
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ملک کی اعلٰی ترین یونیورسٹیوں کے خلاف کریک ڈاؤن نے جہاں کچھ بین الاقوامی طالب علموں کو امریکی کیمپسز میں اپنے داخلے کی درخواستوں کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا ہے وہیں پہلے سے ہی ان تعلیمی اداروں میں زیرِتعلیم طلبہ میں اضطراب اور تناؤ پھیل گیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق صدر ٹرمپ کے ان اقدامات سے تقریباً 10 لاکھ غیرملکی طلبہ کے سامنے امریکہ کی ساکھ خراب ہوئی ہے۔ کیونکہ وہ امریکی یونیورسٹیوں کے خلاف ایک مہم چلا رہے ہیں جنہیں وہ اپنے ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں‘ کے پاپولسٹ ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں جہاں ہارورڈ میں بین الاقوامی سکالرز کی میزبانی کو قانونی طور پر چیلنج کیا ہے، وہیں انہوں نے غیرملکی کیمپس کے طلبہ کی ملک بدری اور حال ہی میں طلبہ کے ویزا کی کارروائی کو معطل کرنے جیسے اقدامات کیے ہیں۔پاکستان سے تعلق رکھنے والے 20 سالہ عبداللہ شاہد سیال جو ہارورڈ میں ریاضی اور اقتصادیات کے طالب علم ہیں، نے کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے یونیورسٹیوں کے خلاف مہم جس میں صدر نے ان پر لبرل تعصب اور یہود دشمنی کے گڑھ جیسے الزامات لگائے ہیں، ’غیرانسانی‘ ہیں۔’یہ واقعی بدقسمتی کی بات ہے کہ یہ معاملہ 18، 19 اور 20 سال کے بچوں کا ہے جو بغیر کسی خاندان کے یہاں آئے تھے، اور ان میں سے بیشتر پہلے امریکہ نہیں گئے تھے۔‘انہوں نے کہا کہ ’میں نے جاننے والوں کو مشورہ دیا کہ اگر امریکی کالجز میں داخلے نہ ہو پائیں تو بیک اپ پلانز رکھیں، اور یہ کہ ایک دوست نے ہارورڈ کے لا سکول کے ساتھ کولمبیا کے، اور دو کم معروف برطانوی اداروں میں درخواست دی، اور بالآخر برطانیہ جانے کا انتخاب کیا۔‘ڈونلڈ ٹرمپ امریکی یونیورسٹیوں کو اپنے ’امریکہ کو دوبارہ عظیم بنائیں‘ کے پاپولسٹ ایجنڈے کی راہ میں رکاوٹ سمجھتے ہیں۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’وہ یقینی طور پر ہارورڈ کو زیادہ پسند کرتا تھا (لیکن) وہ اتنی غیریقینی کی صورتحال میں تعلیم کا حصول نہیں چاہتا۔‘آسٹریا سے تعلق رکھنے والے کارل مولڈن، جو ہارورڈ میں پولیٹکس اور کلاسکس کے طالب علم ہیں، نے کہا کہ یونیورسٹی کو غیرملکی طلبہ کی میزبانی اور داخلہ سے روکنے کے ٹرمپ کے اقدام کا مطلب ہے کہ انہیں یقین نہیں کہ آیا وہ گرمیوں کی چھٹیوں کے بعد واپس آ سکیں گے۔اگرچہ جمعرات کو سماعت کے دوران ایک جج نے حکومت کو اس فیصلے پر عمل درآمد سے روک دیا، لیکن پھر بھی ٹرمپ انتظامیہ کے اس اقدام نے طلبہ کے منصوبوں کو بکھیر کر رکھ دیا ہے۔