
لاہور، اسلام آباد اور دیگر بڑے شہروں کے ہوائی اڈوں پر حالیہ دنوں میں متعدد پائلٹس نے لینڈنگ اور ٹیک آف کے دوران طیاروں کی وِنڈ سکرین پر لیزر لائٹس مارے جانے کی شکایت کی ہے۔ان واقعات نے ہوابازی کے عملے کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے جبکہ ایوی ایشن حکام اور سکیورٹی ادارے بھی متحرک ہو گئے ہیں۔ سول ایوی ایشن اتھارٹی سمیت دیگر متعلقہ اداروں نے سخت ایڈوائزری جاری کرتے ہوئے عوام کو متنبہ کیا ہے کہ ’لیزر لائٹس کا رُخ طیاروں کی طرف کرنا شرارت نہیں بلکہ ایک سنگین جُرم ہے۔‘’یہ عمل وقتی طور پر پائلٹس کی بینائی کو متاثر کر سکتا ہے، ان کی توجہ کو منتشر کر دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں طیارے میں موجود مسافروں، عملے اور زمین پر موجود شہریوں کی زندگی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔‘پاکستان ایئرپورٹس اتھارٹی کے حکام نے اردو نیوز سے گفتگو میں بتایا کہ ’روزانہ ہزاروں مسافر ہوائی جہازوں میں سفر کرتے ہیں اور ایسے میں انہیں بحفاظت اُن کی منزل تک پہنچانا ہماری ذمہ داری ہے۔‘حکام کا کہنا ہے کہ ’ایئرپورٹ کے اطراف جہازوں پر لیزر لائٹس مارنا خطرناک اقدام ہے کیونکہ جب ایئرپورٹ کے اطراف شعاؤں کا رُخ آسمان یا جہاز کی طرف ہو تو پائلٹ کے لیے حفاظتی اقدامات کو برقرار رکھنا دُشوار ہو جاتا ہے۔‘ پائلٹ شہزاد فتح نے بتایا کہ ’جہازوں کی آمدورفت کے دوران لیزر لائٹ کی موجودگی انتہائی خطرے کا باعث بن سکتی ہے جیسے کہ ٹیک آف یا لینڈنگ کے دوران پائلٹ کی توجہ ہٹ سکتی ہے۔‘’ایسی صورت حال میں اگر پائلٹ کو لیزر لائٹس کا سامنا کرنا پڑے گا تو اس کی وجہ سے اُس کی بینائی متاثر ہو سکتی ہے جس سے جہاز کی سیفٹی کمپرومائز ہو سکتی ہے۔‘شہزاد فتح کہتے ہیں کہ ’اس لیے طیارے پر لیزر لائٹس اور تیز روشنی ڈالنے سے گریز کریں تاکہ جہاز اور انسانی جان دونوں خطرے میں نہ پڑیں۔‘ایڈوائزری میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ یہ عمل قابل سزا جُرم ہے اور اگر کسی شخص کو اس حرکت کا مرتکب پایا گیا تو اسے قید، بھاری جُرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔خیال رہے کہ لیزر پوائنٹرز پاکستان کے مختلف شہروں میں کُھلے عام اور بغیر کسی ضابطے کے فروخت ہو رہے ہیں۔ لاہور کے حفیظ سینٹر، کراچی کے صدر بازار، راولپنڈی کے کمیٹی چوک اور فیصل آباد، ملتان و دیگر شہروں کی الیکٹرانکس مارکیٹوں میں یہ آلہ آسانی سے دستیاب ہے۔اس لیزر لائٹ کو چند سو روپوں میں بچوں کے کھلونے، پریزنٹیشن ٹُول یا تفریحی لائٹ کے طور پر بھی فروخت کیا جا رہا ہے۔ دکان دار ان پوائنٹرز کی ’لانگ رینج‘ یا ’فائر ورک لائٹ‘ کے طور پر تشہیر کرتے ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ یہ چھوٹا آلہ 500 میٹر سے زیادہ فاصلے تک تیز روشنی پھینکنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جو باآسانی فضا میں اُڑتے طیارے تک پہنچ سکتی ہے۔مارکیٹ میں دستیاب لیزر پوائنٹرز کی قیمت 200 روپے سے لے کر 2000 روپے تک ہے، اور کئی بار یہ چھوٹے بچے بھی خرید لیتے ہیں۔متعدد دکان دار بغیر کسی سوال کے بچوں کو یہ لیزر لائٹس فروخت کر دیتے ہیں۔ اکثر لوگ شوق کے لیے یا تقریبات میں استعمال کے لیے انہیں خریدتے ہیں۔ اس صورت حال کا خطرناک پہلو یہ ہے کہ شہریوں کی بڑی تعداد، خاص طور پر نوجوان اور بچے، اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں کہ یہ آلہ کسی طیارے کے حادثے کا باعث بن سکتا ہے۔ ماہرین ہوابازی کے مطابق جب طیارہ لینڈنگ یا ٹیک آف کر رہا ہوتا ہے تو وہ انتہائی نچلی پرواز پر ہوتا ہے، اور اگر ایسے وقت میں لیزر کی تیز روشنی پائلٹ کی آنکھ پر پڑ جائے تو وہ لمحاتی طور پر نابینا ہو سکتا ہے، جس کا نتیجہ ایک بڑے فضائی حادثے کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اگرچہ طیارے کو لیزر سے نشانہ بنانا فوجداری جرائم میں آتا ہے، تاہم پاکستان میں لیزر پوائنٹرز کی خرید و فروخت پر کوئی واضح قانون موجود نہیں ہے۔ ’اسی قانونی خلا کے باعث یہ آلہ بچوں تک کی پہنچ میں ہے، جو لاعلمی یا تفریح کے جذبے کے تحت اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔‘ایوی ایشن حکام نے اپنی ایڈوائزری میں عوام سے اپیل کی ہے کہ اگر وہ کسی شخص کو طیارے پر لیزر لائٹ مارتے ہوئے دیکھیں تو فوراً قانون نافذ کرنے والے اداروں کو اطلاع دیں۔ اس کے ساتھ ہی والدین سے کہا گیا ہے کہ وہ بچوں کے لیے لیزر پوائنٹرز خریدنے سے گریز کریں، اور اگر بچے اس کا استعمال کر رہے ہوں تو انہیں فوری طور پر روکیں کیونکہ لیزر پوائنٹرز کھلونے نہیں، بلکہ خطرناک ہتھیار بن سکتے ہیں۔