی ہے۔تحریکِ لبیک پاکستان پر صرف احمدیوں کو ہراساں کرنے کا الزام ہی نہیں لگتا بلکہ اگست 2023 میں جڑانوالہ میں مسیحی برادری کے گرجا گھروں اور عبادت گاہوں پر حملوں کا الزام بھی اسی جماعت پر لگا تھا۔پنجاب کے شہر جڑانوالہ دو سال قبل 16 اگست 2023 میں مسیحی آبادی پر حملوں اور جلاؤ گھیراؤ کے واقعات میں مشتعل ہجوم نے 19 گرجا گھروں اور مسیحی عبادت گاہوں کے علاوہ 86 مکانات کو آگ لگائی اور ان میں توڑ پھوڑ کی تھی، جس پر 128 ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور پانچ مقدمات درج کر کے ملزمان کے خلاف دہشت گردی، جلاؤ گھراؤ اور مذہبی عبادت گاہوں کی توہین کی دفعات لگائی گئیں۔تاہم سانحہ جڑانوالہ کے دو برس گزر جانے کے باوجود متاثرین اب بھی انصاف کے منتظر ہیں۔فوجداری قوانین کے ماہر بلال شفیق جنجوعہ ایڈووکیٹ کہتے ہیں کہ مذہبی کارکنوں کے خلاف مقدمات کے اندراج کے باوجود ان کو سزائیں بہت کم ہوتی ہیں اس کی وجہ عدالتیں نہیں بلکہ پولیس کا پروسکیوشن ڈیپارٹمنٹ اور حکومتوں کا کیس سرنڈر کرنا ہے۔’پولیس مقدمات کا نامکمل چالان پیش کرتی ہے، ملزمان کو بروقت گرفتار نہیں کیا جاتا اور اگر گرفتار کرتے ہیں تو ٹھوس شواہد پیش نہیں کیے جاتے، شہادتیں قلمبند نہیں کروائی جاتیں۔ ایسے میں عدالت کس بنیاد پر فیصلہ کرے اور ملزمان کو کیسے سزا دے سکتی ہے۔‘ماضی اور موجودہ پابندی میں فرقبی بی سی کے نامہ نگار روحان احمد ٹی ایل پی کو کافی عرصے سے کور کرتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سنہ 2021 کی پابندی کے وقت مرکز اور صوبہ پنجاب دونوں میں عمران خان کی جماعت پی ٹی آئی کی حکومت تھی لیکن جو حکومتی ادارے تھے وہ اس پابندی کے حوالے سے ایک پیج پر نہیں تھے۔روحان احمد کہتے ہیں کہ جب کسی جماعت پر پابندی لگ جاتی ہے تو وہ جلسے جلوس نہیں کر سکتی اور نہ ہی اپنی جماعت کے لیے فنڈز جمع کیے جا سکتے ہیں لیکن اگر ٹی ایل پی ایک بار پھر سڑکوں پر آنے کے قابل ہو جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے پابندی نے اپنا کام نہیں کیا۔Getty Imagesلیکن ان کا ماننا ہے کہ ’ٹی ایل پی کی سٹریٹ پاور اب ماضی کے مقابلے میں اتنی نہیں رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٹی ایل پی کی طاقت اس کے نعروں اور منشور سے جڑی ہے۔ ان کی سیاست ہمیشہ اس چیز کے اردگرد گھومتی رہی ہے کہ وہ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ توہین مذہب یا توہین رسالت کے خلاف کھڑی دیوار ہیں۔‘روحان احمد کہتے ہیں کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہو تو ممکن ہے کہ یہ جماعت لوگوں کو جمع کرنے میں کامیاب ہو جائے لیکن اگر ان کے پاس کوئی ایسا موقع نہیں آتا تو یہ ممکن نہیں کہ وہ لوگوں کو جمع کر کے اپنی سٹریٹ پاور کا مظاہرہ کر سکیں گے۔تو کیا ٹی ایل پی کے حوالے سے ریاست کی پالیسی تبدیل ہو گئی؟متعدد بار احتجاج کرنے والی اس جماعت کے خلاف حالیہ کریک ڈاؤن اور پابندی کیا ریاست کی بدلتی پالیسی کی جانب اشارہ ہے؟صحافی اور تجزیہ کار احمد اعجاز کہتے ہیں کہ ریاست اپنی پالیسی میں تبدیلی لا رہی ہے اور اس کریک ڈاؤن میں ہمیں واضح اشارے ملے ہیں۔Getty Imagesان کا کہنا ہے کہ ’گذشتہ مظاہروں میں پولیس پیچھے ہٹ جاتی تھی یا یکسو نظر نہیں آتی تھی اور اس کی بہت سی وجوہات تھیں۔ جیسا کہ اگر ریاست کسی بھی موقف میں متزلزل ہوتی ہے تو نیچے حکومت متزلزل نظر آتی تھی۔ پھر اس پر عمل کرنے والے ادارے جیسے پولیس بھی متزلزل نظر آتی تھی لیکن اس بار اوپر سے لے کر نیچے تک پالیسی غیر متزلزل اور واضح نظر آئی۔ حکومتی عہدیدران نے میڈیا پر آ کر جو بیانات دیے، وہ واضح تھے۔‘احمد اعجاز مزید کہتے ہیں کہ ’پاکستان میں 2018 اور خاص کر کے 2022 کے بعد جو ہائبرڈ نظام تشکیل پایا، اس میں ریاست کو اب کسی بھی پریشر گروپ کی ضرورت نہیں رہی جیسے ماضی میں رہتی تھی۔‘پارلیمانی اثر و رسوخ اور کامیابیستمبر 2017 میں جب (سابق) وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اور اس بنیاد پر نواز شریف کے حلقۂ انتخاب این اے 120 (شیخو پورہ) کے ضمنی انتخاب منعقد ہوئے تب تک تحریک لّبیک سرکاری طور پر باقاعدہ سیاسی جماعت (رجسٹر) نہیں تھی مگر پھر بھی تحریک لّبیک نے اس ضمنی انتخاب میں حصّہ لیا۔تحریک کے حمایت یافتہ آزاد امّیدوار شیخ اظہر حسین رضوی نے 7130 ووٹ لے کر سیاسی حلقوں اور ریاستی حُکّام کو حیرت زدہ کر دیا۔الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 26 اکتوبر 2017 کو جب پشاور سے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے چار پر ضمنی انتخاب ہوا تو تحریک لّبیک کے حمایت یافتہ امیدوار نے 9935 ووٹ حاصل کیے۔پاکستان میں شدّت پسندی اور مذہب سے جڑی عسکریت پسندی اور انتہا پسند فرقہ وارانہ عزائم کے بارے میں تحقیق کرنے والے ایک ادارے کے سربراہ اور معروف محقّق عامر رانا کہتے ہیں کہ 'ایسا نہیں ہے کہ تحریک صرف ایک صوبے (پنجاب) تک محدود تھی۔۔۔ بلوچستان کے کوئٹہ، خضدار اور مکران جیسے علاقوں میں بھی ان کا سیاسی وجود قائم ہو چکا تھا۔'قریباً 10 ماہ بعد پاکستان میں 2018 کے عام انتخابات 25 جولائی کو منعقد ہوئے اور تحریک لّبیک نے ان میں بھی بطور سیاسی جماعت شرکت کی اور مجموعی طور پر 22 لاکھ کے لگ بھگ ووٹ حاصل کر کے ملک کی پانچویں اور پنجاب کی تیسری بڑی سیاسی قوّت بن کر ابھری۔Getty Imagesتحریک لّبیک اور خادم رضوی جو پنجاب میں بہت مقبول و فعال اور متحرک تھے حیرت انگیز طور پر پنجاب سے قومی یا صوبائی اسمبلی کی تو کوئی نشست نہ جیت سکے مگر ان کی جماعت نے عام انتخابات میں سندھ کی صوبائی اسمبلی کی دو براہ راست اور ایک مخصوص نشست سمیت تین نشستیں حاصل کر لیں۔2024 کے عام انتخابات میں ٹی ایل پی کو ملک بھر سے تقریباً 29 لاکھ ووٹ ملے جو 2018 کے الیکشن سے تقریباً ساڑھے سات لاکھ زیادہ تھے۔گیلپ سروے کے مطابق 2024 کے الیکشن میں پی ٹی آئی کو ایک کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے اور مسلم لیگ نون کو تقریباً ایک کروڑ 40 لاکھ ووٹ ملے۔ٹی ایل پی کے ان 29 لاکھ ووٹوں نے ان قوتوں کی کیسے مدد کی، جو ان انتخابات پر اثر انداز ہونا چاہتے تھے؟اس حوالے سے بی بی سی کے روحان احمد کہتے ہیں کہ 'پی ٹی آئی حکومت کو کہیں نہ کہیں یہ خدشہ تھا کہ ٹی ایل پی پر پابندی انھیں سیاسی نقصان پہنچا سکتی ہے کیونکہ 2018 کے الیکشن میں نون لیگ زیر عتاب تھی اور ان کے رہنما بتایا کرتے تھے کہ ٹی ایل پی کو ان کا ووٹ بینک تقسیم کرنے کے لیے بنایا گیا۔'ماہرین کے مطابق 2021 میں ٹی ایل پی پر پابندی اور سات ماہ بعد یہ پابندی ہٹ جانے کے بعد اسے ملک کے سیاسی منظر نامے میں کسی حد تک سٹیک ہولڈ بننے کا موقع ملا۔ٹی ایل پی صرف اپنے حامیوں کے لیے ہی نہیں بلکہ مین سٹیریم سیاسی جماعتوں کے لیے بھی اہم ہو گئی۔ خاص کر کے پنجاب میں ٹی ایل پی اپنے ووٹوں کی وجہ سے مین سٹریم جماعتوں کی کامیابی یا ناکامی کا سبب بنے لگی۔2024 کے انتخابات سے قبل پی ٹی آئی کی جانب سے ٹی ایل پی سے الائنس یا اتحاد کی بات ہوئی۔ مختلف انتخابات میں پی ٹی آئی اور مسلم لیگ نون کی مقامی سطح پر ٹی ایل پی کے ساتھ بات چیت ہوتی رہی ہے۔اس سب سے پاکستانی سیاست کے بارے میں جو بات واضح ہوتی ہے وہ یہ کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں معاشرے کو شدت پسندی سے پاک کرنے کی باتیں تو کرتی ہیں لیکن انتخابات جیتنے کے لیے اکثر ایسے گروہوں کا سہارا بھی لیتی ہیں۔کیا حالیہ پابندی سے ٹی ایل پی پر کوئی اثر پڑے گا؟تو کیا حالیہ پابندی سے ٹی ایل پی پر کوئی اثر پڑے گا؟ اور کیا اس وقت اس جماعت کی سیاسی مقبولیت یا سٹریٹ پاور انتی ہے کہ وہ اس پابندی سے نمٹ سکے؟احمد اعجاز کہتے ہیں کہ ٹی ایل پی کی تشکیل ایک دہائی کے اندر ہوئی۔ ’اس سے پہلے ان کے مرکزی لیڈر زیادہ نمایاں نہیں تھے۔ اس جماعت کی مقبولیت صحیح معنوں میں سماجی ارتقا کے نتیجے میں نہیں تھی۔ جو چیزیں ضرورت کے تحت پیدا ہوتی ہیں، ان کو معاشرے میں پنپنے کا نہ تو وقت ملتا ہے، نہ وہ اس کی ضرورت محسوس کرتی ہیں۔‘Getty Imagesوہ کہتے ہیں کہ ’ہماری ریاست نے مخلتف جماعتوں کو اپنی پراکسی کے طور پر استعمال کیا لیکن جب اس پراکسی کی ضرورت نہ رہی تو ایسی جماعت کا اختتام ہم نے بہت بے دردی کے ساتھ بہت جلدی ہوتے دیکھا۔‘احمد اعجاز مزید کہتے ہیں کہ ’یہ سمجھ لینا کہ کوئی سیاسی جماعت اپنی جڑیں بنا چکی ہے، اس نے 30 لاکھ ووٹ لے لیے، تو وہ کوئی دس بیس یا 25 ہزار لوگوں کو باہر نکال لے گی، تو یہ سب اس لمحے پر منحصر ہوتا ہے۔ ’اور اگر ریاست اس لمحے سرپرستی نہ کرے تو ایسا ممکن نہیں۔‘’طیفی بٹ‘ کی فرار کی مبینہ کوشش کے دوران ہلاکت: امیر بالاج قتل کیس میں نامزد مرکزی ملزم خواجہ تعریف گلشن کون تھے؟وزیرِاعلیٰ کی تبدیلی یا دہشتگردی کے خلاف ’عدم تعاون‘: فوج اور خیبر پختونخوا حکومت کے درمیان تناؤ کی وجہ کیا ہے؟’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟سرکاری کالج پر مریم نواز کی تصویر والا جھنڈا لگانے پر پرنسپل کو وارننگ: ’کِس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں؟‘آئی ایس آئی کے سابق بریگیڈیئر کا عادل راجہ کے خلاف ہتک عزت کا دعویٰ درست قرار: برطانوی عدالت کے فیصلے میں کیا ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

افغان سرحد سے دراندازی، چار خودکش حملہ آوروں سمیت 25 ہلاک: آئی ایس پی آر

پاکستان کے چیئرمین جوائنٹ چیفس کی ڈھاکہ میں بنگلہ دیش کے چیف ایڈوائزر سے ملاقات

بالاکوٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، دریائے کنہار کا رخ موڑنے کا منصوبہ مکمل

’عوام کا دیرینہ مطالبہ پورا ہوگیا‘، گھریلو صارفین کے لیے گیس کنکشن کھولنے کا اعلان

وزیراعظم شہباز شریف ریاض میں فیوچر انویسٹمنٹ انیشیٹو میں شرکت کریں گے، دفتر خارجہ

کچے کے بیزار ڈاکوؤں کو پکّے میں بسانے کی پالیسی

پاکستان افغانستان کشیدگی، ’علاقائی خوشحالی کا دم گھونٹ رہی ہے‘

پاکستان افغانستان کشیدگی، ’علاقائی خوشحالی کا دم گھوٹ رہی ہے‘

سر کریک سے جیوانی تک اپنی خودمختاری اور سمندری حدود کا دفاع کرنا جانتے ہیں: نیول چیف

پاکستان اور افغانستان میں مذاکرات، ’ناکام ہوئے تو کُھلی جنگ ہو گی‘

شمالی وزیرستان میں آپریشن، خودکش حملے کے لیے تیار کی جانے والی گاڑی تباہ

پاکستان کا سیمی کنڈکٹر چِپس بنائے بغیر اس شعبے میں ہزاروں نوکریاں پیدا کرنے کا منصوبہ اور سعودی شراکت کی امید

تحریک لبیک کا عروج، مریدکے آپریشن اور حکومتی کریک ڈاؤن: ٹی ایل پی کا مستقبل کیا ہو گا؟

انڈین افواج کی مشقوں سے قبل پاکستانی بحریہ کے سربراہ کا بیان: ’ہم اپنی خودمختاری اور سمندری حدود کا دفاع کرنا جانتے ہیں‘

وزیراعظم کا پاکستان اور جنوبی افریقہ کی کرکٹ ٹیموں کے اعزاز میں عشائیہ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی