
Getty Imagesمسئلہ نہ تو بابر اعظم کی تکنیک کا ہے نہ ہی سپن کے خلاف انھیں کوئی نفسیاتی الجھن دامن گیر ہے، مسئلہ صرف اس لچک کا ہے جو پچھلے دو برس کے ہنگاموں میں کہیں گم ہو گئی1990 کی دہائی میں جب شین وارن اور مرلی دھرن دنیا بھر کے بلے بازوں کے لیے معمہ بنے رہتے تھے، تب اگر کوئی بلے باز ان دونوں جادوگروں کو دھول چٹاتا تھا تو وہ کرکٹ کے ’پرنس‘ برائن چارلس لارا تھے۔دو سال پہلے برطانوی اخبار دی ٹیلی گراف کو ایک انٹرویو میں برائن لارا نے اعتراف کیا تھا کہ شروع کی پندرہ بیس گیندوں میں وہ کبھی بھی مرلی دھرن کو پڑھ نہیں پاتے تھے مگر سویپ کھیل کھیل کر سنگل لیتے رہتے اور دھیرے دھیرے مرلی کو اتنا مایوس کر دیتے کہ وہ انھیں ان کے حال پر چھوڑ کر دوسرے کنارے سے آل آؤٹ کا سوچنے لگتے۔لارا کے ہم عصر اور بیٹنگ ساجھے دار شیو نارائن چندرپال کے مطابق لارا سپن کے خلاف خوبصورت ترین بلے باز تھے۔ جہاں سبھی بلے بازوں کا دھیان بولر کے ہاتھ سے گیند کی سپن پڑھنے تک محدود رہتا ہے، وہاں لارا فیلڈنگ کو بھی پڑھتے رہتے اور گیند کی سپن یا ڈرفٹ سے بالکل قطع نظر وہ اپنے اگلے شاٹ کے لیے اگلا ’گیپ‘ ڈھونڈ لیا کرتے۔سپن کو کھیلنا پیس کے خلاف بلے بازی سے کہیں بڑا آرٹ ہے۔ پاکستان کا المیہ مگر یہ ہے کہ عہد حاضر میں اس کا سب سے بڑا آرٹسٹ سپن پڑھنے سے چُوک جاتا ہے گو کہ پیس کے خلاف ابھی بھی بابر اعظم کی مہارت قابلِ رشک ہے۔Getty Images’گیپ‘ میں کھیلنے کے ماہر بابر اعظم اب فیلڈنگ کپتان کو کھپانے کی بجائے صرف روایتی بلے بازوں کی طرح سے روایتی شاٹس کھوجنے میں محو دکھائی دیتے ہیں۔ستم ظریفی اس المیے کی یہ ہے کہ بابر اعظم کو درپیش سپنرز کا معیار بھی دور دور تک مرلی دھرن و شین وارن سا نہیں مگر سابق پاکستانی کپتان کے قدم پھر بھی سپنرز کی اندر آتی گیند کو دیکھتے ہی ڈولنے لگتے ہیں۔سویپ شاٹ کسی بھی بلے باز کا سپن کے خلاف موثرترین ہتھیار ہوتا ہے مگر بابر اعظم کی بیٹنگ میں یہ بھی صرف ’سلاگ سویپ‘ تک ہی محدود ہے جبکہ نارمل سویپ یا ریورس سویپ سے ان کی اتنی ہی شناسائی ہے جتنی حارث رؤف کی ’کور ڈرائیو‘ سے ہو سکتی ہے۔مگر کرکٹ جیسے کھیل کی خوبصورتی یہی ہے کہ اگر کوئی بلے باز ایک شاٹ کی مہارت نہ بھی جانے تو بھی اسے کئی ایک رستے دستیاب ہوتے ہیں جہاں وہ کریز سے باہر نکل کر یا پھر کریز میں واپس پیچھے ہٹ کر اپنے لیے وہ ’روم‘ بنا سکتا ہے جہاں اسے ہاتھ کھولنے کی گنجائش مل پائے۔اپنے ابتدائی کرئیر میں بابر اعظم سپن کے علاوہ پیس سے نمٹنے کو بھی غیر روایتی طریقے اپنایا کرتے تھے۔ جہاں ان کے گھٹنوں کی لچک سٹانس کے بدلاؤ میں مددگار ہوتی تو سبک قدمی انھیں گیند کی پچ تک پہنچنے میں معاون ثابت ہوا کرتی۔کپتانی کا تنازع، ٹیم میں تقسیم یا اعتماد کا فقدان: ’توقعات کے قیدی‘ بابر اعظم کے زوال کی وجہ کیا ہے؟’بابر اعظم لیجنڈ بنتے بنتے رہ گئے‘الجھے ہوئے بابر اعظم کی فیصلہ کن موقعوں پر ’غیر یقینی‘ جو ان کے دور کپتانی کے اختتام کا باعث بن سکتی ہےسمیع چوہدری کا کالم: ’کپتان بابر اعظم کب نمودار ہوں گے؟‘مگر پچھلے دو برس جن آف فیلڈ معاملات سے وہ گزرے ہیں، اب وہ لچک نہ صرف ان کے گھٹنوں سے غائب ہو گئی بلکہ اپروچ سے بھی کچھ ماند سی ہوئی ہے۔ ’گیپ‘ میں کھیلنے کے ماہر بابر اعظم اب فیلڈنگ کپتان کو کھپانے کی بجائے صرف روایتی بلے بازوں کی طرح سے روایتی شاٹس کھوجنے میں محو دکھائی دیتے ہیں۔بھلا گلین فلپس اور مائیکل بریسویل کہاں کے سپنر ہوئے جو بابر اعظم جیسے ’کنگ‘ کی زباں بندی کر ڈالیں؟ یہیں اگر کم از کم ایڈم زیمپا، کیشو مہاراج یا عادل رشید جیسا کوئی سپنر ہوتا تو شاید بات کوئی جواز بھی ڈھونڈ پاتی مگر دو جزوقتی بولرز کے ہاتھوں پاکستان کے کل وقتی عظیم بلے باز کا یوں بے بس ہو رہنا ناقابلِ فہم ہے۔Getty Imagesجو پاپڑ اس ٹورنامنٹ کی میزبانی پانے کو پی سی بی نے بیلے ہیں اور جو روڑے اسے رکوانے کو انڈیا نے اٹکائے ہیں، وہاں اب اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ جو انڈیا سب کچھ کر کے بھی چیمپیئنز ٹرافی کو پاکستان سے نہیں نکال پایا، وہ اب پاکستان کو ہی چیمپیئنز ٹرافی سے نکال باہر کر دےصائم ایوب کی فارم نے پچھلی تین سیریز فتوحات میں پاکستانی بلے بازی کے جو سقم ڈھانپے رکھے، اب ان کی انجری نے سب آشکار کر چھوڑے ہیں۔ اب فخر زمان کی انجری نے پاکستان کے آلام اور بڑھا دیے ہیں۔مگر اب جبکہ یہ ایونٹ شروع ہو چکا اور پاکستان اپنے ٹائٹل کے دفاع میں کود چکا ہے تو اب ایسا کوئی بھی جواز لانا بجائے خود اپنی سبکی سے کم نہیں کہ اس ایونٹ کی مسابقت پاکستان سے بھی توقع کرے گی کہ وہ بھی جنوبی افریقہ، آسٹریلیا، انگلینڈ اور انڈیا ہی کی طرح اپنے اہم ترین کھلاڑیوں کی انجریز کے باوجود لڑ کر دکھائے۔جو پاپڑ اس ٹورنامنٹ کی میزبانی پانے کو پی سی بی نے بیلے ہیں اور جو روڑے اسے رکوانے کو انڈیا نے اٹکائے ہیں، وہاں اب اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو گی کہ جو انڈیا سب کچھ کر کے بھی چیمپیئنز ٹرافی کو پاکستان سے نہیں نکال پایا، وہ اب پاکستان کو ہی چیمپیئنز ٹرافی سے نکال باہر کر دے۔Getty Imagesپچھلے دو برس جن آف فیلڈ معاملات سے بابر اعظمگزرے ہیں، اب وہ لچک نہ صرف ان کے گھٹنوں سے غائب ہو گئی بلکہ اپروچ سے بھی کچھ ماند سی ہوئی ہے۔جو سپنرز انڈیا کو میسر ہیں اور جو پچ دبئی میں انھیں ملے گی، ان کا مقابلہ مائیکل بریسویل و گلین فلپس کے جز وقتی معجزوں سے کہیں زیادہ مخمصہ آمیز ہو گا۔ اندر آتی گیند بھلے وہ گگلی ہو، بھلے آف بریک، ہمیشہ بابر اعظم کے لیے دشوار رہتی ہے۔دونوں انڈین سپنرز کلدیپ یادیو اور واشنگٹن سندر گو سبھی پاکستانی بلے بازوں کا امتحان ہوں گے مگر سب سے کڑی آزمائش بابر اعظم کی ہو گی جنھیں اب نہ صرف اپنی عظمت کو نیا جنم دینا ہو گا بلکہ اپنی ٹیم کے ڈولتے امکانات کو بھی آسرا دینا ہو گا۔جس پائے کے بلے باز وہ ہیں، بابر کی جیب میں سویپ شاٹ بھلے نہ بھی ہو، وہ قدموں کے استعمال، کریز کے استعمال، سلپ کارڈن کے باہر سے ’ڈیب‘ شاٹ یا لیگ گلانس جیسے راستوں پر نہ صرف خود بارہا چل چکے ہیں بلکہ ان کی مسلمہ افادیت سے بھی واقف ہیں۔مسئلہ نہ تو بابر اعظم کی تکنیک کا ہے نہ ہی سپن کے خلاف انھیں کوئی نفسیاتی الجھن دامن گیر ہے، مسئلہ صرف اس لچک کا ہے جو پچھلے دو برس کے ہنگاموں میں کہیں گم ہو گئی لیکن اب اگر پاکستان کو ٹائٹل کی دوڑ میں باقی رہنا ہے تو بابر اعظم کو بھی اس تاریخی سٹیج پر اپنے کریئر کی بقا ڈھونڈنا ہو گی۔سابق کرکٹر کا ’چیلنج‘ اور بابر اعظم کے ایک اوور میں چار چھکےالجھے ہوئے بابر اعظم کی فیصلہ کن موقعوں پر ’غیر یقینی‘ جو ان کے دور کپتانی کے اختتام کا باعث بن سکتی ہےسمیع چوہدری کا کالم: ’کپتان بابر اعظم کب نمودار ہوں گے؟‘’بابر اعظم پی سی بی کی بھینٹ چڑھ گئے‘: سمیع چوہدری کا کالمبابر اعظم کے سر پر لٹکتی تلوار اور منصوبہ بندی کا فقدان جو پاکستان کی ورلڈکپ میں ناقص کارکردگی کی وجہ بنا’بابر اعظم لیجنڈ بنتے بنتے رہ گئے‘