انڈین فصائیہ کے ’اُڑتے ہوئے تابوت‘ مِگ 21 کے پہلے پائلٹ کی کہانی: ’ہر حادثہ سیکھنے کا موقع بنا‘


انڈین فضائیہ اپنے سب سے پرانے جنگی جہاز مگ 21 کو آج (26 ستمبر 2025) کو چندی گڑھ ایئربیس پر باضابطہ طور پر ریٹائر کر رہی ہے۔ یہ وہی لڑاکا طیارہ ہے جس نے گذشتہ چھ دہائیوں سے انڈیا کے آسمانوں کی حفاظت کی اور کئی جنگوں میں اہم کردار ادا کیا۔جہاں حالیہ دنوں میں مگ 21 کے حادثات کی خبریں آتی رہی ہیں وہیں یہ لڑاکا طیارہ مشکل وقت میں بہادری اور مشن کی کئی داستانوں سے بھی جڑا ہوا ہے۔انڈین فضائیہ کے سابق ائیر مارشل (ریٹائرڈ) برجیش دھر جیال کا انڈیا کے مگ 21 کی کہانی سے خاص تعلق ہے۔برجیش دھرجیال ان آٹھ پائلٹوں میں شامل تھے جنھیں انڈیا میں اس سپرسونک ہوائی جہاز کو سب سے پہلے اڑانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا۔ ان میں سے صرف دو پائلٹ آج زندہ ہیں جن میں سے ایک برجیش دھر جیال ہیں اور دوسرے اے کے سین ہیں۔برجیش دھرجیال انڈیا کی ریاست اتر کھنڈ کے شہر دہرادون میں رہتے ہیں اور 27 ستمبر کو وہ اپنی 90 سالگرہ منائیں گے۔ بی بی سی ہندی کے ساتھ ایک خصوصی انٹرویو میں برجیش دھر جیال نے اپنے تجربات شیئر کیے اور مگ 21 کی پہلی پرواز سے لے کر حادثات سے سیکھے گئے اسباق تک سب کچھ بتایا۔سوویت یونین میں تربیت اور پہلی پرواز1960 کی دہائی کے اوائل میں انڈین فضائیہ ایک اہم موڑ پر تھی۔ برجیش دھرجیال بتاتے ہیں کہ جب انڈیا نے مگ 21 کو اپنے فضائی بیڑے میں ڈالنے کا فیصلہ کیا تو اس کے لیے انھیں اور ان کے ساتھیوں کو تربیت کے لیے سوویت یونین بھیجا گیا۔ اس وقت برجیش دھرکی عمر صرف 27 سال تھی۔انڈیا سے کل آٹھ پائلٹ روس پہنچے لیکن ایک کو طبی وجوہات کی بنا پر واپس انڈیا جانا پڑا۔ اس طرح سات پائلٹوں کو پہلی بار روس میں مگ 21 اڑانے کا موقع ملا۔برجیش جیال کے علاوہ اس ٹیم میں ونگ کمانڈر دلباغ سنگھ، سکواڈرن لیڈر ایم ایس ڈی وولن، ایس کے مہرا، اور فلائٹ لیفٹیننٹ اے کے مکھرجی، ایچ ایس گل، اے کے سین، اور ڈی کیلر شامل تھے۔ اس گروپ نے سوویت یونین میں چار ماہ تک تربیت حاصل کی۔جب برجیش دھرجیال نے پہلی بار 11 جنوری 1963 کو لوگوایا ایئر بیس پر فلائٹ لیفٹیننٹ کے طور پر مگ 21 کے کاک پٹ میں قدم رکھا تو ان کے لیے ایک مشکل لمحہ درپیش تھا۔ اس کی وضاحت میں انھوں نے کہا کہ ’کاک پٹ میں موجود تمام میٹر، تمام ڈائل اور ریڈیو مواصلات روسی زبان میں تھے۔‘جیال کے مطابق انھوں نے ڈیڑھ ماہ تک کلاس روم کی تربیت حاصل کی جس میں روسی زبان سے واقفیت بھی شامل تھی۔ کلاس روم میں صرف نظام اور اصول سکھائے جاتے تھے۔جیال کا کہنا ہے کہ ’ہمیں ہر ایک سسٹم کی تفصیلات سے آگاہ کیا گیا۔ یہ طریقہ بعد میں انڈیا کی فضائیہ نے بھی اپنایا۔‘برجیش دھر نے ماضی کی یادوں سے ایک واقعہ مسکراتے ہوئے سنایا۔ ’ہمارا بیرونی دنیا سے تقریباً کوئی رابطہ نہیں تھا۔ ہمیں چین کی جنگ کی خبر اس وقت ملی جب ایک سوویت افسر نے بات چیت میں اچانک اس کا ذکر کیا۔ ’جس کے بعد ہمیں انڈیا کی خبریں جاننے کے لیے ایک ریڈیو فراہم کیا گیا جس میں ہم صرف ریڈیو جالندھر ہی سن سکتے تھے۔‘رن وے پر وہ اہم فیصلہبرجیش دھرجیال کو آج بھی سوویت یونین کی تربیت کے دنوں کا ایک انوکھا واقعہ یاد ہے۔انھوں نے بتایا کہ ایک دن وہ لینڈنگ کے راستے پر تھے کہ اچانک ایک سوویت فوجی نے رن وے عبور کرنا شروع کر دیا۔اس کے بعد رن وے کے پاس بیٹھے روسی کرنل کے بار بار انکار کے باوجود انھوں نے فوری طورپر فوری واپس گھومنے کا فیصلہ کیا۔’بعد میں مجھے بریفنگ میں سرزنش کی گئی لیکن میرے سی او دلباغ اور ساتھی پائلٹس نے کہا کہ میرا فیصلہ بالکل درست تھا۔ اگر میں گو راؤنڈ نہ کرتا تو تصادم ہوتا۔ ہمیں 200 فٹ سے نیچے گو راؤنڈ نہ کرنے کی تعلیم دی گئی تھی، لیکن اس وقت جان بچانا زیادہ اہم تھا۔‘سکواڈرن کی بنیاد اور ابتدائی تنازعاتجنوری 1963 میں امبالہ میں 28 سکواڈرن کا قیام انڈین فضائیہ کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ تھا۔اس سکواڈرن کو انڈیا کا پہلا سپرسونک سکواڈرن کہا جاتا ہے کیونکہ یہ مگ 21 سے لیس پہلا سکواڈرن تھا۔جیال سکواڈرن کے شریک بانیوں میں سے ایک تھے۔ ابتدائی مہینوں میں پائلٹس اور انجینئرز کے پاس وسائل محدود ہوتے تھے۔جن حالات میں اس سپر سونک طیارے نے یہاں قدم رکھا اس وقت چندی گڑھ میں ہینگرز چھوٹے تھے جہاں عمومی سائز کے جہاز کھڑے ہوتے تھے تاہم پروازوں کا سلسلہ جاری رہا۔ برجیش دھرجیال کی جولائی 1963 کی لاگ بک میں اس لڑاکا طیارے میں 18 پروازیں درج ہیں۔اور پھر ایک دن پہلے چھ مگ 21 طیاروں کو روسی انجینئرز نے سمندری جہاز کے ذریعے ممبئی کی بندرگاہ پر جمع کیا اور آزمائشی پروازوں کے بعد انڈین پائلٹوں کے حوالے کر دیا۔انھیں ممبئی سے آگرہ اور پھر چندی گڑھ تک اڑانا انڈین فضائیہ کے لیے ایک نئی شروعات تھی۔22 اپریل 1963 کو برجیش دھرجیال نے پہلی بار سانتا کروز (ممبئی) سے مگ 21 کی اڑان بھری۔ پھر 26 اپریل 1963 کو وہ سانتا کروز سے چنڈی گڑھ کے راستے آگرہ گئے۔ برجیش دھرجیال کے مطابق ’یہ میرے لیے ایک نئے تعلق کی شروعات تھی۔‘’ریڑھ کی ہڈی‘ سے ’اڑتے تابوت‘ کے لقب تک: مگ-21 لڑاکا طیاروں کی ریٹائرمنٹ اور انڈین فضائیہ کو جنگی جہازوں کی غیر معمولی کمی کا سامناجب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روسی لڑاکا طیارہ مگ-21 چرایامگ 21: انڈین ایئرفورس میں ’ریڑھ کی ہڈی‘ جیسی حیثیت سے ’اڑتے تابوت‘ کے خطاب تک’آپریشن مہادیو‘: انڈین سکیورٹی فورسز پہلگام کے مبینہ پاکستانی حملہ آوروں تک کیسے پہنچیں؟پریشر سوٹ، حادثات اور سیکھے گئے سبقمگ 21 کو اڑانے کے ابتدائی مہینوں کے دوران پائلٹوں کو پریشر سوٹ پہننے کی ضرورت تھی۔ جیال نے یاد کرتے ہوئے بتایا کہ انڈیا کے موسم گرما میں گھومنے پھرنے کے دوران پریشر سوٹ پہننا انتہائی غیر آرام دہ تھا۔جیال نے ہندوستانی ایروناٹکس لمیٹڈ (HAL) ناسک میں ٹیسٹ پائلٹ کے طور پر ساڑھے تین سال تک کام کیا۔ہر نئے مگ طیارے کو آزمائشی پرواز سے گزرنا پڑتا تھا۔ ہر فلائٹ میں پریشر سوٹ پہننا پڑتا تھا۔ انھوں نے بتایا کہ ’ یہ انتہائی غیر آرام دہ تھا، لیکن یہ کام کا حصہ تھا۔‘1963 میں یوم جمہوریہ فلائی پاسٹ کی مشق کے دوران جے پور میں دو طیاروں کے تصادم نے سب کو چونکا دیا۔سکواڈرن لیڈر ایم ایس ڈی وولان اور فلائٹ لیفٹیننٹ اے کے مکھرجی جہاز میں سوار تھے تاہم دونوں اس حادثے میں بچ گئے۔اس کے بعد پریشر سوٹ کا استعمال صرف اونچائی اور تیز رفتار پروازوں تک محدود کیا گیا۔جیال کہتے ہیں کہ ’اس سے آپریشنل لچک اور آرام کی سطح میں نمایاں بہتری آئی ہے۔‘جیال کا کہنا ہے کہ ان کے لیے کہ ہر حادثہ ایک سیکھنے کا تجربہ تھا جس نے آپریشنل سیفٹی کو مزید بہتر کیا۔مگ 21 سے جڑے مفروضے، جنگیں اور یادیںپچھلے کچھ سالوں میں مگ 21 کے پے درپے حادثات کی تعداد کی وجہ سے اسے ’اڑتا ہوا تابوت‘ کہا جاتا ہے۔انڈین میڈیا رپورٹس کے مطابق 1972 سے اب تک مگ 21 تقریباً 400 حادثات میں ملوث رہا ہے۔2012 میں انڈیا کے اس وقت کے وزیر دفاع اے کے انتونی نے پارلیمنٹ میں بیان دیا تھا کہ روس سے خریدے گئے 872 مگ 21 طیاروں میں سے نصف گر کر تباہ ہو چکے ہیں۔جیال اس مگ 21 پر لگنے والے حادثات کی چھاپ سے متفق نہیں اور اسے وہ محض ایک غلط فہمی قرار دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ ’مگ 21 نے انڈیا کے لیے ڈھال کا کام کیا۔ یہ ایک شاندار مشین تھی جس نے ہر بار اپنی صلاحیتوں کو ثابت کیا۔ میں نے اس طیارے کو ہر مرحلے میں دیکھا - ایک ہتھیار کے نظام کے طور پر تیار ہوتا ہوا مگ 21 دنیا کے بہترین پائلٹوں کے ہاتھوں میں اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا گیا۔‘اپنی کئی دہائیوں کی سروس اور 1,685 پروازوں کے بعد جب جیال نے آخری بار مگ 21 کو دیکھا تو یہ صرف ایک طیارہ ہی نہیں تھا بلکہ ان کی زندگی کا ایک حصہ تھا۔’میری محنت، میری لگن، سب کچھ مگ 21 سے جڑا ہوا ہے۔ یہ ایک اچھی مشین تھی۔‘جیال نے آخری بار 18 نومبر 1992 کو جودھ پور میں مگ 21 اڑایا تھا جب وہ ساؤتھ ویسٹرن کمانڈ کے ایئر آفیسر کمانڈنگ ان چیف تھے۔2002 میں جب پی اے سی کی رپورٹ میں اس عظیم ورک ہارس پر تنقید کی گئی تو جیال نے 20 اپریل 2002 کو انگریزی اخبار ٹیلی گراف میں ’گوٹ دا رونگ برڈ‘ (Got the Wrong Bird) کے عنوان سے ایک مضمون لکھا۔اس آرٹیکل میں انھوں نے مگ 21 کی تعریف کرتے ہوئے لکھا کہ ’مگ 21 کے فلائٹ سیفٹی کے مسائل اور حل اچھی طرح سے معلوم اور دستاویزی ہیں۔ صرف انتظامی عزم کی کمی ہے۔ مگ 21 کو قربانی کا بکرا بنانا، بدقسمتی سے مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘مگ 21 فخر اور اعزاز کی علامت مگ 21 کی سب سے بڑی پہچان اس کی رفتار تھی۔ اس نے آواز کی دوگنی رفتار سے پرواز کی جس سے انڈین فضائیہ کو ایک نئی بلندیاں ملیں۔ برجیش دھرجیال کے مطابق ’اس کے ساتھ میرا رشتہ سنسنی خیز تجربات سے بھرا ہوا تھا۔ ’رات کو ٹیک آف کے بعد انجن کا بند ہونا، 15 کلومیٹر کی اونچائی پر شعلہ نکلنا، نئے ہتھیاروں کی جانچ۔ یہ سب ہمارے بچوں اور پوتے پوتیوں کو سنانے کے لیے کہانیاں ہیں۔‘برجیش جیال کہتے ہیں کہ ’میں نے فضائیہ میں جو کچھ بھی کیا، پوری لگن کے ساتھ کیا۔ انڈین فضائیہ نے مجھے جو کچھ دیا میں اس کا شکرگزار ہوں۔ ہمیں ہمیشہ یہ سمجھنا چاہیے کہ جو بھی ہماری طرف دیکھے گا وہ ہم سے تحریک لے گا اور اپنے جونیئرز کے لیے مثال بنے گا۔ اس عمل سے ملک اور فوج مضبوط ہوتی ہے۔‘مگ 21 کو لے کر بھلے ہی تنازع اور تنقید ہوئی ہو، لیکن ایئر مارشل (ریٹائرڈ) برجیش دھر جیال کی نظر میں یہ طیارہ فخر اور اعزاز کی علامت ہے۔’ریڑھ کی ہڈی‘ سے ’اڑتے تابوت‘ کے لقب تک: مگ-21 لڑاکا طیاروں کی ریٹائرمنٹ اور انڈین فضائیہ کو جنگی جہازوں کی غیر معمولی کمی کا سامناجب اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے روسی لڑاکا طیارہ مگ-21 چرایامگ 21: انڈین ایئرفورس میں ’ریڑھ کی ہڈی‘ جیسی حیثیت سے ’اڑتے تابوت‘ کے خطاب تک’آپریشن مہادیو‘: انڈین سکیورٹی فورسز پہلگام کے مبینہ پاکستانی حملہ آوروں تک کیسے پہنچیں؟رفال بمقابلہ جے 10 سی: پاکستانی اور انڈین جنگی طیاروں کی وہ ’ڈاگ فائٹ‘ جس پر دنیا بھر کی نظریں ہیںپاکستان میں گرایا گیا اسرائیلی ساختہ ہروپ ڈرون کیا ہے اور فضا میں اس کی نشاندہی کرنا مشکل کیوں ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

سابق صدر سے مستقبل کے قیدی: سرکوزی کو معمر قذافی سے ’پیسے لینے‘ پر سزا جس پر فرانس منقسم ہے

انڈین فضائیہ کے ’اُڑتے ہوئے تابوت‘ مِگ 21 کے پہلے پائلٹ کی کہانی: ’ہر حادثہ سیکھنے کا موقع بنا‘

انڈین فصائیہ کے ’اُڑتے ہوئے تابوت‘ مِگ 21 کے پہلے پائلٹ کی کہانی: ’ہر حادثہ سیکھنے کا موقع بنا‘

سونم وانگچک: ماضی میں مودی کی تعریف کرنے والے سماجی کارکن جنھیں لداخ میں مظاہروں کے بعد گرفتار کیا گیا

وزیراعظم شہباز شریف آج شام اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے

لاپتہ شخص کے خاندان کو 50 لاکھ روپے منتقل مگر آئی ایس آئی کے افسران عدالت طلب: ’پیسہ جان کا نعم البدل نہیں‘

پاک امریکا تعلقات نئی راہ پر، وزیراعظم اور فیلڈ مارشل کی ٹرمپ سے ون آن ون گفتگو

غزہ میں جنگ کے بعد عبوری قیادت کے لیے سابق برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر کے نام پر غور

اسلام آباد اور خیبر پختونخوا میں زلزلے کے جھٹکے.. شدت کیا تھی؟

زبیر بلوچ: دالبندین میں ’سکیورٹی فورسز کے آپریشن‘ میں مارے جانے والے وکیل کون تھے؟

شہباز شریف اور عاصم منیر سے ملاقات کے دوران ٹرمپ کے کوٹ پر لگی ’لڑاکا طیارے کی پن‘ سے جڑے سوال اور جواب

سندھ کابینہ میں رد و بدل، ناصر حسین شاہ پر قسمت کی دیوی پھر مہربان

’ہائبرڈ نظام کی کامیابی‘: ڈونلڈ ٹرمپ کی وزیراعظم شہباز شریف اور آرمی چیف عاصم منیر سے ملاقات میں کیا ہوا؟

وزیرِ اعلیٰ نے شہر قائد کی بوسیدہ سڑکوں کا نوٹس لے ہی لیا، میئر کو اہم ہدایات

شاہین آفریدی کا پہلے سے زیادہ ’خطرناک ورژن‘ اور بنگلہ دیش کے خلاف ’معجزاتی‘ جیت

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی