
EPAاقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایران اختلاف رائے کو دبانے کے لیے اب ڈرونز اور ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کو استعمال میں لا رہا ہے جس کو خصوصاً ان خواتین کے خلاف استعمال کیا جا سکے گا جو اسلامی جمہوریہ ایران میں لباس کے سخت قوانین کی پابندی کو ماننے سے انکار کرتی ہیں۔اس حوالے سے تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ایرانی سکیورٹی حکام ’ریاستی سرپرستی میں نگرانی کے کلچر‘ کو فروغ دے رہے ہیں جس کے تحت عوام کو خصوصی موبائل ایپس استعمال کرنے کی ترغیب دی جاتی ہے تاکہ وہ لباس کی مبینہ خلاف ورزی کرنے والی خواتین کی موجودگی کی اطلاع دیں سکیں۔ چاہے وہ خواتین نجی گاڑیوں، ٹیکسیوں یا ایمبولینسز میں ہی کیوں نہ ہوں۔حالیہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تہران اور جنوبی ایران میں حجاب کی نگرانی کے لیے ڈرونز اور سکیورٹی کیمروں کے استعمال میں مسلسل اضافہ بھی ہو رہا ہے۔جو خواتین ان قوانین کی خلاف ورزی کی مرتکب ہوتی ہیں یاان کے خلاف احتجاج کرتی پائی جاتی ہیں انھیں گرفتاری، تشدد اور یہاں تک کہ دورانِ حراست ریپ جیسےسنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ایران کے قوانین پر کام کرنے والے ادارے انڈیپینڈینٹ انٹرنیشنل فیکٹ فائنڈنگ مشن کی یہ رپورٹ اس وقت سامنے آئی ہے جب گزشتہ سال ہی مہسا امینی کی 2022 میں دورانِ حراست ہلاکت کا ذمہ دار ایرانی حکومت کو ٹہرایا گیا تھا اور کہا گیا ہے کہ ان کی موت ’جسمانی تشدد‘ کے نتیجے میں ہوئی تھی۔گواہان کے مطابق22 سالہ کرد خاتون کو ایران کی اخلاقی پولیس نے گرفتاری کے دوران شدید تشدد کا نشانہ بنایاتھا تاہم حکام ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے ان کی موت کی وجہ اچانک دل کا دورہ پڑنا قرار دیتے ہیں۔مہسا امینی کی ہلاکت نے ملک گیر مظاہروں کی ایک بڑی لہر کو جنم دیا یہاں تک کے مظاہرین کو دی جانے والیپرتشدد گرفتاریوں اور قید کی دھمکیوں کے باوجود احتجاج کا سلسلہ تھم نہ سکا۔ستمبر 2022 میں شروع ہونے والے ملک گیر احتجاجکی لہر کو ڈھائی سال ہونے کو ہیں۔ اس عرصے میں ایرانی خواتین اور لڑکیوں کو قانون اور عمل میں منظم امتیازی سلوک کا سامنا رہا ہے اور خصوصاً حجاب پہننے کی لازمی شرط سمیت خواتین کی زندگی کے تمام پہلوؤں میں یہ امتیازی سلوک مسلسل جاری ہے۔’حالیہ رپورٹ سامنے آنے کے بعد واضحدکھائی دیتا ہے کہ حکومت اس ریاستی سرپرستی میں کی جانے والینگرانی پر انحصار بڑھا رہی ہے تاکہ کاروباری اداروں اور عام خواتین کو حجاب کی پابندی کو ایک سماجی ذمہ داری کے طور پر پیش کر کے اس عمل میں شامل کیا جا سکے۔‘کیا ایران میں جاری احتجاج حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے؟خاتون کی ہلاکت پر ایران میں احتجاج: ’ژینا نے ہمارے لیے آزادی کا راستہ کھول دیا‘ایران میں بے حجاب خواتین کی شناخت کے لیے کیمروں کا استعمال: ’حجاب ایرانی تہذیب کی بنیاد ہے‘ایران سے کرناٹک تک: انڈیا میں سبھی ایران میں خواتین کے احتجاج کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟رپورٹ کے مطابق تہران کی یونیورسٹی ’امیرکبیر‘ میں حکام نے داخلی دروازے پر چہرے کی پہچان والا سافٹ ویئر نصب کیا ہے جس سے دیگر مقاصد کے ساتھ ساتھ ان خواتین کی بھی شناخت کی جا سکے گی جو حجاب نہیں پہنتیں۔ایران کی بڑی شاہراہوں پر بھی نگرانی کے لیے لگائے گئے کیمرے حجاب نہ پہننے والی خواتین کو تلاش کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔تحقیق کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایرانی پولیس کی فراہم کردہ موبائل ایپ ’ناظر‘ مخصوص افراد اور پولیس کو اس بات کی اجازت دیتی ہے کہ وہ ایمبولینس، بسوں، میٹرو کارز اور ٹیکسیوں میں موجود بے حجاب خواتین تک پہنچ سکیں۔رپورٹ کے مطابق صارفین ایپ میں مقام، تاریخ، وقت اور اس گاڑی کی نمبر پلیٹ درج کر سکتے ہیں جس میں مبینہ طور پر لازمی حجاب کی خلاف ورزی ہوئی ہو۔ اس کے بعد یہ گاڑی آن لائن پورٹل میں درج ہو جاتی ہے اور اس طرح پولیس کو الرٹ مل جاتا ہے۔رپورٹ کے مطابق گاڑی کے رجسٹرڈ مالک کو ایک ٹیکسٹ میسج بھیجا جاتا ہے جس میں انھیں آگاہ کیا جاتا ہے کہ وہ لازمی حجاب کے قوانین کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انتباہ کو نظر انداز کرنے کی صورت میں ان کی گاڑی ضبط کی جا سکتی ہے۔اقوام متحدہ کے تحقیق کاروں نے رپورٹ مرتب کرنے سے قبل تقریباً 300 متاثرین اور گواہوں کے بیانات قلمبند کیے ہیں۔ انھوں نے ایرانی عدالتی نظام کا بھی گہرائی سے جائزہ لیا اور کہا کہ اس میں حقیقی آزادی کا فقدان ہے۔ رپورٹ کے مطابق تشدد اور دیگر خلاف ورزیوں کا نشانہ بننے والے افراد کو مزید ظلم و جبر کا سامنا کرنا پڑا جبکہ ان کے اہل خانہ کو ’منظم طریقے سے‘ ڈرایا دھمکایا گیا۔تحقیق کاروں نے تین بچوں اور تین بالغ مظاہرین کی ماورائے عدالت سزائے موت کے شواہد بھی حاصل کیے جنھیں بعد میں ریاست نے خودکشی کے واقعات قرار دیا۔رپورٹ میں زیر حراست جنسی تشدد کے اضافی کیسز بھی سامنے آئے جن میں ایک گرفتار خاتون کا ذکر کیا گیا جسے شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا، دو بار جعلی سزائے موت دی گئی، جنسی تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور پھراجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا گیا۔واضح رہے کہ اسرپورٹ کو 18 مارچ کو اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں پیش کیا جائے گا۔کیا ایران میں جاری احتجاج حکومت کی تبدیلی کا باعث بن سکتا ہے؟خاتون کی ہلاکت پر ایران میں احتجاج: ’ژینا نے ہمارے لیے آزادی کا راستہ کھول دیا‘ایران میں بے حجاب خواتین کی شناخت کے لیے کیمروں کا استعمال: ’حجاب ایرانی تہذیب کی بنیاد ہے‘ایران سے کرناٹک تک: انڈیا میں سبھی ایران میں خواتین کے احتجاج کی حمایت کیوں کر رہے ہیں؟’گشتِ ارشاد فورس‘: ایران نے اخلاقی پولیس کو ختم کر دیا، اٹارنی جنرلایران: حجاب نہ پہنا تو آپکی کار ضبط کر لی جائے گی