
Getty Images’آج میرے پاس بلڈنگیں ہیں، پراپرٹی ہے، بینک بیلنس ہے، بنگلہ ہے، گاڑی ہے۔ تمھارے پاس کیا ہے؟‘ یہ 1975 کی ہندی فلم دیوار میں امیتابھ بچن کا ایک مشہور ڈائیلاگ ہے جسے امریکہ کے شہر نیو یارک کے میئر کے انتخابی دوڑ میں شامل ایک امیدوار اپنے امیر حریف کی پالیسیوں کو متعارف کرنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔حالانکہ فلم کے دوسرے ستارے ششی کپور جواب دیتے ہیں کہ ان کے پاس ’ماں‘ ہے، اس ویڈیو میں امیدوار ظہران ممدانی نمودار ہوتے ہیں اور شاہ رخ خان کے مشہور انداز میں دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے کہتے ہیں ’آپ۔۔۔ میرے پاس آپ ہیں۔‘یہ واضح ہے کہ نیو یارک سٹی میئر کی دوڑ میں 33 سالہ ظہران ممدانی ایسی انتخابی مہم چلا رہے ہیں جو ایک حد تک غیر معمولی ہے۔ یہ ویڈیو با اثر ثابت ہوا اور فوراً وائرل ہو گیا، خاص طور پر جنوبی ایشائی نزاد لوگوں میں۔لیکن ان کی انتخابی مہم مزید وسیع ہے، جس کے تحت وہ نیویارک جیسے مہنگے شہر میں سستے کرائے کے گھر، فری بس سروس اور چائیلڈ کیئر جیسی سہولیات فراہم کرنے کا وعدہ کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے سب سے اہم حریف اینڈریو کومو، جو کہ امیر شخصیت ہیں اور جن پر جنسی ہراسانی کے الزامات ہیں، سے برعکس عام لوگوں میں سے ایک ہیں۔ان کا موقف ہے کہ ارب پتیوں کے پاس سب کچھ ہے، اور اب عام شہریوں کی باری ہے۔لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کے وعدے ناقابل عمل ہیں۔تاہم جائزوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ رائے عامہ کے اندازوں میں سب سے مقبول امیدوار اینڈریو کوومو کے قریب پہنچ چکے ہیں، اور اگر وہ جیتنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو یہ ڈیموکریٹک پارٹی اور نیویارک کی سیاست میں ایک تاریخی واقعہ ہوگا۔اگر وہ آگے جاتے ہیں تو نیو یارک شہر کے پہلے جنوبی ایشیائی اور مسلم میئر ہوں گے۔ یہ شہر اپنی دولت اور کثیر ثقافت کے لیے مشہور ہے۔اور اس کے لیے ممدانی کا انحصار ’آپ‘ پر ہے۔Getty Imagesظہران ممدانی کون ہیںان کا پورا نام ظہران کوامے ممدانی ہے۔ وہ 1991 میں یوگنڈا کے دارالحکومت کمپالا میں پیدا ہوئے۔ان کے والد محمود ممدانی ایک انڈیا۔یوگانڈا نژاد سیاست کے ماہر پروفیسر ہیں، جبکہ ان کی والدہ میرا نائر بالی وڈ اور ہالی وڈ میں فلمساز ہیں۔ انھوں نے مون سون ویڈینگ اور دی نیم سیک جیسی اہم فلمیں بنائی ہیں۔ظہران اپنی خاندان کے ساتھ جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن میں بھی رہے ہیں لیکن جب وہ سات سال کے تھے تو خاندان کے ساتھ نیو یارک آ گئے۔انھوں نے نیو یارک کے برونکس علاقے میں پرورش پائی جو کہ ایک ورکنگ کلاس اور ثقافتی تنوع سے بھرپور علاقہ ہے۔ انھوں نے 'افریقانا سٹڈیز' میں گریجویشن کیا ہے اور فلسطینیوں کے حقوق کے لیے سرگرم رہے ہیں۔سنہ 2024 میں ان کی شادی شامی نژاد امریکی آرٹسٹ راما دواجی سے ہوئی۔تعلیم حاصل کرنے کے بعد ظہران نے بطور ’فورکلوزر پریوینشن کونسلر‘ کام کیا جس کا مطلب ایک ایسا مشیر ہے جو غریب خاندانوں کو گھروں کو لون کی وجہ سے جبری بے دخلی سے بچانے میں مدد دیتا ہے اور جس کا اثر ان کی عوام کی فلاح و بہبود پر مبنی سیاست پر واضح ظاہر ہے۔امریکہ میں پہلی مسلم خاتون میئر جن کی ’کراچی سے خاص دلی وابستگی‘گولڈا میئر: ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ نے ختم کر دیاقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفرامریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی مسلمان خواتینGetty Imagesجب ظہران مسٹر الائچی کے نام سے جانے جاتے تھےسیاست کی طرف رخ کرنے سے پہلے ظہران ممدانی نے فنکاری میں اپنی قسمت آزمایا تھا۔وہ ’مسٹر کارڈیمم‘ یعنی الائچی کے نام سے ریپ گانا گایا کرتے تھے اور 2019 میں ان کا گانا ’نانی‘ خاصا زیر بحث رہا، جس میں عالمی شہرت یافتہ مصنفہ مدھور جعفری نے ایک بے باک نانی کا کردار ادا کیا۔ان کے ایک ریپ گانے میں پاکستانی گلوکار علی سیٹھی نے بھی حصہ لیا تھا اور جو کہ ان کی حالیہ انتخابی مہم کے حمایت میں نظر آئے ہیں۔اپنے ریپ گانوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے، ممدانی نے نیویارک میں مقیم ایک اخبار کو بتایا کہ ’فنکار اس دنیا کے کہانی نگار ہوتے ہیں، اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ وہ صرف برائے نام ہمارے ساتھ نہ ہوں بلکہ ہم ان کے شانہ بشانہ ساتھ چل رہے ہوں۔‘سنہ 2020 میں انھوں نے نیویارک سٹیٹ اسمبلی کے لیے انتخاب لڑا اور دس سال تک جیتنے والے رکن کو شکست دے دی۔وہ ریاستی اسمبلی میں منتخب ہونے والے پہلے جنوبی ایشیائی مرد، پہلے یوگنڈا نژاد اور صرف تیسرے مسلمان بنے۔روٹی، کپڑا، مکان اور مفت بسوں کا انتخابی نعرہان کی مہم میں لوگوں کو کافی دلچسپی ہے کیونکہ انھوں نے ایسے مسائل اٹھائے ہیں جو کہ نیو یارک جیسے مہنگے شہر کے عام لوگوں کو متاثر کرتے ہیں۔ظہران کی میئرشپ کی مہم بنیادی طور پر ایک سوشلسٹ نظریہ پیش کرتی ہے جس میں انھوں نے شہر میں رہائش، نقل و حمل اور کھانے کی سہولیات کو زیادہ منصفانہ بنانے کا وعدہ کیا ہے۔حالانکہ تنقید نگاروں، مثلا نیویارک ٹائمز اخبار کا ایڈیٹوریل بورڈ، کا خیال ہے کہ یہ منصوبے مالی طور پر ممکن نہیں ہیں۔Getty Imagesحریف اینڈریو کومو سے موازنہظہران کے سب سے بڑے حریف سابق گورنر اینڈریو کومو ہیں۔وہ 2021 میں جنسی ہراسانی کے الزامات کے بعد مستعفی ہوئے تھے اور اب سیاسی واپسی کی کوشش کر رہے ہیں۔اگرچہ ابتدائی ووٹنگ میں کومو آگے نظر آئے مگر ’رینکڈ چوائس‘ گنتی کے انداز میں ظہران تیزی سے ووٹوں کے فرق کو کم کر رہے ہیں۔کومو کی حمایت میں ریئل اسٹیٹ والے، پولیس یونینز اور سابق میئر مائیکل بلومبرگ شامل ہیں۔ جبکہ ظہران کو الگزینڈریا اوکاسیو کورتیز، برنی سینڈرز اور ورکنگ فیملیز پارٹی جیسے افراد اور اداروں کی حمایت حاصل ہے۔سیاسی مہم کا مزاحیہ طریقہ کاراگرچہ ظہران کا اندازِ سیاست مزاحیہ ضرور ہے لیکن اس میں سنجیدگی بھی ہے۔ان کی انتخابی مہم کی ویڈیوز بالی وڈ کے حوالوں کے ساتھ سماجی انصاف کے پیغامات سے بھری ہوتی ہیں۔ایک ویڈیو میں وہ آم کی لسی کے پانچ گلاس لے کر رینکڈ چوائس ووٹنگ (نیو یارک کا انتخابی نظام جہاں ووٹر امیدواروں کو پہلی سے پانچویں نمبر تک ترجیح دیتے ہیں) کی وضاحت کرتے ہیں۔انھوں نے ایک پاڈ کاسٹ پر بتایا کہ ان کی مہم لوگوں میں اتنی مقبول ہوئی ہے کہ لوگ اکثر ان کی ڈائریکٹر والدہ سے پوچھتے ہیں کہ کیا اسے انھوں نے بنایا ہے۔لیکن جب معاملہ سنجیدہ ہو تب بھی ظہران کافی اثر انگیز نظر آئے ہیں۔ایک ٹی وی پر نشر مباحثے کے دوران اینڈریو کومو نے بار بار ظہران ممدانی کا غلط نام لیا۔ظہران نے تحمل سے ان سے کہا کہ 'ان کا نام مم-دا-نی ہے۔‘ اور پھر مسکراتے ہوئے کومو کے 2021 میں جنسی ہراسانی کے الزام کے بعد استعفے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’میں نے کبھی شرمندگی کے باعث استعفیٰ نہیں دیا۔ میں نے کبھی میڈیکیڈ (غریبوں کے لیے صحت کا امریکی منصوبہ) میں کٹوتی نہیں کی۔ میں نے کبھی خواتین سے ان کی زچگی کے میڈیکل ریکارڈز کی بنیاد پر مقدمہ نہیں کیا۔ میں نے یہ سب کبھی نہیں کیا کیونکہ۔۔۔ میں آپ نہیں ہوں، مسٹر کومو۔‘یہ ایک سینیئر ڈیموکریٹ رہنما کے لیے طاقتور تردید تھی اور ویڈیو فوراً وائرل ہو گئی۔Getty Imagesانتخابی مہمظہران کے حامیوں میں نوجوان ووٹرز، تارکینِ وطن اور ترقی پسند طبقات شامل ہیں۔شہر کے جیکسن ہائٹس جیسے محلوں میں، جہاں جنوبی ایشیائی، لاطینی امریکی، اور مشرقی ایشیائی کمیونٹیز آباد ہیں، مقامی میڈیا کے مطابق ان کی مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کر رہی ہے۔ان کے لیے کام کرنے والے رضاکار انگریزی کے علاوہ ہندی، اردو، بنگلہ اور ہسپانوی زبانوں میں میں گھر گھر جا کر ان کے حمایت میں مہم چلا رہے ہیں۔ واٹس ایپ گروپوں میں پیغامات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ان کی انتخابی مہم کا دعویٰ ہے انھوں نے نیویارک شہر کی تاریخ کے سب سے بڑا فیلڈ آپریشن کیا ہے، جو تقریباً 40,000 رضاکاروں پر مشتمل ہے اور 10 لاکھ سے زیادہ گھروں تک پہنچے ہیں۔ان کے کئی اہم چیلنجرز بھی موجود ہیں جو کہ ان کے حریف کومو کی طرف جھکاؤ رکھتے ہیں، مثلا بزرگ ووٹرز۔ کچھ تنظیموں نے بھی فلسطینیوں کے لیے ظہران کی حمایت اور اسرائیل کو ایک 'یہودی ریاست' کے طور پر تسلیم نہ کرنے کے الزام پر اعتراض کیا ہے۔اس کے جواب میں ظہران نے واضح کیا ہے کہ وہ یہود مخالف بیانیے کی مذمت کرتے ہیں اور اپنے عزم کا اعادہ کیا ہے کہ وہ ہر قوم، مذہب اور نسل کے لیے برابری کے حامی ہیں۔آخری مرحلہڈیموکریٹک پرائمری (یعنی پارٹی کا ابتدائی انتخاب) 24 جون کو ہونے جا رہی ہے اور اوپینین پولز ظاہر کرتے ہیں کہ مقابلہ بہت سخت اور دلچسپ ہے۔ظہران کی جیت کا کافی انحصار اس بات پر ہے کہ نوجوان اور تارکینِ وطن ووٹروں کی شرکت کیسی ہوتی ہے۔یہ اس بات پر بھی انحصار کرے گا کہ کیا ووٹنگ کے دوران وہ ظہران کو اپنی دوسری یا تیسری ترجیح کا امیدوار مانتے ہیں، جس کا اثر نیو یارک شہر کے 'رینکڈ چوائس' ووٹنگ کے تحت ان کے حتمی ووٹوں پر ہوگا۔ظہران تاہم پر امید نظر آ رہے ہیں۔امریکہ میں پہلی مسلم خاتون میئر جن کی ’کراچی سے خاص دلی وابستگی‘امریکی کانگریس کی تاریخ میں پہلی مسلمان خواتینامریکی انتخابات میں حصہ لینے والی انڈین اور پاکستانی خواتیناقرا خالد کا بہاولپور سے کینیڈین پارلیمان تک کا سفرگولڈا میئر: ’مشرق وسطیٰ کی صنف آہن‘ جن کی اسرائیل میں سیاسی میراث ایک جنگ نے ختم کر دیٹرمپ کا تارکین وطن کو گوانتانامو بھیجنے کا اعلان اور امریکہ کے وہ شہر جو ’تارکین وطن کی پناہ گاہیں‘ ہیں