جے یو آئی بلوچستان میں اندرونی اختلافات، ’اب تو پارٹی پر ٹھیکے داروں کا قبضہ ہے‘


پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی تیسری بڑی پارلیمانی جماعت جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی ف) میں اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں۔صوبائی امیر مولانا عبدالواسع نے جے یو آئی کے ضلع کوئٹہ کے انتخابات کالعدم قرار دے کر ضلعی کابینہ تحلیل کر دی ہے۔صوبائی قیادت اس اقدام کی وجہ انتخابات میں دھاندلی قرار دے رہی ہے تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ صورتحال مولانا عبدالواسع اور حافظ حمداللہ کے درمیان اختلافات اور جماعت کے اندر گروہ بندی کا نتیجہ ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ پر  جے یو آئی کے فعال کارکنوں نے بھی اس عمل پر تنقید کی ہے۔جے یو آئی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اردو نیوز کو بتایا کہ ’بلوچستان میں تنظیم واضح گروہ بندی کا شکار ہے۔ ایک گروہ کی قیادت رکن قومی اسمبلی سابق وزیر مولانا عبدالواسع، جبکہ دوسرے گروہ کی سربراہی سابق سینیٹر حافظ حمداللہ کر رہے ہیں۔ دونوں نے ایک دوسرے کے خلاف صوبائی امیر کے عہدے کا انتخاب بھی لڑا جس میں مولانا عبدالواسع کامیاب ہو گئے۔‘جے یو آئی کے رہنما کے مطابق ’ضلع کوئٹہ کے انتخابات حافظ حمداللہ کے حامی گروپ نے جیتے اور مولانا عبدالرحمان رفیق ضلعی امیر بنے, جبکہ مولانا عبدالواسع کے حامیوں سابق ضلعی امیر مولانا ولی محمد ترابی اور سابق صوبائی وزیر عین اللہ شمس کو شکست ہوئی۔ مولانا عبدالواسع  نے بظاہر تو ضلعی انتخابات میں دھاندلی کو وجہ بتاتے ہوئے کالعدم قرار دیا ہے لیکن اس کے پیچھے اصل وجہ تنظیمی اختلافات اور گروہ بندی ہی ہے۔‘تاہم جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے جنرل سیکریٹری مولانا سید محمود شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے تنظیمی اختلافات کے تأثر کو رد کیا اور کہا کہ ’ستمبر 2024 میں ہونے والے ضلعی انتخابات میں دھاندلی کی شکایات پر کمیٹی بنائی گئی تھی۔ کمیٹی اور صوبائی کنیونئر کی رپورٹ کے نتیجے میں دھاندلی ثابت ہونے پر صوبائی مجلس عامہ نے یہ اقدام اٹھایا اور ضلعی کابینہ ختم کرکے اس کی جگہ چھ ماہ کے لیے ایک نگراں کونسل تشکیل دے دی ہے۔‘اس سے قبل گزشتہ برس ستمبر میں ہونے والے جمعیت علمائے اسلام کے صوبائی انتخابات بھی تنازع کا شکار ہوئے تھے۔حافظ حمداللہ مولانا شیرانی کے قریبی تھے لیکن الگ جماعت بنانے پر حافظ حمداللہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا (فائل فوٹو: جے یو آئی، ایکس)کوئٹہ کے ایک نجی شادی ہال میں ہونے والے انتخابات کے دوران مولانا عبدالواسع اور حافظ حمداللہ کے حامیوں کے درمیان  تصادم ہوا۔ حافظ حمداللہ کے حامیوں نے پولنگ سٹیشن کے اندر داخل نہ ہونے دینے پر پتھراؤ کر کےعمارت کو نقصان پہنچایا۔ اس دوران سکیورٹی پر تعینات پولیس اہلکاروں اور نجی محافظوں نے ہوائی فائرنگ کی۔حافظ حمداللہ کے حامیوں نے مولانا واسع پر دھاندلی کا الزام لگایا اور کہا کہ مخالف ووٹرز کو داخلے سے روک کر من پسند نتائج حاصل کیے گئے جبکہ مولانا عبدالواسع کے حامیوں کا موقف تھا کہ حافظ حمداللہ غیرمتعلقہ افراد کے ذریعے انتخابی عمل پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔جے یو آئی کے اندرونی ذرائع کے مطابق اس تصادم کے بعد مولانا عبدالواسع نے مرکزی امیر مولانا فضل الرحمان اور مرکزی جماعت سے شکایت بھی کی تھی جس کی بنیاد پر حافظ حمداللہ کو مرکز میں کوئی بھی عہدہ نہیں دیا گیا۔کوئٹہ کے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار خلیل احمد کہتے ہیں کہ ’بلوچستان میں جے یوآئی کے اندر اختلافات شدت اختیار کر گئے ہیں اور یہ انتخابات صوبائی سطح سے لے کر ضلع، تحصیل اور پھر نچلی سطح تک پہنچ چکے ہیں۔ مولانا عبدالواسع، مولانا فضل الرحمان کے ساتھ قربت کی وجہ سے طاقتور ہیں، تاہم حافظ حمداللہ نے بھی انہیں ٹف ٹائم دے رکھا ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’جے یو آئی کے کارکن جماعتی انتخابات میں ہمیشہ مرکز کی طرف دیکھتے ہیں ۔ مولانا عبدالواسع اس لیے طاقتور ہیں کہ انہیں مولانا فضل الرحمان کا دستِ شفقت حاصل ہے۔ ان کے مقابلے میں حافظ حمداللہ کو نظرانداز کیا جا رہا ہے۔‘بلوچستان میں جے یو آئی کی سیاست پر نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور تجزیہ کار جلال نورزئی کہتے ہیں کہ حافظ حمداللہ بیان بازی اور تقریر میں تو آگے ہیں اور میڈیا میں بھی پیش پیش رہتے ہیں مگر تنظیم میں ان کی جڑیں مضبوط نہیں۔ ان کی بجائے مولانا عبدالواسع بڑے سیاسی کھلاڑی ہیں، سیاسی جوڑ توڑ کے ماہر ہیں اور پارلیمنٹرینز میں بھی اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’جے یو آئی بلوچستان میں سب سے مضبوط پارلیمانی جماعت سمجھی جاتی ہے، جس کا بڑا ووٹ بینک اور نظریاتی ووٹرز ہیں۔ ہر بار قومی و صوبائی اسمبلی میں ان کی اچھی نمائندگی ہوتی ہے اس لیے جے یو آئی کے صوبائی امیر کا عہدہ بڑا اہم اور اثر و رسوخ کا حامل سمجھا جاتا ہے۔‘مولانا محمد خان شیرانی نے مولانا فضل الرحمان سے اختلافات کے بعد پارٹی سے علیحدگی اختیار کر لی تھی (فائل فوٹو: ویڈیو گریب)تجزیہ کار جلال نورزئی  کے مطابق ’انتخابات میں پارٹی ٹکٹوں کی تقسیم ان کی مرضی سے ہوتی ہے اور ٹکٹس کی تقسیم میں پیسے کا بڑا استعمال ہوتا ہے، اس لیے اس عہدے پر بڑی لڑائی ہوتی ہے۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’جے یو آئی کے تنظیمی انتخابات گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی طرح متنازع رہے ہیں، اور اس کے نتیجے میں جے یو آئی کئی مرتبہ تقسیم بھی ہوئی ہے۔‘سنہ 2007 میں سابق رکن قومی اسمبلی مولوی عصمت اللہ نے صوبائی امیر مولانا محمد خان شیرانی سے اختلافات کی بنیاد پر جے یو آئی (نظریاتی) کے نام سے الگ جماعت بنائی۔ بعد میں خود مولانا محمد خان شیرانی خود بھی انہی اختلافات کی بنیاد پر الگ ہو گئے۔خلیل احمد کے مطابق ’بلوچستان کی تنظیم میں گروہ بندی مولانا شیرانی کے دور سے ہے، وہ بہت طاقتور تھے لیکن جب خود مولانا شیرانی کے مولانا فضل الرحمان سے اختلافات ہوئے تو مولانا فضل الرحمان نے ان کے مقابلے میں مولانا عبدالواسع کو کھڑا کیا اور انہیں کامیاب کرایا۔ حافظ حمداللہ مولانا شیرانی کے قریبی تھے لیکن الگ جماعت بنانے پر حافظ حمداللہ نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔‘جلال نورزئی کے مطابق ’جے یو آئی کے تنظیمی انتخابات گزشتہ کئی دہائیوں سے اسی طرح متنازع رہے ہیں‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)خلیل احمد نے مزید کہا کہ ’جے یو آئی اب پرانی اور نظریاتی جماعت نہیں رہی، اس پر ٹھیکے داروں، سرمایہ داروں، نوابوں اور سرداروں کا قبضہ ہے۔ ایک وقت میں جے یو آئی کے ٹکٹ پر عام علماء اور مدارس سے پڑھنے والے نظریاتی کارکن کامیاب ہوتے تھے لیکن اس مرتبہ بلوچستان اسمبلی کے 12 ارکان میں سے کوئی بھی عالم دین یا جے یو آئی کا پرانا نظریاتی کارکن نہیں۔ اسی طرح سینیٹ میں بھی بڑے بڑے ٹھیکے داروں کو ٹکٹ دیا گیا۔‘ان کا کہنا ہے کہ صوبائی، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے انتخابات کے لیے پارٹی ٹکٹس کی تقسیم میں بڑے پیمانے پر پیسے کے استعمال کے الزامات لگے۔ اس پر احتجاج بھی ہوا مگر ان تمام تر تنظیمی اختلافات کے باوجود جے یو آئی کے کارکن متحد ہیں اور انتخابات میں ان اختلافات کے اثرات نظر نہیں آئے۔جے یو آئی کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار بخت برشوری کہتے ہیں کہ ’جے یو آئی کا مجموعی تشخص متاثر ہوا ہے۔ پہلے اس کی پہچان ایک مذہبی تنظیم اور جماعت کی تھی، صرف علماء، مدارس کے طلبہ اور دینی طبقے کے لوگ اس کا حصہ ہوتے تھے، اس کے اجلاس بھی مساجد میں ہوتے تھے، اب حالات کافی بدل گئے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’مولانا شیرانی کے دور سے مذہبی افراد کی بجائے نوابوں، سرداروں، طاقتور افراد اور سرمایہ داروں کو فوقیت دی جا رہی ہے۔ اس کے کارکنوں پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور اب وہ نظریے کی بجائے تنظیم کے اندر قومیت اور زبان کو ترجیح دیتے ہیں۔ عہدوں اور ٹکٹ کے حصول کے لیے سر توڑ کوششیں بلکہ لڑائی جھگڑے تک ہوتے ہیں۔‘ان کا کہنا ہے کہ ’نئے افرداکی شمولیت اچھا پہلو ہے جس سے جے یو آئی میں وسعت آئے گی لیکن اگر بااثر لوگ نظریات کی بجائے صرف سرمایہ اور طاقت کی بنیاد پر آگے بڑھیں گے اور اہم عہدے حاصل کریں گے تو یقیناً اس سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا۔‘

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

مراکش کشتی حادثہ: 13 لاشوں کی شناخت کا عمل مکمل، تعلق پاکستان سے نکلا

افغان مہاجرین کو جڑواں شہروں سے بے دخل کرنے کا فیصلہ

آرمی ایکٹ کے مطابق فوجی عدالتوں کے کیا اختیارات ہیں؟ جسٹس مندوخیل کا سوال

کرم کے فریقین کا پشاور میں جرگہ ، سڑکیں کھولنے اور بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق

شاہد خاقان عباسی کی جماعت عوام پاکستان پارٹی کو انتخابی نشان گھڑیال الاٹ

اسٹیٹ بینک اور تمام مالیاتی ادارے کل بند رہیں گے

مسافر ٹرینوں کے کرایوں میں 5 فیصد اضافہ

اسٹاک مارکیٹ میں زبردست تیزی ، ڈالر کی قیمت گر گئی

پشاور ہائیکورٹ کے 10 نئے ایڈیشنل ججز نے حلف اٹھا لیا

ملتان میں مرغی سستی ، لاہور میں انڈے مہنگے ہو گئے

احتساب عدالت کے جج ناصر جاوید رانا ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج ویسٹ تعینات

خیبر پختونخوا میں ویلنٹائن ڈے پر لائف انشورنس منصوبہ شروع کرنے کا اعلان

حکومت کا پی آئی اے کی نجکاری کا عمل دوبارہ شروع کرنے کا فیصلہ

جے یو آئی بلوچستان میں اندرونی اختلافات، ’اب تو پارٹی پر ٹھیکے داروں کا قبضہ ہے‘

گرین میٹرز کی قیمت میں سو فیصد اضافہ: حکومت اینٹی سولر پالیسی لا رہی ہے؟

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی