
"ہم نے اسرائیل کی مدد کی تاکہ ایرانی میزائلوں کو ہدف پر پہنچنے سے پہلے ہی روکا جا سکے" امریکی حکام
تہران کے قریب واقع شہران آئل ڈپو پر ہفتہ کی شب اسرائیل نے بڑا حملہ کیا، جس کی تصدیق اسرائیلی اخبار دی یروشلم پوسٹ نے کی ہے۔ اس حملے میں صرف تیل کے ذخائر کو ہی نشانہ نہیں بنایا گیا بلکہ ایران کے ایٹمی پروگرام، کمانڈ اینڈ کنٹرول مراکز اور وزارت دفاع کے ہیڈکوارٹرز پر بھی بمباری کی گئی۔
ایرانی خبر رساں ادارے "تسنیم" نے رپورٹ کیا ہے کہ حملے میں ایران کی وزارتِ دفاع کے مرکزی دفتر کو نشانہ بنایا گیا۔ بعد ازاں اسرائیلی ڈیفنس فورس (IDF) نے ان اطلاعات کی تصدیق کی۔ IDF کے مطابق اسرائیلی فضائیہ نے انٹیلی جنس بنیاد پر کارروائیاں کیں جن میں ایران کا SPND نیوکلئیر پروجیکٹ، وزارت دفاع اور دیگر حساس تنصیبات ہدف بنائی گئیں۔
سوشل میڈیا پر اسرائیلی حملوں کی ویڈیوز وائرل ہو چکی ہیں، جن میں آگ اور دھماکوں کے مناظر دیکھے جا سکتے ہیں۔ اسرائیلی وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے ایکس (ٹوئٹر) پر لکھا: "تہران جل رہا ہے۔"
ایران نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ اسرائیلی حملے میں شہران آئل ڈپو کو نشانہ بنایا گیا تاہم ایرانی حکام کا دعویٰ ہے کہ "صورتحال قابو میں ہے"۔
امریکی حمایت اور دفاعی کردار
اسرائیلی حملوں کے بعد ایران کی جانب سے جوابی کارروائی میں بیلسٹک میزائل داغے گئے، جنہیں امریکی دفاعی نظام نے بڑی حد تک فضا میں ہی تباہ کر دیا۔ امریکی حکام کے مطابق امریکہ نے اسرائیل کو دفاع میں مدد فراہم کی، جس میں زمینی بنیاد پر نصب پیٹریاٹ میزائل ڈیفنس سسٹمز اور "ٹرمینل ہائی آلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس" (THAAD) شامل تھے۔ ان سسٹمز نے ایران کے داغے گئے میزائلوں کے کئی حملے ناکام بنائے۔
امریکی بحریہ کے کچھ اثاثے بھی اسرائیل کی مدد میں شامل تھے۔ اگرچہ یہ واضح نہیں کہ امریکی بحری جہازوں نے خود میزائل مار گرائے یا صرف ٹریکنگ سسٹمز کے ذریعے اسرائیل کو بروقت معلومات فراہم کیں، لیکن امریکی حکام کے مطابق نیوی نے مشرقی بحیرہ روم کی جانب USS Thomas Hudner کو روانہ کر دیا ہے، جو بیلسٹک میزائل دفاعی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک دوسرا ڈسٹرائر بھی تیاری کی حالت میں رکھا گیا ہے تاکہ وائٹ ہاؤس کی درخواست پر فوری متحرک کیا جا سکے۔
دوسری طرف اسرائیلی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیل نے ایران کے خلاف فوجی مہم میں امریکا سے شمولیت کی درخواست کی، لیکن امریکی حکومت نے یہ درخواست مسترد کر دی۔ اسرائیلی حکام کے مطابق صدر ٹرمپ نے ضرورت پڑنے پر تعاون کا عندیہ دیا، تاہم وائٹ ہاؤس نے اس کی تردید کر دی۔ امریکی حکام کا موقف ہے کہ اسرائیل کی اپیل موصول ہوئی ہے، مگر فی الحال واشنگٹن اس پر عمل نہیں کر رہا۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے ایران پر ہونے والے حالیہ حملے میں امریکی مداخلت کی بھی تردید کی ہے۔
امریکی فضائی گشت اور سیکورٹی اقدامات
امریکی فضائیہ کے لڑاکا طیارے مشرق وسطیٰ میں مسلسل گشت پر مامور ہیں تاکہ امریکی تنصیبات اور اہلکاروں کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے۔ مشرق وسطیٰ میں موجود امریکی ایئر بیسز پر سیکورٹی مزید سخت کر دی گئی ہے۔ امریکی حکام نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کے روز قومی سلامتی کونسل کے اعلیٰ حکام سے ملاقات کی اور آپشنز پر غور کیا۔
گزشتہ کئی دنوں سے امریکی فورسز نے پیشگی حفاظتی اقدامات کیے ہوئے تھے، جن میں اہلکاروں کے خاندانوں کو رضاکارانہ طور پر اڈوں سے نکالنا بھی شامل تھا تاکہ ممکنہ وسیع حملوں سے بچاؤ ہو سکے۔
امریکی فوجی تعداد اور ممکنہ کمک
عام طور پر مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج کی تعداد 30,000 کے قریب ہوتی ہے، مگر اس وقت وہاں تقریباً 40,000 امریکی فوجی موجود ہیں، جبکہ اکتوبر 2024 میں یہ تعداد 43,000 تک جا پہنچی تھی۔ یہ اضافہ اسرائیل اور ایران کے درمیان کشیدگی اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں کی جانب سے بحری جہازوں پر حملوں کی وجہ سے کیا گیا تھا۔
امریکی بحریہ کے پاس اضافی اثاثے بھی موجود ہیں جو مشرق وسطیٰ بھیجے جا سکتے ہیں، خاص طور پر طیارہ بردار جہاز اور ان کے ساتھ چلنے والے جنگی جہاز۔ USS Carl Vinson اس وقت بحیرہ عرب میں موجود ہے جو اس وقت خطے میں واحد طیارہ بردار بحری جہاز ہے۔ USS Nimitz بحرِ ہند و بحرالکاہل میں ہے اور اسے بھی مشرق وسطیٰ روانہ کیا جا سکتا ہے، جبکہ USS George Washington نے حال ہی میں جاپان سے روانگی کی ہے اور اسے بھی حکم ملنے پر مشرق وسطیٰ لایا جا سکتا ہے۔
یاد رہے، سابق صدر جو بائیڈن نے 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل کی حمایت میں بحری جہاز مشرق وسطیٰ روانہ کیے تھے، تاکہ ایران اور حزب اللہ کو روکنے کے لیے ایک واضح پیغام دیا جا سکے۔
1 اکتوبر 2024 کو ایرانی حملے میں ایران نے اسرائیل پر 200 سے زائد میزائل داغے تھے، جنہیں امریکی نیوی کے ڈسٹرائرز نے درجنوں انٹرسیپٹرز فائر کر کے ناکام بنایا تھا۔