
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا امریکہ ایران پر اسرائیلی حملوں میں شامل ہو کہ نہیں اور تہران تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات چاہتا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق بدھ کو وائٹ ہاؤس میں ایک نئے فلیگ پول کی تنصیب کے موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے کہا کہ ایران کے لیے ’ان کا صبر کا پیمانہ پہلے ہی لبریز ہو چکا ہے‘، اور انہوں نے اسلامی جمہوریہ کے ’غیرمشروط ہتھیار ڈالنے‘ کے اپنے مطالبے کو بھی دہرایا۔اس سوال پر کہ کیا انہوں نے ایران پر فضائی حملے کرنے کا فیصلہ کیا ہے؟ امریکی صدر نے کہا کہ ’میں یہ کر سکتا ہوں، میں یہ نہیں کر سکتا۔ میرا مطلب ہے کہ کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔‘’میں آپ کو یہ بتا سکتا ہوں کہ ایران بہت پریشان کن حال میں ہے، اور وہ مذاکرات کرنا چاہتے ہیں۔‘ان کا کہنا تھا کہ ایران نے اسرائیل کے فضائی حملوں کے خاتمے کے لیے اپنے جوہری پروگرام پر بات چیت کے لیے حکام کو وائٹ ہاؤس بھیجنے کی تجویز بھی دی تھی، لیکن ’بہت دیر ہو چکی ہے۔‘صدر ٹرمپ نے کہا کہ ’میں نے کہا بات کرنے میں بہت دیر ہو گئی ہے۔ ہم مل سکتے ہیں۔ ابھی اور ایک ہفتہ پہلے کے درمیان بڑا فرق ہے، ٹھیک ہے؟ بڑا فرق۔‘’انہوں نے تجویز دی کہ وہ وائٹ ہاؤس آتے ہیں۔ یہ آپ جانتے ہیں کافی ہمت والا کام ہے، لیکن ایسا کرنا ان کے لیے آسان نہیں ہے۔‘چھ روز قبل اسرائیل کے ایران پر حملوں کے بعد سے ٹرمپ اپنے اتحادی کی حمایت کر رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)اس سوال پر کہ کیا مذاکرات کے لیے بہت دیر ہو چکی ہے؟ امریکی صدر نے کہا کہ ’ابھی بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی ہے۔‘ڈونلڈ ٹرمپ ایران کے جوہری پروگرام کے خاتمے کے لیے سفارتی راستہ استعمال کرنے کے حق میں تھے، اور سنہ 2018 میں اپنی پہلی صدارت کے دوران ختم ہونے والے معاہدے کی جگہ نیا معاہدہ چاہتے تھے۔لیکن چھ روز قبل اسرائیل کے ایران پر حملوں کے بعد سے ٹرمپ اپنے اتحادی کی حمایت کر رہے ہیں اور اب یہ سوچ رہے ہیں کہ آیا تہران کے خلاف امریکی فوجی طاقت کا استعمال کیا جائے یا نہیں۔