
"میری ماں نے آخری رات مجھ سے بار بار پانی مانگا، مگر میں نے ڈاکٹرز کی ہدایات کے باعث انہیں ایک گھونٹ تک نہ دیا۔ آج بھی یہ سوچ دل چیر دیتی ہے کہ کاش میں انہیں پانی دے دیتا۔ اگر وہ ایک گھونٹ پینے کے بعد بھی دنیا سے چلی جاتیں تو میں سر جھکا کر کہہ سکتا کہ ان کی آخری خواہش پوری کی۔ مگر اُس وقت میں صرف یہ سوچتا رہا کہ ڈاکٹر صحیح کہہ رہے ہیں۔ اب سمجھ آیا ہے کہ جاتے ہوئے انسان کی خواہش کا احترام سب سے بڑا فرض ہوتا ہے۔"
بولی وڈ کے سنجیدہ مزاح اور منفرد اداکاری کے لیے پہچانے جانے والے ارشد وارثی نے ایک حالیہ پوڈکاسٹ میں ماضی کے زخم اور زندگی کے کڑوے تجربات کھول کر رکھ دیے۔ گفتگو کے دوران انہوں نے فلمی سفر اور جدوجہد کے برسوں کا احوال سناتے ہوئے اپنی اُس رات کو بھی یاد کیا جو ان کی زندگی کا سب سے گہرا نشان بن گئی۔
انہوں نے بتایا کہ کم عمری ہی میں والدین انہیں چھوڑ کر چلے گئے اور صرف چودہ برس کی عمر میں ان کے س肩 پر پورے گھر کی ذمہ داری آ گری۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف فلمی کیریئر کی ابتدا مشکل تھی بلکہ عملی زندگی بھی ایک مسلسل آزمائش ثابت ہوئی۔ پیسوں کی کمی، گھر کے خرچے اور زندگی کی تلخیوں نے انہیں کئی ایسے فیصلے کرنے پر مجبور کیا جن پر آج وہ مسکرا بھی لیتے ہیں اور افسوس بھی کرتے ہیں۔
گفتگو کے دوران انہوں نے فلم *جانی دشمن* کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ انہوں نے یہ فلم محض اس لیے سائن کی کہ انہیں اپنے گھر کی چھت مکمل کرنی تھی۔ ہدایت کار کے وقت پر ادائیگی کا بھروسہ تھا، اس لیے انہوں نے اس پراجیکٹ کو ترجیح دی۔ ارشد وارثی نے دلچسپ انداز میں کہا کہ فلم کے بعد انہوں نے ڈائریکٹر سے مذاق میں درخواست کی کہ فلم میں سب سے پہلے ان کے کردار کو مار دیا جائے، مگر ایسا نہ ہوا۔ دوسری جانب اکشے کمار اپنے کردار کی موت نہیں چاہتے تھے، لیکن اس کے باوجود ان کے کردار کو بار بار مارا جاتا اور وہ نئے روپ میں واپس آ جاتا۔
لیکن مسکراہٹ کے پیچھے چھپی تلخ یاد اُس وقت سامنے آئی جب ارشد وارثی نے اپنی والدہ کے آخری لمحوں کا ذکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ والدہ گردوں کی بیماری میں مبتلا تھیں اور ڈاکٹرز نے پانی سے منع کر رکھا تھا۔ مگر دنیا سے جانے سے ایک رات پہلے ماں نے بے حد شدت سے پانی مانگا۔ وہ بیٹا جس نے ہمیشہ ماں کی ہر بات مانی، اُس لمحے ڈاکٹر کے حکم کو مقدم سمجھ بیٹھا۔ انہوں نے پانی نہیں دیا۔ اور اگلے دن ماں دنیا سے رخصت ہو گئیں۔
انہوں نے اعتراف کیا کہ برسوں تک وہ اس خیال کے بوجھ تلے دبے رہے کہ شاید انہوں نے غلط کیا۔ وقت کے ساتھ سوچ بدلی اور آج انہیں لگتا ہے کہ مرنے والوں کی آخری خواہش پوری نہ کرنا خود سے بے وفائی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر وہ لمحہ واپس آ جائے تو وہ ڈاکٹر کی بات کو ایک طرف رکھ کر ماں کے ہاتھ میں پانی کا پیالہ ضرور تھماتے۔
View this post on Instagram A post shared by Raj Shamani (@rajshamani)
ارشد وارثی کی اس گفتگو نے نہ صرف شائقین کو جذباتی کر دیا بلکہ یہ یاد بھی دلا دی کہ شہرت، کامیابی اور روشنیوں کے پیچھے اکثر وہ کہانیاں ہوتی ہیں جن میں آنسو لفظوں سے زیادہ بولتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ والدین کے جانے کے بعد وہ مضبوط بننے کی کوشش کرتے رہے، مگر بہت دنوں تک آنکھیں خشک رکھنے کے بعد آخر کار دل کے بوجھ نے راستہ مانگا اور وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے۔ زندگی کے اس موڑ نے انہیں سکھایا کہ کبھی کبھی جذبات کو چھپانا نہیں، جینے کے لیے رونا بھی ضروری ہے۔
یہ اعتراف، یہ دکھ اور یہ سچائی ارشد وارثی کے مداحوں کے لیے صرف ایک کہانی نہیں، ایک یاد دہانی بھی ہے کہ محبت، خاص طور پر والدین کی محبت، زندگی کی سب سے بڑی نعمت ہے اور اس کا بدلہ آخری سانس تک بھی چکایا نہیں جا سکتا۔