
رواں ہفتے وادی ہنزہ کے رہائشی ریحان خان دن قریب 12 بجے عطا آباد پُل کے پاس کھڑے تھے۔ انھوں نے دیکھا کہ اچانک نالے سے پانی کے ساتھ ساتھ ملبہ بھی تیزی سے سِرک رہا ہے۔دیکھتے ہی دیکھتے ان کی آنکھوں کے سامنے پانی کا رُخ عطا آباد جھیل کنارے واقع لگژری ہوٹل لکسس ہنزہ کی طرف مڑ گیا۔ تیز رفتار پانی نے نہ صرف ہوٹل جانے والا راستہ بند کر دیا بلکہ یہ ہوٹل کی عمارت سے ٹکرانے لگا۔ریحان خان کہتے ہیں کہ اس وقت ہوٹل میں موجود عملہ اور سیاح خوفزدہ ہوگئے تھے۔ ہنزہ میں آفات سے نمٹنے والے محکمے کے حکام کے مطابق اس وقت ہوٹل میں سیاحوں اور عملے سمیت قریب 150 افراد پھنس گئے تھے۔ہوٹل میں موجود ایک سیاح اور سرکاری افسر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’پانی نے (باہر جانے کا) راستہ بند کر دیا تھا اور جب یہ ہوٹل (کی عمارت) کو چھونے لگا تو موقع پر موجود سب لوگ بہت پریشان ہو گئے۔‘وہ یاد کرتے ہیں کہ ’واپسی کا کوئی راستہ نہیں تھا۔۔۔ وہ دن اور اگلی ساری رات ہم نے خوف کے عالم میں گزاری۔ اگلی صبح پانی کا بہاؤ کم ہوا تو انتظامیہ نے کشتیوں کے ذریعے ہمیں باہر نکالا۔‘گذشتہ بدھ کو ہونے والا واقعہ وہ پہلا موقع نہیں کہ لکسس ہنزہ سیلاب کی زد میں آیا ہو۔ دو سال قبل بھی ایسا ہی ایک واقعہ رونما ہوا تھا۔گلگت بلتستان میں ماحولیاتی تحفظ کی ایجنسی ای پی اے کے مطابق عطا آباد جھیل کے جس مقام پر سیلاب آیا ہے یہاں پر متواتر سیلاب آتے رہتے ہیں۔ یہاں ماضی میں بھی سیلاب آئے ہیں اور مستقبل میں بھی آنے کا امکان ہے۔بی بی سی نے موقف جاننے کے لیے لکسس ہنزہ سے رابطہ کیا تاہم ان کی جانب سے کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ گذشتہ روز انسٹاگرام پر پیغام میں لکسس ہنزہ نے بتایا کہ ’تمام مہمان اور املاک محفوظ ہیں۔ کمروں یا کاروں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا۔‘اس کا کہنا ہے کہ ہوٹل کی جانب جاتے راستے کو بحال کر دیا گیا ہے جبکہ تمام گاڑیاں بحفاظت نکال کی گئی تھیں۔ خیال رہے کہ لکسس ہنزہ رواں ماہ کے وسط میں بھی اس وقت خبروں میں آیا تھا جب ایک وی لاگر کی ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ ہوٹل کی وجہ سے جھیل کا پانی آلودہ ہو رہا ہے۔ اسسٹنٹ کمشنر گوجال سعادت علی چنگیزی نے ہوٹل کے اس حصے کو سیل کیا تھا جہاں 30 کمرے موجود ہیں۔ ایک بیان میں انھوں نے کہا تھا کہ ہوٹل کے اس حصے سے ’عطا آباد جھیل میں آلودگی پھیلائی جا رہی تھی۔‘تاہم لکسس ہنزہ کی انتظامیہ نے یہ الزام مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہوٹل کے قریب پانی اس لیے گدلا ہے کیونکہ اس مقام پر برساتی نالے کا پانی آ کر ملتا ہے۔عطا آباد جھیل میں سیلاب کیسے آیا؟ای پی اے کے ڈپٹی ڈائریکٹر خادم حسین کے مطابق عطا آباد جھیل کے مذکورہ مقام پر ماضی میں بھی سیلاب آ چکے ہیں کیونکہ یہ مقام ’ممکنہ فلڈ پوائنٹس‘ میں شامل ہے۔ان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں سیلاب کی ایک بڑی وجہ موسمیاتی تبدیلی اور برفباری کے رجحان میں تبدیلی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’کئی سال پہلے تک گلگت بلتستان میں برف باری 15 نومبر کے بعد شروع ہو جاتی تھی۔ حالیہ برسوں میں یہ برفباری نومبر، دسمبر اور جنوری تک چلی گئی ہے۔ مگر اس سال نومبر اکتوبر، دسمبر اور جنوری بالکل خشک گئے اور جنوری کے آخر میں برفباری شروع ہوئی جو کہ کئی علاقوں میں مارچ کے آخر تک ہوتی رہی تھی۔‘خادم حسین کے مطابق یہ برفباری انتہائی تاخیر سے ہوئی اور اسے ٹھوس شکل اختیار کرنے یا آئس بننے کا وقت نہیں ملا۔ ’گلگت بلتستان اور ہنزہ میں چند ہفتے تک موسم بالکل نارمل تھا۔ مگر گذشتہ چند روز سے یہاں شدید گرمی تھی۔‘انھیں خدشہ ہے کہ بظاہر عطا آباد جھیل کے قریب موجود نالے کے اوپر برف تیزی سے پگھلی ہے جس کے باعث وہاں سیلابی ریلہ آیا۔ اسی طرح گلگت بلتستان میں فلیش فلڈ اور کلاؤڈ برسٹ کے واقعات بھی ہوئے ہیں۔ خادم حسین کو خدشہ ہے کہ یہ رجحان بڑھ سکتا ہے اور مستقبل میں اس نوعیت کے مزید واقعات رونما ہو سکتے ہیں۔ہنزہ میں ڈزاسٹر مینجمنٹ کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر زبیر احمد خان کا کہنا ہے کہ 25 جون کو نالے میں اچانک تیزی سے پانی آیا تھا۔ ’پانی تیزی سے ہوٹلکے راستے کی طرف گیا۔ یہ صرف پانی نہیں تھا بلکہ اس میں ملبہ بھی شامل تھا اور ہمارے ابتدائی تجزیوں کے مطابق اس نالے میں پانی میں اضافے کی وجہ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا ہے۔‘عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا ایک حصہ سیل: غیر ملکی وی لاگر کی وائرل ویڈیو اور آلودہ پانی کا معاملہدریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘پاکستان میں 2022 کے سیلاب کا ذمہ دار کون: گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا کیا کردار ہے؟سیلاب ڈائری: ’میری بیٹیوں کا جہیز بھی بہہ گیا‘حکام کے مطابق پانی نہ صرف ہوٹل کی حدود تک پہنچا بلکہ اس کا راستہ بھی بند کر دیا جس سے راستے میں کئی گاڑیاں پھنس گئی تھیں۔ ہوٹل کے اندر موجود سیاح اور عملہ بھی محصور ہو گیا تھا۔ اس کے بعد امدادی ٹیموں کو وہاں روانہ کیا گیا تھا۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر زبیر احمد خان نے بتایا کہ پانی کو موٹروں کی مدد سے نکالا گیا ہے اور ریسکیو آپریشن کے دوران پانی کا رُخ دوبارہ تبدیل کیا گیا ہے۔ وہاں پھنسے لوگوں کو نکالنے کے بعد گاڑیوں کو نکالا گیا اور چند روز کے لیے لکسس ہنزہ کو بند رکھا گیا ہے۔اہلکار نے بتایا کہ لوگوں کو کشتیوں کی مدد سے نکالا گیا تھا۔ ’26 جون کی صبح مجموعی طور پر ڈیڑھ سو لوگوں کو نکالا گیا جس میں ہوٹل انتظامیہ کے لوگ بھی شامل تھے جبکہ سیاحوں کی تعداد قدرے کم تھی کیونکہ اکثر سیاح صبح کے وقت سیر و تفریح کے لیے نکل گئے تھے۔‘زبیر احمد خان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان اور ہنزہ میں گلیشیئر پھٹنے اور زیادہ گرمی کی وجہ سے جھیلوں میں سیلابی صورتحال پیدا ہونے کے واقعات پہلے بھی ہو چکے ہیں۔ وہ مثال دیتے ہیں کہ شیشپر گلیشیئر کی وجہ سے شاہراہ قراقرم کو نقصاں پہنچا تھا۔ اس کے علاوہ بٹورا گلیشیئر کی وجہ سے بھی سیلابی صورتحال پیدا ہوئی تھی۔ پیش آئی تھی۔وہ حسینی نالے کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایسے گلیشیئر جو آبادیوں کے قریب ہیں، ان سے زیادہ مسائل پیدا ہوتے ہیں۔’گلیشیئر سکڑ رہے ہیں‘خادم حسین کہتے ہیں کہ گلگت بلتستان کا کل رقبہ 72 ہزار 971 مربع فٹ ہے اور اس میں آٹھ ہزار سے زیادہ چھوٹے بڑے گلیشیئرز ہیں۔ ان کے مطابق ماحولیاتی تبدیلی کے ساتھ بڑھتی آبادی اور سیاحت بھی متاثر ہوئی ہے۔ ’نئے نئے پکنک پوائنٹ تلاش کیے جا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں ایسے مقامات تک آبادیوں نے رسائی حاصل کر لی ہے جہاں پر کچھ سال پہلے تک آبادی نہیں تھی۔‘ان کا کہنا تھا کہ انسانی آبادی دریاؤں، نالوں کے قریب ترین بھی چلی گئی ہے۔ ’ہو سکتا ہے کہ پانی کچھ سال کم رہے مگر پانی کا اپنا ایک قدرتی راستہ ہوتا ہے۔ جب فلیش فلڈ، سیلاب یا اس کے بہاؤ میں تیزی آتی ہے تو وہ پھر اس وقت اپنے قدرتی، تاریخی راستے پر ہی جاتا ہے اور نقصان کرتا ہے۔ اس میں بھاری پتھر اور ملبہ بھی بہہ جاتا ہے۔‘خادم حسین اور ان کی ٹیم ’اس سال مشاہدہ کر رہے ہیں کہ گلگت بلتستان کے دریاؤں اور ندی نالوں میں پانی گذشتہ سال معمول سے زیادہ چل رہا ہے۔ اب اگر اس پانی کے راستے میں آبادیاں ہوں گی یا اگر برف نے مزید تیزی سے پگھلنا شروع کیا تو ممکنہ طور پر خطرات بڑھ سکتے ہیں۔‘وہ متنبہ کرتے ہیں کہ 'پانی، گلیشیئر، درخت اور جنگلات انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے ہیں۔ مگر جب ان سے چھیڑیں گے تو یہ رحمت کی بجائے زحمت بن جائیں گی۔'انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماؤنٹین ڈیویلپمنٹ کے مطابق اگر کاربن کا اخراج موجودہ رفتار سے جاری رہا تو اس صدی کے آخر تک ہمالیہ کے گلیشیئرز اپنے حجم کا دو تہائی تک کھو سکتے ہیں۔اسلام آباد میں قائم محکمۂ موسمیات میں ڈائریکٹر ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ ڈاکٹر فرخ بشیر کو گلیشیئرز کے موضوع پر مہارت حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ سال 2018 سے ان گلیشیئرز کا حجم برفباری میں اور بارشوں کی وجہ سے کم ہوا ہے۔ ایسے اعداد وشمار تو اکٹھے نہیں کیے گئے کہ ان میں کتنی کمی واقع ہوئی ہے مگر حجم میں واضح کمی دیکھی جا سکتی ہے۔۔۔ اس کی ایک بڑی وجہ موسمی تبدیلی اور گرمی کی شدت میں اضافہ ہے۔‘ڈاکٹر فرخ بشیر کا کہنا تھا کہ خطے میں آبادی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ 'اگر دنیا کی آبادی آٹھ ارب ہے تو قراقرم، ہمالیہ کے ان پہاڑوں کے اردگرد پاکستان، انڈیا، چین، بنگلہ دیش کے چار ارب لوگ آباد ہیں۔ یہ لوگ ایندھن بھی استعمال کرتے ہیں اور ساتھ میں گاڑیاں، دھواں سب کچھ موجود ہے۔ اس سے بھی ان گلیشئرز پر بُرے اثرات پڑ رہے ہیں۔'ڈاکٹر فرخ بشیر کہتے ہیں کہ گلیشیئرز پر تحقیق میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ 'گلگت بلتستان کے گلیشیئرز دنیا سے مختلف اور بہت زیادہ بلندیوں پر واقع ہیں۔ یہ اتنے مشکل اور بڑے ہیں کہ ان تک رسائی بھی مشکل ہے۔ ایک گلیشیئر پر تحقیق کے لیے کافی عرصہ گزارنا ہوتا ہے۔'ان کا کہنا تھا کہ گلیشیئر جھیلیں مختلف صورتوں میں قائم ہیں۔ 'کچھ گلیئشر کے اوپر بنتی ہیں اور کچھ گلیشیئرز کے دامن میں۔ ان جھیلوں کے لیے ٹھوس برف یا آئس رکاوٹ ہوتی ہے۔۔۔ شدید گرمی پڑنے سے ٹھوس برف راستے سے ہٹ جاتی ہے اور یہ سیلابی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔'انھوں نے بتایا کہ خطرے کی شکار آبادیوں میں خطرے سے قبل از وقت آگاہی کے لیے سسٹم نصب کیے گئے ہیں۔ 'جب ایسا کوئی خطرہ ہو تو الارم بچ جاتا ہے اور آبادی کے انخلا کا موقع مل جاتا ہے۔''مگر تیزی سے تبدیل ہوتے ہوئے موسم میں کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ کس وقت کیا واقعہ رونما ہوجائے۔'عطا آباد جھیل کنارے ہوٹل کا ایک حصہ سیل: غیر ملکی وی لاگر کی وائرل ویڈیو اور آلودہ پانی کا معاملہدریائے سوات کے سیلابی ریلے میں بہہ جانے والا خاندان: ’میں پاگلوں کی طرح فون ملاتا رہا لیکن بیوی بچوں سے رابطہ نہ ہوسکا‘پاکستان اور انڈیا سمیت دنیا بھر میں ’فضا میں اڑتے دریا‘ جو تباہیوں کا باعث بن رہے ہیںسیلاب ڈائری: ’میری بیٹیوں کا جہیز بھی بہہ گیا‘پاکستان میں 2022 کے سیلاب کا ذمہ دار کون: گلیشیئرز کے پگھلاؤ کا کیا کردار ہے؟