
Getty Imagesسونم وانگچک کئی بار لداخ کے حقوق کے لیے بھوک ہڑتال کر چکے ہیںانڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کے مشرقی خطے لداخ میں پُرتشدد مظاہروں کے بعد پولیس نے معروف سماجی کارکن سونم وانگچک کو گرفتار کر لیا ہے۔جمعے کو لیہہ پولیس نے بتایا کہ انھیں انڈیا کے نیشنل سکیورٹی ایکٹ کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔لداخ میں پرتشدد مظاہروں کے دوران شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد گذشتہ کئی روز سے کشیدگی ہے۔ انڈین وزارت داخلہ نے ایک بیان میں لداخ میں پھیلی کشیدگی کے لیے سونم وانگچک کو براہ راست ذمہ دار قرار دیا تھا۔ان کی کئی انجمنوں کے بینک کھاتوں کی چھان بین کی جا رہی ہے اور ان کی ایک این جی او کے ذریعے غیر ملکی عطیات لینے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔حکومت نے کسی ملک کا نام لیے بغیر سینٹرل بیورو آف انویسٹگیشن کو ہدایت دی ہے کہ لداخ میں ہوئے تشدد کے پیچھے غیر ملکی ہاتھ ہونے کے امکان کا پتہ لگائے۔اپنی گرفتاری سے قبل سونم وانگچک نے کہا تھا کہ وہ جیل جانے کے لیے تیار ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ 'وعدہ کر کے بھُول جانا جرم نہیں ہے مگر وعدہ یاد دلانا جرم ہے۔'سماجی کارکن سونم وانگچک کون ہیں؟2019 میں آرٹیکل 370 کے خاتمے سے قبل سونم وانگچک اکثر سوشل میڈیا پر انڈین وزیراعظم نریندر مودی کی خوب تعریفیں کرتے تھے۔لیکن کشمیر کو نیم خودمختاری اور دیگر آئینی گارنٹیز دینے والی یہ دفعہ جب 2019 میں آئین سے خارج کر کے لداخ کو علیحدہ یونین ٹیریٹری (یو ٹی) بنایا گیا تو سونم نے سب سے پہلے مودی کا شکریہ ادا کیا اور اس قدم کو لداخیوں کے دیرینہ خواب کی تعبیر قرار دیا۔تاہم دو برس سے بھی کم مدت کے بعد لداخ میں سونم نے ایک مہم چھیڑ دی جس میں لداخ کو باقاعدہ ریاست کا درجہ دینے اور انڈین آئین کے چھٹے شیڈول کو نافذ کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔انھوں نے کئی بار برفباری اور ٹھٹھرتی سردی کے دوران بھوک ہڑتال کی لیکن جب بات نہ بنی تو وہ گذشتہ برس اپنے ساتھیوں کے ہمراہ لداخ سے مارچ کرتے ہوئے نئی دلّی پہنچے۔ تاہم انھیں دلّی کی سرحد پر حراست میں لیا گیا۔بعد میں انڈین وزارت نے سونم کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک اعلیٰ اختیاراتی کمیٹی تشکیل دی جس نے کئی بار ان کے ساتھ بات چیت کی جو کسی نتیجہ پر نہیں پہنچی۔حکومت نے مذاکرات کے اگلے راؤنڈ کا اعلان بھی کیا جو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں طے ہے۔ لیکن سونم نے ستمبر میں ہی مذاکرات کا اصرار کیا اور حکومت کو اپنے وعدے یاد دلانے کے لیے لداخ میں بھوک ہڑتال شروع کر دی جس کے دوران نوجوان مشتعل ہوگئے اور تشدد بھڑک اُٹھا۔Getty Imagesسونم وانگچک نے لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں کی طرح لداخ کی زمین اور نوکریوں کو فقط لداخیوں کے لیے مخصوص کرنے کی مطالباتی مہم شروع کی تھینو زبانیں جاننے والے سونم وانگچک یہاں تک کیسے پہنچے؟59 سالہ سونم وانگچک لداخ کے اُلٹیک پو گاوٴں میں سونم وانگیال اور ژیرنگ وانگیال کے گھر پیدا ہوئے۔لیہہ میں اُن دنوں گِنے چنے سکول ہی تھے اور وہ ان کے گاوٴں سے کافی دور تھے۔ لہذا اُنھیں 9 سال تک اپنی ماں نے ہی لداخی زبان میں بنیادی تعلیم دی۔بعد میں وہ سرینگر آئے اور یہاں کے نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی سے انجینیئرنگ کی ڈگری لی۔لداخ واپس پہنچنے پر وانگچک نے بچوں کو لداخی زبان میں ریاضی اور سائنس پڑھانا شروع کیا۔ انھوں نے ماحولیات اور تعلیم کے شعبے میں کئی مہمات چلائیں۔ ان کی شادی ایک اور رضاکار اور سائنسدان گیتانجلی انگمو کے ساتھ ہوئی۔دونوں نے مل کر 'ہمالین انسٹی ٹیوٹ آف الٹرنیٹیوز' نامی این جی او بنائی اور لوگوں میں ماحولیاتی بیداری کے لیے کام کیا۔کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ برقرار، پاکستان نے انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیاآرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کرنے والی نیشنل کانفرنس کو برتری: کیا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مودی کا بیانیہ ہار گیا؟پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟اِنّوویٹر سے ایجیٹیٹر تکسونم وانگچک کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ وہ اختراعی ذہن کے مالک ہیں۔ انھوں نے اپنے لیے مٹی، گھاس اور پتھروں کا ایسا گھر بنایا ہے جو 'منفی 30 ڈگری سیلسیئس کے درجہ حرارت میں بھی گرم رہتا ہے۔'اس دوران وہ سخت ترین سردیوں کے دوران لداخ میں پانی کی قلّت پر سوچنے لگے۔ انھوں نے بودھوں کے روایتی سٹوپ کو اس طرح ڈیزائن کیا کہ اُس میں منفی درجہ حرارت کے دوران بھی پانی دستیاب رہتا تھا جو گھریلو اور زرعی سرگرمیوں میں کام آتا تھا۔اس اختراع (اِنّوویشن) کے لیے انھیں عالمی اعزاز 'رومن میگ سے سے' سے بھی نوازا گیا۔سیاست سونم کے لیے کوئی اجنبی میدان نہیں تھا۔ ان کے والد سونم وانگیال ایک سیاستدان تھے جو کشمیر کی حکومت میں وزیر بھی رہ چکے ہیں۔انھوں نے تعلیم اور ماحولیات کے شعبوں میں کئی سال تک سرگرم رہنے کے بعد سیاسی امور میں دلچسپی لینا شروع کی۔ چنانچہ انھوں نے آرٹیکل 370 کی منسوخی اور لداخ کو مرکزی انتظام والا خطہ بنائے جانے کے بعد لداخیوں کے حقوق اور ماحولیات کے تحفظ کے لیے مہم شروع کی جو ابھی بھی جاری ہے۔چونکہ لداخ میں اکثریت قبائلی آبادی کی ہے، وانگچک نے لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کے ساتھ ساتھ انڈیا کی شمال مشرقی ریاستوں کی طرح لداخ کی زمین اور نوکریوں کو فقط لداخیوں کے لیے مخصوص کرنے کی مطالباتی مہم شروع کی۔انھوں نے 24 ستمبر کو ہوئے تشدد سے قبل بھوک ہڑتال کے دوران لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا تھا کہ 'جس طرح جین زی بنگلہ دیش، سری لنکا اور نیپال میں تبدیلی لائی ہے، لداخ کے نوجوان بھی اسی طرح تبدیلی لائیں گے۔'Reutersمظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں چار افراد ہلاک ہوئے ہیں’مجھے جیل بھیجا تو مسئلہ بنے گا‘انڈین وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ سونم وانگچک کے بیانات سے نوجوان تشدد پر آمادہ ہوئے اور انھوں نے سرکاری عمارتوں، بی جے پی کے دفتر اور دیگر املاک میں توڑ پھوڑ کی اور پولیس کی ایک گاڑی کو نذرآتش کیا۔وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ 'سونم نے نوجوانوں کو مشتعل کیا اور جب تشدد ہوا تو حالات کو سدھارنے کی بجائے ایمبولینس میں اپنے گاوٴں بھاگ گئے۔'حکومت نے ان کی ایک اور انجمن 'سٹوڈنٹس ایجوکیشنل اینڈ کلچرل مومنٹ آف لداخ' یا سیکمول پر مالی بے ضابگیوں کا الزام عائد کرتے ہوئے، اس کو ملنے والی غیرملکی عطیات پر فوری پابندی کا اعلان کیا ہے۔یہ پاپندی فارن کنٹریبیوشن ریگولیشن ایکٹ یا ایف سی آر اے کے تحت نافذ کی گئی ہے۔اس کے جواب میں وانگچک نے انڈین ٹی وی چینل این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ 'وعدہ کر کے بھُول جانا جرم نہیں ہے، مگر وعدہ یاد دلانا جرم ہے۔'میں جیل جانے کے لیے تیار ہوں۔ اگر وانگچک اس وقت لوگوں کے بیچ رہنے اور مذاکرات کرنے کی وجہ سے مسئلہ بنا ہوا ہے تو جیل میں رہنے والا سونم وانگچک بھی پرابلم بنے گا کیونکہ میری قید لوگوں کو مشتعل کرسکتی ہے۔'لداخ میں پُرتشدد مظاہرے کیوں ہوئے؟گذشتہ دنوں لداخ کو مکمل ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین اور پولیس کے درمیان جھڑپوں میں چار افراد ہلاک اور کم از کم 59 افراد زخمی ہوئے جس کے بعد انڈین سکیورٹی فورسز نے لیہہ میں کرفیو نافذ کیا۔ پرتشدد واقعات میں زخمی ہونے والوں میں درجنوں پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔ان مظاہروں کو 1989 کے بعد لداخ میں ہونے والے سب سے پرتشدد مظاہرے کہا جا رہا ہے۔ کم از کم چھ زخمیوں کی حالت تشویشناک ہونے کے باعث ہلاکتوں میں اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔یہ احتجاج وفاق کے زیر انتظام علاقے میں جاری ایک بڑی تحریک کا حصہ ہیں، جو زمین اور زرعی فیصلوں پر خود مختاری حاصل کرنے کے لیے انڈین حکومت سے لداخ کو ریاست کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔انڈیا کی مرکزی حکومت نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ کچھ لوگ لداخ کے لوگوں کے ساتھ مکمل ریاست کا درجہ دینے اور چھٹے شیڈول کی توسیع پر ہونے والے مذاکرات کی پیش رفت سے خوش نہیں اور اس میں رکاوٹیں ڈال رہے ہیں۔حکومت نے ان پرتشدد کارروائیوں کا الزام احتجاج کی قیادت کرنے والے سماجی کارکن سونم وانگچک پرعائد کیا، تاہم سونم اس الزام کی سختی سے تردید کررہے ہیں۔ سرکاری اہلکاروں نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر بھر میں بڑی تعداد میں تعینات پولیس اور نیم فوجی دستوں نے آنسو گیس کے شیلز استعمال کیے۔لداخ کی ایک تنظیم کے یوتھ ونگ نے منگل کی شام 10 ستمبر سے بھوک ہڑتال کرنے والے 15 افراد میں سے دو کی حالت خراب ہونے کے بعد احتجاج کی کال دی تھی۔بدھ کے روز نوجوانوں کے ایک گروہ کی جانب سے لداخ کے دارالحکومت لیہہ کو بند کرنے کی کال کے جواب میں سینکڑوں افراد سڑکوں پر نکل آئے جن میں سے بعض مظاہرین نے توڑ پھوڑ کی۔اس کے بعد مظاہرین نے مرکز میں برسرِ اقتداربھارتی جنتا پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کو نشانہ بنایا اور متعدد گاڑیوں کو بھی نذرِ آتش کر دیا۔ جوں جوں وقت گزرا، کالے دھوئیں کے بادل اور آگ کے شعلے دور سے دکھائی دینے لگے۔Getty Imagesمظاہرین نے بھارتی جنتا پارٹی کے ہیڈ کوارٹر کو بھی نشانہ بنایاخبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق حکام کا کہنا ہے کہ ’صورتحال پر قابو پانے کے لیے شہر بھر میں بڑی تعداد میں تعینات پولیس اور نیم فوجی دستوں نے آنسو گیس کی شیلنگ کی۔‘لیفٹیننٹ گورنر کویندر گپتا نے ان واقعات کو ’دل دہلا دینے والا‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ آج جو کچھ ہوا وہ اچانک نہیں ہوا بلکہ ایک سازش کا نتیجہ ہے۔انھوں نے کہا کہ ہم یہاں کا ماحول خراب کرنے والوں کو نہیں چھوڑیں گے۔انھوں نے گذشتہ واقعات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’لداخ میں اس سے قبل 27 اگست 1989 کو بڑے پیمانے پر اس وقت پرتشدد واقعات ہوئے جب یونین ٹیریٹری کا درجہ مانگنے والی تحریک کے دوران پولیس کی فائرنگ میں تین افراد مارے گئے تھے۔‘لداخ میں ہونے والے مظاہروں کے حوالے سے احتجاجی مظاہرین کے چار مطالبات ہیں: لداخ کو ریاست کا درجہ دیناچھٹے شیڈول میں توسیع لیہہ اور کارگل کے لیے لوک سبھا میں الگ نشستیںملازمتوں کا حصول یاد رہے کہ لداخ کی آبادی تقریباً تین لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور اس کی سرحدیں چین اور پاکستان سے ملتی ہیں۔تشدد کی لپیٹ میں آنے والے علاقے لیہہ میں بدھ برادری کی اکثریت ہے جو کئی دہائیوں سے اپنے لوگوں کے لیے الگ علاقے کا مطالبہ کر رہے ہے۔دوسری جانب مسلم اکثریتی ضلع کارگل تاریخی طور پر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ساتھ ضم ہونا چاہتا تھا۔لیکن 2019 کے بعد سے دونوں کمیونٹیز ایک ساتھ مل کر لداخ کے لیے ریاستی حیثیت کی بحالی کے ساتھ ساتھ زیادہ خودمختاری کا مطالبہ کرتی ہیں جس سے انھیں ملازمتوں اور رہائش کے لیے زمین کا کوٹہ ملے گا۔تشدد کو دیکھ کر سونم وانگچک نے اپنی بھوک ہڑتال ختم کرنے کا اعلان کیا اور نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ توڑ پھوڑ میں ملوث نہ ہوں۔انھوں نے کہا کہ ’نوجوانوں کو تشدد بند کرنا چاہیے کیونکہ اس سے ہماری تحریک کو نقصان پہنچتا ہے اور حالات خراب ہوتے ہیں۔‘وانگچک نے کہا کہ ’یہ لداخ کے لیے اور ذاتی طور پر میرے لیے سب سے افسوسناک دن ہے۔ کیونکہ ہم گذشتہ پانچ سالوں سے جس راستے پر چل رہے ہیں وہ پرامن ہے۔‘آرٹیکل 370 کی بحالی کا وعدہ کرنے والی نیشنل کانفرنس کو برتری: کیا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں مودی کا بیانیہ ہار گیا؟آرٹیکل 370 تھا کیا اور اس کے خاتمے سے کیا بدلے گا؟کیا انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر کی سیاست سے پاکستانی فیکٹر ختم ہو گیا ہے؟کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 کا خاتمہ برقرار، پاکستان نے انڈین سپریم کورٹ کے فیصلے کو مسترد کر دیاانڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں ’امن‘ کے حکومتی دعوے پر کشمیری خود کیا کہتے ہیں؟پہلگام حملہ: عسکریت پسندوں نے انڈین حکومت کے ’ڈارلِنگ ڈیپارٹمنٹ‘ پر حملہ کیوں کیا؟