
ٹم فریڈی ایک عام انسان نہیں۔ ان کا جسم سائنس کی وہ لیبارٹری بن چکا ہے جہاں دو دہائیوں تک سانپوں کا زہر انجیکٹ ہوتا رہا — وہ بھی خود اپنی مرضی سے، انسانیت کے فائدے کے لیے۔
امریکی ریاست وسکنسن سے تعلق رکھنے والے 57 سالہ ٹم فریڈی نے اپنی زندگی کے 20 سال یہ ثابت کرنے میں لگا دیے کہ انسان زہر کے خلاف مزاحمت پیدا کر سکتا ہے۔ وہ مسلسل اپنے جسم میں دنیا کے مہلک ترین سانپوں کا زہر داخل کرتے رہے تاکہ سائنس دان ان کے خون میں قدرتی دفاعی نظام کو سمجھ سکیں۔
دنیا میں ہر سال لاکھوں لوگ سانپ کے ڈسنے سے ہلاک یا معذور ہو جاتے ہیں۔ دستیاب تریاق صرف مخصوص اقسام کے سانپوں کے لیے مؤثر ہوتے ہیں، اور ان کے سائیڈ ایفیکٹس بھی شدید ہوتے ہیں۔ لیکن ٹم فریڈی کی قربانی نے سائنسدانوں کو ایک نئی راہ دکھائی ہے۔
ٹم کے خون سے دو خاص اینٹی باڈیز حاصل ہوئیں، جنہیں جوڑ کر ایک نئی دوا "varespladib" بنائی گئی۔ تجربات سے معلوم ہوا کہ یہ دوا سانپوں کی 19 اقسام کے زہر سے بچانے میں مؤثر ہے — جو کہ اب تک کی بڑی پیشرفت ہے۔
2001 میں، ٹم فریڈی کی زندگی اس وقت خطرے میں پڑ گئی جب انہیں بیک وقت دو کوبرا سانپوں نے کاٹا۔ وہ چار دن تک کوما میں رہے۔ اس حادثے کے بعد انہوں نے احتیاط برتنا شروع کی، مگر تجربے کا سلسلہ جاری رکھا۔ ان کے تہہ خانے میں 60 کے قریب زہریلے سانپ ہوا کرتے تھے — ان کے سائے میں، انہوں نے برسوں سائنسی تاریخ رقم کی۔
2017 میں، جیکب گلین ویل اور پیٹر کونگ نے ان پر تحقیق شروع کی۔ اینٹی باڈیز کو الگ کیا گیا، اور چوہوں پر کامیاب تجربات نے یہ ثابت کر دیا کہ یہ دفاعی نظام مہلک زہر کو غیر مؤثر بنا سکتا ہے — وہ بھی کم نقصان کے ساتھ۔
یہ تحقیق موجودہ تریاقی طریقوں کے مقابلے میں ایک بڑی پیش رفت ہے۔ گھوڑوں میں زہر داخل کرکے تیار ہونے والی ادویات مہنگی، محدود اور خطرناک ہوتی ہیں۔ ٹم فریڈی کے خون کی بدولت، اب ایسی دوا ممکن ہو گئی ہے جو مختلف اقسام کے سانپوں سے تحفظ فراہم کر سکتی ہے۔
فی الحال اگلا مرحلہ آسٹریلیا میں متاثرہ کتوں پر تجربات کا ہے۔ ٹم فریڈی نے 2018 کے بعد خود کو سانپوں سے دور رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سانپوں کی یاد تو آتی ہے، لیکن اب وہ اپنی نئی زندگی سے مطمئن ہیں — ایک ایسی زندگی، جو ان کے خون سے کئی اور جانیں بچا رہی ہے۔