
جھارکھنڈ کے گاؤں جڈوگورا کی کہانی کسی دستاویزی فلم کی طرح نہیں، بلکہ بھارت کے تابناک جوہری عزائم کی ایک تاریک اور کربناک حقیقت ہے۔ بھارت میں جوہری ترقی کے پردے کے پیچھے انسانی المیہ پنپ رہا ہے، جس کی مثال جڈوگورا کے وہ سینکڑوں خاندان ہیں جو بیماری، معذوری اور زہریلے اثرات سے تباہ ہو چکے ہیں۔
مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق جڈوگورا میں زمین کے 600 میٹر نیچے تک یورینیم نکالنے کا سلسلہ حکومتی سرپرستی میں برسوں سے جاری ہے۔ مگر کان کنی کا یہ عمل صرف زمین سے معدنیات نکالنے تک محدود نہیں، بلکہ گاؤں کے باسیوں سے ان کی صحت، زندگی اور نسلیں چھین لینے تک جا پہنچا ہے۔ نکالا گیا یورینیم کھلے ٹرکوں میں بغیر کسی احتیاطی تدابیر کے حیدرآباد منتقل کیا جاتا ہے، جس کے دوران تابکار ذرات سڑکوں اور فضاؤں میں بکھرتے ہیں۔ یہی ذرات بعد میں جڈوگورا کے لوگوں کے جسموں میں بیماریوں کی شکل میں جاگزیں ہو جاتے ہیں۔
سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ تابکار فضلہ یہیں، اسی گاؤں میں چھوڑ دیا جاتا ہے۔ نہ کوئی حفاظتی دیوار، نہ بندوبست۔ معصوم بچے، خواتین اور بوڑھے انہی سڑکوں پر سانس لیتے ہیں جہاں موت بکھری پڑی ہے۔ گھروں میں ہر تیسرا فرد کسی نہ کسی جسمانی معذوری کا شکار ہے۔ پینے کا پانی بھی وہی آلودہ جوہڑ ہے جس میں تابکاری کے اثرات جھلکتے ہیں۔
مزدور، جو یورینیم کی کانوں میں کام کرتے ہیں، بغیر کسی حفاظتی لباس یا آلات کے زیر زمین تابکار مواد کے ساتھ نبرد آزما ہوتے ہیں۔ ان کے لیے نہ کوئی میڈیکل سہولت ہے، نہ کوئی انشورنس، اور نہ ہی کوئی حکومتی اعتراف۔
بھارت کی موجودہ حکومت عالمی منظرنامے پر جوہری طاقت کے طور پر اپنی شبیہ بنانے میں مصروف ہے، مگر وہ منظر جو جڈوگورا جیسے دیہی علاقوں میں رقم ہو رہے ہیں، وہ اس طاقت کی قیمت پر لکھے گئے ہیں۔ ترقی کے نام پر جوہری زہریلا پن اس قدر گہرا ہو چکا ہے کہ اب نہ صرف زندگیاں تباہ ہو رہی ہیں بلکہ پورے علاقے کی فطری ساخت، نسلوں کی صحت اور انسانی وقار کو بھی تباہی کی دہلیز پر لا کھڑا کیا گیا ہے۔