
Getty Imagesسکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ ’پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے‘استنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان 25 اکتوبر سے شروع ہونے والے مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری ہیں جبکہ دو روز کے دوران دونوں فریقین کی جانب سے بعض تجاویز پیش کی گئی ہیں۔اگرچہ دونوں فریقین کی طرف سے تاحال سرکاری سطح پر یہ نہیں بتایا گیا کہ ترکی میں موجود وفود نے کیا تجاویز پیش کی ہیں تاہم اسلام آباد اور کابل میں حکومتی ذرائع نے اس سلسلے میں کچھ دعوے کیے ہیں۔پاکستان کے سرکاری خبر رساں ادارے اے پی پی نے سکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی وفد نے مذاکرات کے دوران افغان طالبان کو اپنا ’حتمی مؤقف‘ پیش کیا ہے۔اے پی پی کے مطابق سکیورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ 'پاکستان نے واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔ پاکستانی وفد نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس (سرپرستی) کے خاتمے کے لیے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔'پاکستانی سکیورٹی ذرائع نے سرکاری خبر رساں ادارے کو مزید بتایا کہ طالبان کے دلائل 'غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں۔ نظر آ رہا ہے کہ طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔'’سکیورٹی ذرائع نے کہا ہے کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے۔ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔‘ادھر بی بی سی پشتو کے مطابق افغان طالبان کی تجاویز میں پاکستان سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ ’افغانستان کی زمینی اور فضائی حدود کی خلاف ورزی نہ کی جائے‘ اور کوئی بھی ’گروہ یا دشمن قوت افغانستان کے خلاف پاکستان کی سرزمین استعمال نہ کرے۔‘افغان طالبان کے ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کے وفد نے جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے لیے میکینزم یعنی طریقہ کار وضع کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ جمعے کو ایک بریفنگ کے دوران پاکستان کے دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر اندرابی کا کہنا تھا کہ اسلام آباد چاہتا ہے کہ استنبول مذاکرات میں شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مانیٹرنگ کا تیز اور مصدقہ میکینزم تشکیل دیا جائے۔Getty Imagesاستنبول میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان 25 اکتوبر سے شروع ہونے والے مذاکرات آج تیسرے روز بھی جاری ہیںخیال رہے کہ گذشتہ ہفتے پاکستان اور افغانستان کے درمیان دوحہ میں جنگ بندی پر اتفاق کیا گیا تھا تاہم پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی وجوہات کے باعث افغانستان کے ساتھ تجارت بدستور بند ہے۔گذشتہ روز پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا تھا کہ افغانستان سے دراندازی کی کوششوں کو ناکام بنایا گیا جس میں 25 شدت پسندوں کی ہلاکت ہوئی ہے۔ایک بیان میں آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ٹی ٹی پی کے شدت پسندوں نے اسے وقت میں دراندازی کی کوشش کی ہے جب استبول میں مذاکرات جاری ہیں۔ پاکستانی فوج نے الزام لگایا ہے کہ سرحد پار شدت پسندی کے ایسے واقعات عبوری افغان حکومت کے ارادوں پر 'شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔'آئی ایس پی آر نے کہا کہ دوحہ معاہدے کے تحت عبوری افغان حکومت کو اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکنا ہے۔جنگ بندی کے بعد پیشرفت میں مشکلاتافغان امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار افتخار فردوس کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کا موقف ہے کہ یہ حملے پاکستان کے اندر ہو رہے ہیں تو اسے کیسے قصوروار ٹھہرایا جاسکتا ہے جبکہ پاکستان کہتا ہے کہ یہ شدت پسند افغانستان سے آتے ہیں۔ان کا خیال ہے کہ استنبول مذاکرات کے دوران جو حل پیش کیا گیا ہے وہ افغان طالبان کے لیے قابل قبول نہیں ہے کیونکہ یہ ان کے نظریات کے خلاف ہے۔وہ کہتے ہیں کہ افغان طالبان ڈیورینڈ لائن کو بین الاقوامی سرحد نہیں سمجھتے تو اگر وہ اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو انھیں مقامی سطح پر تنقید کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔افتخار فردوس کہتے ہیں کہ پاکستان نے اپنا موقف پیش کر دیا ہے کہ آئندہ جب بھی کوئی حملہ ہوگا تو اس کا جواب دیا جائے گا۔ اس کے باوجود ان کے بقول افغان طالبان اس لیے مذاکرات کی کامیابی کے لیے پُرامید ہوں گے کیونکہ وہ اسے طویل مشاورتی عمل کے طور پر دیکھتے ہیں۔طالبان کی عبوری حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے سرکاری نشریاتی ادارے کو جاری کیے گئے آڈیو پیغام میں کہا ہے کہ افغانستان ’بات چیت کے حق میں ہے۔ تمام مسائل مذاکرات کے ذریعے حل ہو سکتے ہیں۔‘تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ 'اگر کسی فریق نے پابندی عائد کی یا افغانستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی کی تو اسے جواب دیا جائے گا۔ افغان عوام حق دفاع رکھتے ہے۔'بی بی سی سے بات کرتے ہوئے پاکستان کے سابق سفیر آصف درانی کا کہنا تھا کہ ان مذاکرات کی کامیابی اس یقین دہانی پر منحصر ہے کہ افغانستان سے شدت پسندوں کی دراندازی کو روکا جائے اور ٹی ٹی پی کی حمایت ختم کی جائے۔وہ کہتے ہیں کہ ’افغان طالبان کو واضح کرنا ہوگا کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ ہیں یا ٹی ٹی پی کے ساتھ۔‘افغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہےسرحدی کشیدگی کے بعد کریک ڈاؤن اور تجارتی بندش جیسے اقدامات کیا افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر سکتے ہیں؟ ’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟افغانستان میں متعدد پاکستانی شہری ہلاک: ’مرنے والے سپین بولدک مزدوری کرنے جاتے تھے‘ مزدور تنظیم کا دعویٰGetty Imagesپاکستانی فوج نے گذشتہ روز 25 شدت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھابی بی سی سے بات کرتے ہوئے محقق عبدالسید کا کہنا ہے کہ استنبول میں جاری مذاکرات تیسرے روز میں داخل ہو چکے ہیں مگر اب تک ان مذاکرات کی پیش رفت کے بارے میں کسی فریق، میزبان یا ثالث کی جانب سے کوئی رسمی موقف سامنے نہیں آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’افغان اور پاکستانی میڈیا مختلف دعوے کر رہے ہیں جو دراصل اسلام آباد اور کابل کے درمیان بیانیوں کی جنگ کا تسلسل ہیں۔ ’دونوں ممالک کے درمیان بڑھتی کشیدگی کا ایک اہم محاذ میڈیا جنگ ہے، جس میں ہر فریق اپنے بیانیے کو پھیلانے اور مخالف بیانیے کو رد کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یوں دیکھا جائے تو عسکری محاذ کے بجائے یہ جنگ زیادہ تر میڈیا کے محاذ پر جاری ہے۔‘تاہم ان کا کہنا ہے کہ جنگ بندی پر عملدرآمد کے لیے چار فریقی میکینزم ایک نئی تجویز ہے جس کے بارے میں اب تک کوئی خاص موقف سامنے نہیں آیا۔ ’البتہ طالبان کا بنیادی موقف یہ ہے کہ ان کی سرزمین سے پاکستان پر حملے نہیں ہوتے اور ان کے بقول پاکستانی طالبان پاکستان سے ہی حملے کرتے ہیں۔ اگر یہ میکینزم قبول کر لیا جاتا ہے تو یہ اسلام آباد کے لیے یقیناً اہم کامیابی ہوگی۔‘افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے کیوں ہچکچاتے ہیں؟پاکستان کا گذشتہ کئی برسوں سے افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت سے تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خلاف کارروائی کا مطالبہ رہا ہے۔سنیچر کو پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف نے ایک بیان میں یہاں تک کہا کہ ’اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔‘’اگر مذاکرات سے معاملات حل نہیں ہوتے تو افغانستان کے ساتھ ہماری کھلی جنگ ہے۔‘محقق عبدالسید کہتے ہیں کہ ’خواجہ آصف کا بیان کوئی انفرادی موقف نہیں بلکہ پاکستان کی ملٹری اور سول قیادت نے کافی عرصے سے واضح کیا ہے کہ اگر پاکستانی طالبان کے حملے نہیں روکے گئے تو وہ افغانستان پر فضائی حملے کریں گے۔ ’یہ موقف تب سے واضح ہے جب فیلڈ مارشل حافظ عاصم منیر نے 2023 میں تحریکِ جہادِ پاکستان کے ایک بڑے حملے کے بعد یہ دھمکی دی تھی۔‘بی بی سی کے نامہ نگار افتخار خان سے بات کرتے ہوئے افغان سیاسی امور کے محقق ولیئم میلے کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی اعلیٰ قیادت ٹی ٹی پی کو اپنا نظریاتی اتحادی سمجھتی ہے۔ ’ان کی تاریخ کی جڑیں مشترکہ ہیں اور ان کے 80 اور 90 کی دہائیوں سے قریبی تعلقات رہے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ اس نظریاتی اتحاد کی وجہ سے طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی سے گریز کرتے ہیں۔میلی کا کہنا ہے کہ ماضی میں پاکستان کی افغان طالبان کو پناہ دینے کی طویل مدتی پالیسی رہی جس کے متوقع نتائج تھے اور اب کی اپنی سلامتی کو مسلح شدت پسندی سے خطرات لاحق ہیں۔بروکنگز انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ویندا فلباب براؤن کی رائے ہے کہ طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے ٹی ٹی پی کے ساتھ آپریشنل تعلقات رہے ہیں جو ختم کرنا مشکل ہے۔انھوں نے کہا کہ حقانی نیٹ ورک کو خدشہ ہے کہ کریک ڈاؤن کی صورت میں ٹی ٹی پی نام نہاد دولت اسلامیہ کے ساتھ اتحاد قائم کر سکتی ہے۔وہ کہتی ہیں کہ قندھار میں طالبان کی جنوبی قیادت پاکستان کے ماضی کے اقدامات پر ناخوش رہے ہیں جن میں ملا برادر کو قید کیا جانا اور امریکی حملے میں طالبان رہنما ملا منصور کی ہلاکت شامل ہیں۔ایک اور رائے یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو پاکستان کا اندرونی معاملہ سمجھتی ہے اور یہ اپنے لیے کوئی دشمن پیدا نہیں کرنا چاہتی۔نام نہاد دولت اسلامیہ کے برعکس ٹی ٹی پی نے کبھی افغان طالبان کی عبوری حکومت کو چیلنج نہیں کیا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جب تک ٹی ٹی پی اس کے لیے نظریاتی یا پُرتشدد خطرہ نہیں تب تک طالبان حکومت کے پاس اس کے خلاف کارروائی کا جواز نہیں ہوگا۔ اسی لیے افغان طالبان کی طرف سے پاکستانی حکومت سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے ساتھ اپنے معاملات کو بات چیت سے حل کرے۔سرحدی کشیدگی کے بعد کریک ڈاؤن اور تجارتی بندش جیسے اقدامات کیا افغان طالبان کو ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی پر مجبور کر سکتے ہیں؟ پاکستان کی گل بہادر کے ٹھکانوں پر حملوں کی تصدیق: ’گڈ طالبان‘ کے نام سے مشہور عسکریت پسند جو کبھی ٹی ٹی پی کا حصہ نہ بنا’ڈکٹیٹ‘ کرنے کا تاثر، ماضی سے سبق سیکھنے کی دھمکی یا غیر حقیقی امیدیں: پاکستان اور افغان طالبان کے مابین تناؤ کی وجہ کیا ہے؟افغانستان میں متعدد پاکستانی شہری ہلاک: ’مرنے والے سپین بولدک مزدوری کرنے جاتے تھے‘ مزدور تنظیم کا دعویٰافغانستان کے جغرافیے میں چھپا وہ راز جو اسے ’سلطنتوں کا قبرستان‘ بناتا ہے