
وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی شزا فاطمہ خواجہ نے کہا ہے کہ امریکی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنی سٹار لنک رواں سال نومبر یا دسمبر تک پاکستان میں اپنی سروسز کا آغاز کر دے گی۔پیر کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی اینڈ ٹیلی کمیونیکیشن کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے وفاقی وزیر نے بتایا کہ حکومت سٹار لنک کو لائسنس فراہم کر رہی ہے، تاہم لائسنسنگ کے عمل کے چند مراحل ابھی باقی ہیں جن سے کمپنی اس وقت گزر رہی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سٹار لنک نے سب سے پہلے سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان سے رجسٹریشن حاصل کی، اس کے بعد کمپنی نے سپیس ایکٹیویٹیز ریگولیٹری بورڈ میں بھی باقاعدہ اندراج کروایا۔شزا فاطمہ کے مطابق ان مراحل کی تکمیل کے بعد کمپنی کو عارضی لائسنس جاری کیا گیا ہے تاہم حتمی این او سی کے اجرا سے قبل کچھ مزید تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔انہوں نے بتایا کہ سٹار لنک کی جانب سے تمام مطلوبہ دستاویزات جون تک جمع کرانے کی درخواست کی گئی تھی، تاہم حکومت نے کمپنی کو مئی تک کی مہلت دی ہے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ سٹار لنک کی جانب سے سروس کی قیمتوں کے تعین پر بھی بات چیت جاری ہے اور فائنل پرائسنگ کے بعد پاکستان میں انٹرنیٹ پیکجز کی قیمت مقرر کی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ سٹار لنک کے علاوہ بعض چینی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کمپنیاں بھی پاکستان میں لائسنس کے لیے درخواستیں دے چکی ہیں۔ ان کو بھی تقاضے پورے کیے جانے کے بعد لائسنس جاری کیا جائے گا۔شزا فاطمہ نے فائیو جی نیلامی سے متعلق اہم نکات بھی کمیٹی کے سامنے رکھے (فوٹو: ٹیک جوس)خیال رہے سٹارلنگ اب تک پاکستان میں رجسٹریشن کے تین بڑے مراحل کامیابی سے مکمل کر چکی ہے، جن میں ایس ای سی پی، پاکستان سافٹ ویئر ایکسپورٹ بورڈ اور سپیس ایکٹیویٹیز ریگولیٹری بورڈ شامل ہیں۔ اب صرف پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) سے حتمی لائسنس حاصل کرنا باقی ہے۔حکام کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے اس وقت کمپنی کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کا تفصیلی جائزہ لے رہا ہے اور لائسنس کے اجرا کے بعد سٹار لنک پاکستان میں اپنی سروسز باقاعدہ طور پر شروع کر سکے گی۔ماہرین کے مطابق سٹار لنک کی سروسز موجودہ ٹیلی کام نیٹ ورک میں کسی قسم کی مداخلت یا خلل کا باعث نہیں بنیں گی۔واضح رہے کہ حکومت پاکستان نے 2023 میں نیشنل سیٹلائٹ پالیسی متعارف کرائی تھی جبکہ 2024 میں سپیس ایکٹیویٹیز رولز نافذ کیے گئے تاکہ سپیس کمیونیکیشن کے شعبے کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔فائیو جی نیلامی میں تاخیر، ’عدالتی کیسز اور انفراسٹرکچر رکاوٹ بنے‘اجلاس کے دوران وفاقی وزیر آئی ٹی شزا فاطمہ خواجہ نے فائیو جی نیلامی سے متعلق اہم نکات بھی کمیٹی کے سامنے رکھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فائیو جی نیلامی میں ترقی اور ریونیو کے امکانات ضرور ہیں لیکن جب تک ملک میں مضبوط انفرا اسٹرکچر موجود نہیں ہو گا، فائیو جی نیلامی کامیاب نہیں ہو سکتی۔حکام کا کہنا ہے کہ پی ٹی اے سٹار لنک کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کا جائزہ لے رہا ہے (فوٹو: اے ایف پی)انہوں نے کمیٹی کو بتایا کہ فائیو جی سپیکٹرم سے متعلق کئی کیسز عدالتوں میں زیر التوا ہیں۔ چیئرمین پی ٹی اے نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ شالیمار کمپنی نے 2007 سے عدالتی حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے جبکہ سپریم کورٹ کی جانب سے بھی فائیو جی سپیکٹرم کے حوالے سے سٹے آرڈر جاری ہے۔چیئرمین پی ٹی اے کے مطابق شالیمار کمپنی اس وقت 140 میگا ہرٹز فریکوئنسی استعمال کر رہی ہے، اور اس معاملے پر سیکریٹری قانون کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔مزید بتایا گیا کہ زونگ ٹیلی کام نے بھی سپریم کورٹ سے سٹے آرڈر حاصل کر رکھا ہے اور فی الوقت مفت میں سپیکٹرم استعمال کر رہی ہے۔ شزا فاطمہ نے کہا کہ عدالت کی جانب سے اس معاملے پر فیصلہ گزشتہ دو سال سے محفوظ ہے، جس کے باعث نیلامی میں تاخیر ہو رہی ہے۔قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے سپیکٹرم سے متعلق زیر التوا عدالتی کیسز کا جائزہ لینے کے لیے ایک سب کمیٹی کے قیام کا اعلان بھی کیا جس کی سربراہی بیرسٹر گوہر خان کریں گے۔