
’پئیرز مورگن کا انڈیا پاکستان ’مباحثہ‘ دراصل مباحثہ نہیں بلکہ ایک حملہ تھا۔ ایک ایسا میزبان جو انصاف نہیں بلکہ طاقت کے ساتھ کھڑا تھا۔۔۔ پاکستانی مقررین کو بار بار ٹوکا گیا، اُن سے تحقیر آمیز لہجے میں بات کی گئی اور اُن کی بات نہیں سنی گئی۔ انڈین مہمانوں کو مائیک بھی دیا گیا اور کھلی چھوٹ بھی۔‘یہ تبصرہ ایکسوشل میڈیا صارف نے برطانوی صحافی کے حالیہ پروگرام پر کیا ہے جس میں انھوں نے انڈیا پاکستان سے چار افراد کو شو پر بلایا۔اگرچہ امریکہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے بعد اب پاکستان اور انڈیا کی افواج کے درمیان تو جنگ رُک چُکی ہے تاہم سوشل میڈیا پر یہ اب بھی تُند و تیز جملوں، بیانات، بحث و مباحثے اور میمز کی صورت میں کسی حد تک جاری ہے۔معاملہ کچھ یوں ہے کہ برطانوی ٹی وی سیلیبریٹی اور صحافی پیئرز مورگن نے حال ہی میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان کشیدگی پر اپنے یوٹیوب چینل ’پیئرز مورگن ان سینسرڈ‘ پر ایک پروگرام کیا جس میں انھوں نے پاکستان کی جانب سے سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر اور دا پاکستان ایکسپیرئنس کے میزبان شہزاد غیاث شیخ، انڈیا کی جانب سے مصنفہ اور صحافی برکھا دت اور سوشل میڈیا انفلوئینسرز رنویر اللہ بادیا کو مدعو کیا۔پروگرام کی ابتدا میں پیئرز مورگن نے امریکی فوج کے ایک سابق جنرل اور سیاستدان جنرل ویسلے کلارک سے سوال کیا کہ آخر انڈیا اور پاکستان کے درمیان یہ حالیہ جنگی حالات کس حد تک خطرناک تھے تو اُن کا کہنا تھا کہ ’ایٹمی قوتوں کے درمیان جب جنگی حالات پیدا ہو جائیں اور وہ ایک دوسرے پر میزائلوں اور لڑاکا طیاروں سے حملے کرنے لگیں تو ایسے میں حالات انتہائی خطرناک شکل اختیار کر سکتے ہیں، کیونکہ کُچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘Getty Imagesانڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام کی وادی بائیسرن میں 22 اپریل کو ہونے والے حملے میں 26 سیاح مارے گئے تھےپروگرام میں کیا ہوا؟ پیئرز مورگن کے پروگرام میں شامل انڈین صحافی برکھا دت نے کالعدم تنظیم جیش محمد اور لشکرِ طیبہ کا ذکر کیا اور دعویٰ کیا کہانڈیا کی جانب سے ان دونوں کے زیر استعمال ’دہشت گردوں‘ کے کیمپس کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ جتنی دیر بولنا چاہتی تھیں انھیں بولنے دیا گیا۔اس کے بعد پیئرز مورگن نے سابق پاکستانی وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر سے سوال کیا کہ ’انڈیا کو پہلگام حملے میں ہلاک ہونے والے 26 افراد کی ہلاکت کے بعد کیسا ردِ عمل دینا چاہیے تھا؟‘ جس کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ ’ویسا ہی جواب دینا چاہیے تھا کہ جیسا پاکستان نے بلوچستان میں جعفر ایکسپریس پر ہونے والے حملے کے بعد دیا تھا یعنی وہ حقائق سامنے لانے چاہیے تھے کہ جس میں دہشت گردوں کے ملوث ہونے کے ثبوت دیے جاتے۔‘اُن کا کہنا تھا کہ ’میں ایک پاکستانی ہوں اور انڈیا سے کسی قسم کا موازنہ نہیں چاہتی۔ ایسے ملک سے برابری کی خواہش کیسی جو بغیر کسی ثبوت کے دہشت گردی کے الزامات لگا کر، اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کو نظر انداز کرتے ہوئے، یکطرفہ سرحد پار حملے کرتا ہے؟‘یہ وہ وقت تھا کہ جب پاکستان کی سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر پیئرز مورگن کی جانب سے کیے جانے والے سوال کا جواب دی رہی تھیں تو دوسری جانب موجود انڈین صحافی برکھا دت بھویں چڑھاتی اور اُن کے موقف کو بجائے تحمل سے سُننے کےبیزاری ظاہر کرتی رہیں اور مورگن بھی ناصرف برکھا دت کے سوالات پوچھتے رہے بلکہ انڈین مہمانوں کی طرح انھوں نے خود بھی پاکستان پر الزامات کا سلسلہ جاری رکھا۔ سوشل میڈیا صارفین کا دعویٰ ہے کہ مورگن نے پورے شو کے دوران انڈین مہمانوں سے ویسے تیکھے سولات نہیں پوچھے جیسے انھوں نے حنا ربانی کھر اور شہزاد سے کیے اور نہ ہی انھوں نے انڈیا پر ویسا کوئی الزام عائد کیا جیسے وہ پاکستان پر کرتے رہے۔۔۔ شو کے دوران بارہا ایسا محسوس ہوا کہ وہ انڈیا کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔پاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکسوشل میڈیا انفلوئینسرز رنویر اللہ بادیا نے بات کا آغاز القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کی تصویر دیکھاتے ہوئے کیا اور کہا کہ ’یہ وہ فرد ہیں کہ جو پاکستان کی ایک آرمی بیس سے 500 میٹر کی دوری پر موجود تھے۔‘شہزاد غیاث شیخ نے رنویر اللہ بادیا کو تنقید کا نشانہ بنایا اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ڈالا کہ ’انڈین صحافی برکھا دت کی ساکھ اُسی رفتار سے گری ہے جیسے انڈیا کے رافیل طیارے۔‘بس اس کے بعد کیا تھا کہ پیئرز مورگن کے 50 منٹ دورانیے کہ پروگرام میں دونوں اطراف سے تُند و تیز جملوں کا تبادلہ شروع ہوا۔۔ پروگرام کے آخری لمحات میں جب انڈین صحافی برکھا دت نے پاکستان کے حالات پر شدید تنقید شروع کی تو حنا ربانی کھر نے انھیں یہ کہ کر ٹوکا کہ کیا ہم یہاں یہ باتیں کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور کیا برکھا پاکستان کی سیاست اور اندرونی معاملات پر بات کریں گی تو اس پر برکھا نے کہا کہ جب آپ ہماری بات کر سکتی ہیں تو ہم بھی کر سکتے ہیں اور مُجھے بات کرنے کا موقع دیں جس کے بعد حنا ربانی کھر نے کہا کہ جی جی آپ بات جاری رکھیں اور وہ پروگرام سے چلی گئیں۔مگر بحث وہیں ختم نہیں اور سوشل میڈیا پر آ گئی۔۔ سوشل میڈیا صارفین کا ماننا ہے کہ پروگرام کا پینل بیلینسڈ نہیں تھا اور مورگن انڈین مہمانوں کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ناصرف برکھا اور رنویر کے سوالات دہراتے رہے بلکہ انھوں نے خود بھی پاکستان پر بلاجواز الزامات عائد کیے۔اب صورتحال یہ ہے کہ دونوں مُلکوں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس پروگرام کے کلپس وائرل ہیں اور بحث ہے کہ تھمنے کا نام نہیں لے رہی۔زبیر نے لکھا ’پئیرز مورگن کا انڈیا پاکستان ’مباحثہ‘ دراصل مباحثہ نہیں بلکہ ایک حملہ تھا۔ پاکستانی مقررین کو بار بار ٹوکا گیا، اُن سے تحقیر آمیز لہجے میں بات کی گئی اور اُن کی بات نہیں سنی گئی۔ انڈین مہمانوں کو مائیک بھی دیا گیا اور کھلی چھوٹ بھی۔‘انھوں نے لکھا کہ ’26 ہندو مردوں کے قتل پر انڈیا کو کیا ردعمل دینا چاہیے تھا؟‘ یہ سوال تو پوچھا گیا، مگر یہ کبھی نہیں پوچھا گیا کہ انڈیا کے پاس ثبوت کیا تھا یا کیا پاکستان واقعی ملوث تھا؟ نہ یہ سوال کیا گیا کہ ’کیا انڈیا کا ردعمل حد سے بڑھا ہوا تھا؟‘ یا ’کیا بین الاقوامی قانون کی پاسداری کی گئی؟‘’برکھا دت کو دہشتگردی پر منٹوں تک بولنے دیا گیا، مگر جب حنا ربانی کھر نے انڈیا کے اپنے ریکارڈ کی بات کی، تو اُن کی بات کاٹ دی گئی۔ جب کھر نے بین الاقوامی قانون یا امن کی بات کی تو اسے ’واٹ اباؤٹ ازم‘ کہہ کر مسترد کر دیا۔ تو کیا صرف ایک فریق کو غصہ کرنے کا حق ہے؟زبیر کا ماننا ہے کہ ’یہ صحافت نہیں تھی۔ یہ قوم پرستانہ تھیٹر تھا۔ ایک ایسا پینل جو معلومات دینے کے لیے نہیں، شرمندہ کرنے کے لیے ترتیب دیا گیا تھا۔ ایک ایسا میزبان جو انصاف نہیں بلکہ طاقت کے ساتھ کھڑا تھا۔ اسے وہی کہیں جو یہ تھا: ایک پلان کیا گیا شدہ حملہ۔‘پیئرز مورگن کو مخاطب کرتے ہوئے مہوش اعجاز نے لکھا کہ کہ حنا ربانی ایک شائستہ، باوقار، مہذب بات کرنے والی خاتون ہیں۔ اگلی مرتبہ جب آپ کسی کو ان کے سامنے بٹھانا چاہیں تو کم از کم کسی ایسے شخص کو تلاش کریں جو انھی کی طرح شائستہ انداز میں بات کرتا ہو۔فضا خان نے بھی پیئرز مورگن پر تنقید کی اور ایکس پر لکھا کہ ایک سابق وزیر خارجہ امن کے بارے میں بات کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور سامنے بیٹھے انڈیا کے پینلسٹ انھیں ایسا کرنے سے روک رہے ہیں اور آگے سے مسلسل بھویں چڑھاتے رہے اور اُن کے بات کرنے پر بیزاری ظاہر کرتے رہے۔ایمن نے لکھا ’پیئرز مورگن کا اچھا ہے، جہاں جہاں انگریزوں نے لکیر کھینچی ہے وہاں وہاں سے بندے پکڑ کر اپنے شو پر لڑوا کے پیسے کما لو۔‘معاملہ پاکستانی سوشل میڈیا تک محدود نہیں رہا سرحد کے پار بھی پیئرز مورگن کے اس پروگرام کی گونج سُنائی دی اور وہاں سے بھی سوشل میڈیا یوزرز نے اس پر ردِ عمل دیا۔ارن نامی ایک ایکس یوزر نے انڈیا سے اس پروگرام کا ایک کلپ شئیر کیا کہ جس میں انڈین صحافی برکھا دت انڈین وزیراعظم نریندر مودی کے بیانات کی توثیق کرتی سُنائی دیں۔ ارن نے ایکس پر اس کلپ کے ساتھ لکھا کہ ’برکھا دت مودی کا دفاع کر رہی ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ میں نے بس سب کُچھ دیکھ اور سُن لیا ہے۔‘سناتن ریویلز نامی ایک اور ایکس یوزر نے اپنی پوسٹ میں انڈیا کی جانب سے اسی پروگرام میں شامل ہونے والی صحافی برکھا دت کی تو تعریف کر ڈالی مگر یوٹیوبر رنویر اللہ بادیا کو آڑے ہاتھوں لیا انھوں نے لکھا ’میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ میں یہ کہوں گا، لیکن برکھا دت نے واقعی کچھ صحیح کیا۔‘’انھوں نے حنا ربانی کو آڑے ہاتھوں لیا اور وہ مایوس ہو کر چلی گئیں۔ لیکن سوال یہ اُٹھتا ہے کہ رنبیر یہاں کیا کر رہے ہیں؟ کیا انھیں ذرا سا بھی اندازہ ہے کہ یہ پروگرام کس بارے میں ہے؟‘دو جوہری طاقتوں کے بیچ پہلی ڈرون جنگ: کیا پاکستان اور انڈیا کے درمیان روایتی لڑائی میں نئے اور خطرناک باب کا آغاز ہو چکا ہے؟پاکستان اور انڈیا کی فوجی طاقت کا موازنہ: لاکھوں کی فوج سے جدید طیاروں، بیلسٹک میزائلوں اور ڈرونز تکپاکستان کا انڈین براہموس میزائل ’ہدف سے بھٹکانے‘ کا دعویٰ: کیا تیز رفتار میزائلوں کو ’اندھا‘ کیا جا سکتا ہے؟پہلگام: انڈیا میں تحقیقات کہاں تک پہنچیں اور پاکستان کیوں غیر جانبدارنہ تحقیقات کا مطالبہ کر رہا ہے؟آپریشن ’بنیان مرصوص کا آغاز کرنے والے فتح میزائل‘ کے بارے میں ہم کیا جانتے ہیں؟پہلگام حملہ اور کشیدگی: پاکستان اور انڈیا کے تنازع میں چین کس کا ساتھ دے گا؟