چین فیکٹر اور سوشل میڈیا تجارتی جنگ: امریکہ کو خود اپنے بنائے فری ٹریڈ نظام سے کیوں نکلنا پڑا؟


امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک اور دیوار بنا دی ہے اور انھیں لگتا ہے کہ باقی سب اس کا خرچ برداشت کریں گے۔ لیکن عالمی ٹیرف کا فیصلہ، جس کے تحت امریکہ آنے والی تمام مصنوعات پر کم از کم 10 فیصد اضافی ٹیکس نافذ ہوگا، ایک دیوار کی طرح ہے جو پناہ گزین کو آنے سے تو نہیں روکے گی مگر اس کا مقصد کام اور نوکریاں اپنے ہی ملک میں رکھنا ہے۔اس دیوار کو تاریخی اعتبار سے سمجھنا بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے ہمیں ایک صدی پیچھے جانا ہوگا جب امریکہ میں پروٹیکشنزم کی پالیسی تھی۔ امریکہ اب جی سیون اور جی ٹوئنٹی ممالک میں کسٹمز کے ذریعے آمدن کمانے والا بڑا ملک بننے جا رہا ہے۔ اس طریقے کو ماضی میں سینیگال، منگولیا اور کرغستان سے جوڑا جاتا تھا۔جو کچھ ہوا وہ نہ صرف اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ امریکہ نے عالمی تجارتی جنگ چھیڑ دی ہے بلکہ اس نے سٹاک مارکیٹس میں بھی ہلچل پیدا کر دی ہے۔ امریکہ گلوبلائزیشن کے عمل کا چیمپیئن تھا اور اس نے گذشتہ دہائیوں کے دوران اس کا بھرپور منافع بھی کمایاگدنیا کے کئی ملکوں پر ٹیرف عائد کرنے کا فارمولا بنا کر وائٹ ہاؤس نے نہ صرف معاشی روایات ٹھکرا دیں بلکہ سفارتکاری کے بنیادی اصولوں کو بھی نظر انداز کر دیا۔فری ٹریڈ کی عظیم بحثٹرمپ نے اپنے اعلان میں 1913 کا خوب ذکر کیا۔ یہ وہ موقع تھا جب امریکہ نے ٹیرف کم کر کے وفاقی انکم ٹیکس متعارف کرایا تھا۔اس سے قبل امریکی حکومت کی آمدن کا بنیادی ذریعہ ٹیرف تھے اور اس نے پہلے وزیر خزانہ الیگزینڈر ہیملٹن کی حکمت عملی کے تحت خود کو پروٹیکشنسٹ بنا رکھا تھا، یعنی مقامی صنعت کے دفاع کی پالیسی۔اب وائٹ ہاؤس کا ماننا ہے کہ بلند ٹیرف نے ہی امریکہ کو 'عظیم' بنایا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب فیڈرل انکم ٹیکس کی کوئی ضرورت نہیں۔لیکن یورپ میں 19وی صدی کے برطانوی اکانومسٹ ڈیوڈ ریکارڈو کی گلوبلائزیشن اور فری ٹریڈ کے نظریات رائج ہیں۔ بنیادی طور پر ان کا ماننا ہے کہ ملک انفرادی طور پر مختلف چیزیں زیادہ بہتر انداز میں بنا سکتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اپنے منفرد قدرتی وسائل اور لوگ ہوتے ہیں۔یعنی یہ بہتر ہے کہ ایک ملک کسی خاص چیز میں مہارت حاصل کرتا ہو اور اس کی آسانی سے تجارت کر سکے۔Reutersبرطانیہ میں ایک سیاست اور معیشت کا اہم جزو ہے۔ اکثر دنیا مسابقتی برتری میں یقین رکھتی ہے اور ہمیں گلوبلائزیشن کے اصول بھی یہی بتاتے ہیں۔مگر امریکہ اس نظریے پر کبھی بھی پوری طرح ایمان نہیں لایا تھا۔ امریکہ کی ہچکچاہٹ ہمیشہ نظر آ جاتی تھی۔ اس کی نشانی وہ خیالی فارمولا ہے جو امریکی تجارتی نمائندے نے بنایا۔ اسی فارمولے کو استعمال کر کے ہر ملک پر ٹیرف لگایا گیا اور ٹرمپ نے بورڈ دکھایا۔’جوابی‘ ٹیرف کی منطقنام نہاد 'جوابی' ٹیرف کی منطق سمجھنا بھی ضروری ہے۔ ان ممالک پر عائد ٹیرف کی شرح حقیقی اعداد و شمار سے مطابقت نہیں رکھتی۔وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ ریڈ ٹیپ اور کرنسی کی قدر میں چھیڑ چھاڑ کو بھی مدنظر رکھ کر تبدیلیاں کی گئی ہیں۔ اس فارمولے میں امریکہ کے کسی ملک کے ساتھ تجارتی خسارے کو جانچا گیا ہے اور اسے برآمدات پر تقسیم کیا گیا ہے۔پریس کانفرنس سے ایک گھنٹہ قبل وائٹ ہاؤس کے اہلکار نے کھل کر اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ 'ہر ملک کے لیے ٹیرف مختلف ہے۔ اس کا حساب کونسل آف اکنامک ایڈوائزر نے لگایا ہے۔۔۔ اس ماڈل کی بنیاد تجارتی خسارہ، تمام غیر منصفانہ تجارتی حرکات اور جعلسازی ہے۔'یہ نہایت اہم ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اگر آپ امریکہ کو اس کی فروخت کردہ مصنوعات سے زیادہ مصنوعات بیچتے ہیں تو یہ 'جعلسازی' ہے اور اس عدم توازن کو ٹھیک کرنے کے لیے ٹیرف لگانا ہوگا۔اسی لیے ایسی معلومات سامنے آئی کہ امریکہ نے ایسے جزیروں پر بھی ٹیرف لگا دیا جہاں انسان نہیں، پینگوئن بستے ہیں۔ اس سے اصل طریقہ کار واضح ہوتا ہے۔طویل مدتی مقصد یہ ہے کہ امریکہ کا 1.2 ٹریلین ڈالر تجارتی خسارہ اور دنیا کا سب سے بڑا ملکی خسارہ صفر پر لایا جائے۔ یہ فارمولا کچھ ایسے تیار کیا گیا کہ سرپلس والے ملکوں کو نشانہ بنایا جائے۔ ایسے ملکوں کو نشانہ بنانا مقصود نہیں جن کے ہاں تسلیم شدہ تجارتی رکاوٹیں ہیں۔ اس ڈیٹا کے ذریعے غریب ملکوں، ترقی یافتہ معیشتوں اور دور دراز واقع چھوٹے جزیروں کو نشانہ بنایا گیا۔یہ دونوں عوامل ملتے ضرور ہیں مگر یہ ایک بات نہیں۔کسی ملک کے پاس سرپلس ہو یا خسارہ اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ضروری نہیں کہ یہ اعداد و شمار صفر پر لائے جائیں۔ مختلف ملکوں کے پاس مختلف مصنوعات تیار کرنے کے لیے قدرتی و انسانی وسائل ہوتے ہیں۔ یہ تجارت کا بنیادی اصول ہے۔بظاہر امریکہ اب اس نظریے پر یقین نہیں رکھتا۔ اگر یہی نظریہ سروسز کی تجارت پر لاگو کیا جائے تو امریکہ کو مالیاتی سروسز اور سوشل میڈیا ٹیکنالوجی کے شعبوں میں 280 ارب ڈالر کا سرپلس حاصل ہے۔ تاہم وائٹ ہاؤس کے حساب کتاب میں سروسز کی تجارت کا ذکر نہیں۔’فلڈنگ دا زون‘: ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی جو ان کے ناقدین کو الجھائے رکھتی ہےٹرمپ کا ’یوم آزادی‘ اور پاکستان سمیت 100 ممالک پر نئے ٹیرف کا اعلان جسے ’عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے جیسا عمل‘ قرار دیا گیاروایت شکن ڈونلڈ ٹرمپ 2025 کو تاریخی سال بنانے کی راہ پر کیسے گامزن ہیں؟غزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟'چین کا دھچکا' اور وہ سلسلہ جو تھم نہ سکابات یہاں تک محدود نہیں۔ امریکی نائب صدر جے ڈی وانس نے گذشتہ ماہ اپنی تقریر میں کہا تھا کہ امریکی انتظامیہ کے خیال میں گلوبلائزیشن ناکام ہو چکی ہے کیونکہ 'امیر ملک والیو چین میں اوپر جاتے رہتے ہیں جبکہ غریب ملک عام چیزیں بناتے ہیں۔'یہ صحیح نہیں خاص کر چین کے کیس میں۔ اسی لیے امریکہ خود کو اس دنیا سے دور کر رہا ہے۔امریکہ معیشت دان ڈیوڈ ریکارڈو کو اہمیت نہیں دیتا بلکہ ایم آئی ٹی کے ماہر ڈیوڈ اوٹر کو مانتا ہے جنھوں نے 'چین کا دھچکا' کی اصطلاح متعارف کرائی تھی۔سنہ 2001 میں نائن الیون کے بعد چین نے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن میں شمولیت اختیار کی اور اسے امریکی منڈیوں تک آسان رسائی مل گئی اور یوں عالمی معیشت کا رُخ تبدیل ہوگیا۔امریکہ میں رہن سہن کا معیار، پیداوار، منافع اور سٹاک مارکیٹس میں ترقی ہوئی کیونکہ چینی ورکرز دیہاتوں سے ساحلوں پر بنی فیکٹریوں میں آگئے جہاں امریکی صارفین کے لیے سستی اشیا بنتی تھیں۔ یہ مسابقتی برتری کی واضح مثال ہے۔ چین نے کھربوں ڈالر بنائے، امریکہ میں اس کی دوبارہ سرمایہ کاری کر کے حکومتی بانڈز خریدے اور سرح سود کو کم رکھا۔Getty Imagesسب جیت رہے تھے۔ مگر امریکی صارفین سستی مصنوعات خرید کر امیر ہو رہے تھے مگر مشرقی ایشیا میں مینوفیکچرنگ گِر رہی تھی۔اوٹر کی اعداد و شمار کے مطابق 2011 میں چین کے دھچکے نے امریکہ میں 10 لاکھ نوکریاں ختم کیں اور باقی خطے کو ملا کر یہ تعداد 24 لاکھ نوکریاں تھیں۔ علاقائی اعتبار سے یہ نقصان رسٹ بیلٹ اور جنوب میں ہو رہا تھا۔تجارتی دھچکہ مسلسل نوکریوں اور معاوضے پر اثر انداز ہو رہا تھا۔اوٹر نے گذشتہ سال اپنے تجزیے میں اضافہ کیا اور انھیں معلوم ہوا کہ ٹرمپ انتظامیہ کے پہلے دور میں ٹیرف کا معیشت پر بہت کم فرق پڑا مگر یہ ضرور ہوا کہ متاثرہ علاقوں میں ڈیموکریٹ پارٹی کی حمایت کم ہوئی اور 2020 کے صدارتی الیکشن کے لیے ٹرمپ کی پوزیشن بہتر ہوگئی۔اب اس بار وائٹ ہاؤس کے باہر یونین کار ورکرز اور آئن اینڈ گیس ورکرز ٹیرف عائد ہونے کا جشن منا رہے تھے۔ان کا وعدہ ہے کہ نوکریاں نہ صرف رسٹ بیلٹ میں بلکہ امریکہ بھر میں واپس آئیں گی۔ یہ کچھ حد تک ممکن ہے۔ ٹرمپ کا غیر ملکی کمپنیوں کے لیے پیغام ہے کہ ٹیرف سے بچنے کے لیے اپنی فیکٹریاں یہاں لگائیں۔ بائیڈن کی طرف سے دی گئی رعایت اور اب ٹرمپ کی طرف سے سختی کے بعد اس میں پیشرفت ہو سکتی ہے۔لیکن صدر کی طرف سے آزادانہ تجارت کی گذشتہ نصف صدی کو امریکہ کے ساتھ 'ریپ اور لوٹ مار' کے طور پر بیان کرنا واضح طور پر مکمل تصویر کی عکاسی نہیں کرتا، چاہے اس نے مخصوص علاقوں، شعبوں یا آبادی کے لیے کام نہ کیا ہو۔امریکی سروس سیکٹر نے ترقی کی اور وال سٹریٹ اور سلیکون ویلی سے دنیا پر غلبہ حاصل کیا۔ امریکی کنزیومر برانڈز نے چین اور مشرقی ایشیا تک پھیلی انتہائی موثر سپلائی چینز کا استعمال کیا تاکہ ہر جگہ اپنی من چاہی امریکی مصنوعات فروخت کر کے ناقابل یقین منافع کمایا جا سکے۔امریکی معیشت نے واقعی بہت اچھا کام کیا۔ مسئلہ بس یہ تھا کہ اسے شعبوں میں یکساں طور پر تقسیم نہیں کیا گیا تھا۔ اور امریکہ کے پاس اس دولت کو پورے ملک میں پھیلانے کے لیے اچھا ماحول نہیں تھا۔ یہ امریکہ کے سیاسی انتخاب کی عکاسی کرتا ہے۔پہلی سوشل میڈیا تجارتی جنگاب جیسا کہ امریکہ نے تحفظ پسندی کے اچانک جھٹکے کے ساتھ اپنی مینوفیکچرنگ کو دوبارہ بحال کرنے کا انتخاب کیا ہے دوسرے ممالک کے پاس بھی یہ انتخاب ہے کہ آیا سرمایہ اور تجارت کے بہاؤ کو سپورٹ کرنا ہے جس نے امریکہ کو امیر بنایا تھا۔دنیا کے صارفین کے پاس کئی راستے ہیں۔بڑی امریکی کمپنیوں نے انتہائی موثر ایسٹ ایشین سپلائی چینز پر دولت بنائی، سستے داموں اشیا تیار کروا کر اپنے برانڈز کی بنیاد پر پوری دنیا کو انھیں فروخت کیا۔ یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ ان کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہے۔ان کے حصص کی قیمتیں خاص طور پر بری طرح متاثر ہوئی ہیں کیونکہ صدر نے سپلائی چین کی حکمت عملیوں کو ختم کر دیا ہے اور عالمی صارفین کے درمیان ان کے برانڈ امیج کو بہت زیادہ نقصان پہنچانے کا خطرہ بھی ہے۔موجودہ ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق گلوبلائزیشن ناکام ہو چکی ہے۔ بالآخر یہ پہلی سوشل میڈیا تجارتی جنگ ہے۔ ٹیسلا کی فروخت میں کمی اور امریکی سامان کے خلاف کینیڈا کے ردعمل کا تجربہ متعدی ثابت ہو سکتا ہے۔ یہ کسی بھی انسداد ٹیرف کی طرح طاقتور ہوگا۔امریکی صارفین کے لیے ورکشاپس بننے والے ممالک کے پاس بھی کئی راستے ہیں۔ نئے اتحاد بنیں گے اور امریکی اثر و رسوخ کو کم کیا جا سکتا ہے۔اس بارے میں صدر کی حساسیت اس وقت عیاں تھی جب انھوں نے دھمکی دی کہ اگر یورپی یونین اور کینیڈا جوابی کارروائی کریں گے تو ٹیرف میں اضافہ ہوگا۔ یہ ایک ڈراؤنے خواب کا منظر ہوگا۔تجارتی جنگوں کے گیم تھیوری میں اعتبار اہمیت رکھتا ہے۔ امریکہ کے پاس بے مثال فوجی اور تکنیکی طاقت ہے جو مدد کرتی ہے۔ لیکن صوابدیدی فارمولے کا استعمال مزاحمت کو ہوا دے سکتا ہے۔یہ خاص طور پر اس وقت ہوتا ہے جب باقی دنیا یہ سمجھتی ہے کہ صدر کے پاس جو لوڈڈ بندوق ہے اس کا نشانہ ان کے اپنے پاؤں پر ہے۔ امریکہ میں سٹاک مارکیٹ سب سے زیادہ گراوٹ کا شکار ہوئی۔ مہنگائی بھی امریکہ میں زیادہ ہوگی اور وال سٹریٹ امریکہ میں کساد بازاری کے امکان کا ظاہر کر رہی ہے۔شاید اس نظریے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ ڈالر کی قدر کو کمزور کیا جائے اور امریکہ کے قرض لینے کے اخراجات کو نیچے لایا جائے۔ابھی کے لیے تو یہ واضح ہے کہ امریکہ اس عالمی تجارتی نظام سے نکل رہا ہے جو اس نے بنایا۔ یہ نظام امریکہ کے بغیر بھی چل سکتا ہے اور منتقلی کا عمل کئی مسائل کو جنم دے گا۔پوتن کو رعایت دینے کی ’غلطی‘ یا سیاسی چال: ٹرمپ انتظامیہ کی خارجہ پالیسی نے کیسے دنیا کو الجھا دیاغزہ میں رقص کرتے ٹرمپ، بکنی میں ملبوس مرد اور بلند عمارتیں: امریکی صدر کی جانب سے پوسٹ کردہ ویڈیو پر تنقید کیوں ہو رہی ہے؟روایت شکن ڈونلڈ ٹرمپ 2025 کو تاریخی سال بنانے کی راہ پر کیسے گامزن ہیں؟’فلڈنگ دا زون‘: ڈونلڈ ٹرمپ کی حکمت عملی جو ان کے ناقدین کو الجھائے رکھتی ہےٹرمپ کا ’یوم آزادی‘ اور پاکستان سمیت 100 ممالک پر نئے ٹیرف کا اعلان جسے ’عالمی تجارتی نظام پر ایٹم بم گرانے جیسا عمل‘ قرار دیا گیاٹرمپ انتظامیہ کا امریکی امداد بند کرنے کا فیصلہ: پاکستان کس حد تک متاثر ہو گا؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید عالمی خبریں

سعودی وزیر دفاع کا دورہ ایران، تہران ائیرپورٹ پر پُرتپاک استقبال

پاکستان سے بے دخلی، دو بھائی ’اجنبی افغانستان‘ میں مستقبل کے لیے فکرمند

’خرگوش کی ٹکر‘ کے باعث یونائٹیڈ ایئرلائن کے طیارے کے انجن میں آگ لگ گئی

امریکہ کی جانب سے 245 فیصد تک ٹیرف کی دھمکیوں کو نظر انداز کریں گے، چین

شناختی کارڈ کی جگہ نیا سسٹم تیار، تجربہ کامیاب

بنگلہ دیش: بی این پی انتخابات کے شیڈول سے غیرمطمئن، ’بے چینی جنم لے رہی ہے‘

زلزلے کے وقت ہاتھی گول دائرہ بنا کر کیوں کھڑے ہوگئے؟ حیرت انگیز ویڈیو وائرل

’قیمتی‘ معدنیات، ایف 35 طیارے اور جدید ہتھیار: امریکہ کی وہ کمزوری جو تجارتی جنگ میں چین کو سبقت دلا سکتی ہے

جنس تبدیل کرواکرعورتیں بننےوالوں کے بارے میں برطانوی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ

سیاسی پناہ کی تلاش، یورپی یونین کی سات ’محفوظ ممالک‘ کی نئی فہرست

ڈونلڈ ٹرمپ نے ہارورڈ یونیورسٹی کو مذاق قرار دے دیا

چین، امریکا تجارتی جنگ میں شدید تناؤ

کینیڈا کی یونیورسٹیوں کے اساتذہ امریکہ کا غیرضروری سفر نہ کریں، ایڈوائزری جاری

’ٹوئلٹ پیپر کی طرح محسوس کیا‘، سنگاپور میں کمپنی کے ملازم کا ’بے رحمانہ‘ استعفیٰ وائرل

امریکہ ٹیرف مذاکرات کے ذریعے چین کو تنہا کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے: رپورٹ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی