
ان دنوں آپ ایپل کے انڈیا میں بنانے کا ذکر سن رہے ہیں، اس طرح آپ انڈیا اور پاکستان میں ہتھیاروں کی خریداری اور مقامی طور پر تیار کرنے کا شور بھی سن رہے ہیں۔لیکن ہم آج موبائلز یا جنگی طیاروں کی نہیں بلکہ پورے 70 سال قبل کی ایک ایسی چیز کا ذکر کر رہے ہیں جسے نہ صرف انڈیا میں تیار کرنے کی جانب قدم اٹھایا گیا تھا بلکہ اسے فوج کے استعمال کے لیے پہلے پہل وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا۔یہ سٹیٹ آف دی آرٹ اور کٹنگ ایج ٹیکنالوجی پر مبنی برطانوی کمپنی انفیلڈ کی تیار کردہ چیز کوئی اور نہیں بلکہ کلٹ کا درجہ رکھنے والی موٹر سائیکل ’بُلٹ‘ ہے۔انڈیا میں ایک زمانے میں ’بُلٹ‘ موٹر سائیکل کا ایک اشتہار آتا تھا جس میں ایک گیت اس طرح تھا: ’یہ بلٹ میری جاں، منزلوں کا نشاں‘آج ہم اس کی منزلوں کے نشان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ اگرچہ گذشتہ صدی کے شروع میں اس کمپنی رائل انفیلڈ کی داغ بیل پڑی اور اس نے پہلی انفیلڈ موٹر سائیکل بنائی لیکن پہلی بلٹ کوئی تین دہائی بعد 1932 میں بن کر تیار ہوئی۔رائل انفیلڈ موٹر سائیکل کا ’بلٹ‘ ماڈل موٹر سائیکل کی تاریخ میں سب سے طویل عرصے تک زندہ رہنے والے ڈیزائن کے طور پر شمار کیا جاتا ہے۔ اور یہ متعارف کرائے جانے کے بعد سے مسلسل پروڈکشن میں ہے۔ہم نے تمل ناڈو اور پانڈی چیری میں ’بلٹ‘ کے سب سے بڑے ڈیلر اور روسٹر آٹوموبل کمپنی کے مالک گوپی ناتھ ریڈی سے فون پر بات کی تو انہوں نے کہا کہ اس کے پرانے سے پرانے ماڈل کی آج تک مانگ ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر آج اس کے نئے نئے ماڈلز متعارف ہو رہے ہیں اور یہ الیکٹرک میں بھی دستیاب ہے جبکہ اس کے ہارس پاور اور سی سی میں بھی اضافہ ہوا لیکن پرانے ماڈل کی مانگ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی ہے۔انڈیا میں بلٹ کو جہاں سٹیٹس سمبل کے طور پر دیکھا جاتا ہے وہیں ’آزادی‘ اور ’جوانمردی‘ کے اظہار کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔چنانچہ اگر ہم انڈیا میں اس کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو یہ اس وقت بھی انڈیا میں موجود تھی جب انڈیا پر تاج برطانیہ کی حکومت تھی لیکن کہا جاتا ہے کہ پہلی رائل انفیلڈ بلٹ کسی ہندوستانی نے ہی خریدی تھی لیکن اس کے پہلے مالک کے کوائف کم ہی ملتے ہیں۔لیکن آزادی کے بعد انڈیا میں یہ سنہ 1949 سے دستیاب ہے۔ ماہرین کہتے ہیں اس کی مقبولیت میں اس وقت اضافہ ہوا جب اسے انڈین فوج کے لیے منتخب کیا گیا تاکہ وہ سرحد پر نگرانی کر سکیں۔جواہر لعل نہرو خاص طور پر ان چیزوں کی تلاش میں تھے جنہیں مقامی طور پر تیار کیا جا سکے تاکہ اس پر بعد میں ’میڈ ان انڈیا‘ کا لیبل لگ سکے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)سب سے پہلی بلٹ 250 سی سی، 350 سی سی اور 500 سی سی میں آئی تھی۔ اب اگرچہ 250 سی سی کمیاب ہے لیکن 350 سی سی اور 500 سی سی اب بھی سکہ رائج الوقت ہے۔انڈین فوج نے سنہ 1952 میں اس کا انتخاب کیا اور 350 سی سی کی 500 موٹر سائیکلوں کا سودا کیا جو کہ اس زمانے میں کسی رفال کے سودے سے کم نہ تھا۔بلٹ کی پہلی کھیپ ایک برس بعد سنہ 1953 میں انڈیا میں ڈیلیور ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ انڈیا کی مقبول ترین موٹر سائیکل بن گئی۔چچا بھیتیجے کی کہانیاگر انڈیا میں ’بلٹ‘ کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اسی زمانے میں مدراس پرزیڈنسی میں سائیکلوں کی دکان میں کام کرنے والے چچا بھتیجے کی کہانی بھی اس سے مملو نظر آتی ہے۔کے آر سندرم اییر (کے آر ایس) اور ان کے بھتیجے کے ایشورن نے ایک سائیکل کمپنی میں میکنک اور منشی کے طور پر کام شروع کیا پھر انہوں نے اس کمپنی کو خرید لیا اور وقت کے ساتھ انہوں نے وہاں کی سب سے بڑی ’انگلش سائیکل‘ کمپنی کو بھی حاصل کر لیا۔کے آر ایس کے پوتے کپل وشوناتھن ایک میڈیا ہاؤس سے بات کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ انگلش سائیکل اس وقت برطانیہ سے سائیکل درآمد کرتی تھی۔ان دونوں چچا بھتیجے نے مل کر مدراس موٹرز کی بنیاد رکھی اور جب انڈین فوج نے رائل انفیلڈ بلٹ خریدنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے اسی کمپنی کے ساتھ یہ سودا کیا۔اب اگرچہ 250 سی سی کمیاب ہے لیکن 350 سی سی اور 500 سی سی اب بھی سکہ رائج الوقت ہے۔ (فائل فوٹو: ہندوستان ٹائمز)انڈیا کے پہلے وزیراعظم جواہر لعل نہرو کی قیادت میں حکومت انتہائی کفایت شعاری سے کام کر رہی تھی، اور وہ یہ چاہتی تھی انڈین فوج کو موٹر سائیکلیں مناسب قیمت پر مل جائیں۔نہرو خاص طور پر ان چیزوں کی تلاش میں تھے جنہیں مقامی طور پر تیار کیا جا سکے تاکہ اس پر بعد میں ’میڈ ان انڈیا‘ کا لیبل لگ سکے۔ نہرو حکومت کا خیال تھا کہ اس سے ملک میں صنعت کاری کو جڑ پکڑنے کا موقع ملے گا۔چنانچہ برطانوی مینوفیکچرر نے انڈین حکومت کی شرائط و ضوابط سے اتفاق کیا اور 350 سی سی فور سٹروک رائل انفیلڈ بلٹ کا سودا ہو گیا۔اور یہ دیکھا گیا کہ سنہ 1957 تک انڈیا نے اس کے پرزے بنانے کی اجازت حاصل کر لی اور سنہ 1962 میں رائل انفیلڈ بلٹ انڈیا میں تیار ہونے لگی۔یہی نہیں انڈیا میں اس کی پروڈکشن کاسٹ کم ہونے کی وجہ سے سنہ 1977 سے اسے انڈیا سے انگلینڈ اور یورپ برآمد کیا جانے لگا۔ یہ کلاسک موٹر سائیکل میں دلچسپی رکھنے والوں میں نہایت مقبول ہوئی۔پھر وہ زمانہ آیا جب رائل انفیلڈ کے بجائے اس کے مالکانہ حقوق ایشر موٹرز نے لے لیے، اور اس نے اس بھاری بھرکم موٹر سائیکل کے وزن کو کم کرنے اور اس کی فیول کی اوسط کو بڑھانے پر کام کیا۔انڈیا میں کم سی سی کی بہت ساری موٹر سائیکلیں لانچ ہوئی ہیں جن میں ڈیزائن کے ساتھ ساتھ فیول کی اوسط پر سب سے زیادہ زور دیا جا رہا ہے۔لیکن اگر ہارس پاور اور سی سی کی بات کی جائے تو انڈین مارکیٹ میں 350 سی سی کے زمرے میں آنے والی تمام موٹر سائیکلوں میں رائل انفیلڈ کا 88 فیصد شیئر ہے اور اگر 500 سے 800 سی سی کی موٹر سائیکلوں کی بات کی جائے تو اس زمرے میں ان کی مکمل اجارہ داری ہے یعنی 96 فیصد مارکیٹ پر قبضہ ہے۔ایشر موٹرز نے ’بلٹ‘ کا وزن کم کرنے اور اس کی فیول کی اوسط کو بڑھانے پر کام کیا۔ (فائل فوٹو: بائیک دیکھ لو)خیال رہے کہ انڈیا میں سب سے زیادہ موٹر سائیکلیں خریدی جاتی ہیں اور عالمی فروخت میں انڈیا کا 40 فیصد حصہ ہے۔ انڈیا میں ’بلٹ‘ کا بنیادی ماڈل دو لاکھ روپے میں دستیاب ہے جبکہ دوسرے ماڈلز کی قیمت مختلف ہے۔ پاکستان میں بھی یہ موٹر بائیک بہت مقبول رہی ہے لیکن اسے رائل انفیلڈ کے ذریعے ہی فراہم کرایا گیا ہے۔