
ڈیجیٹل میڈیا کے اس دور میں جہاں سوشل میڈیا پر موجودگی کامیابی کی کنجی بنتی جا رہی ہے اسی طرح پوڈکاسٹنگ پاکستان میں ایک نئے رجحان کے طور پر ابھر رہی ہے۔یہ روایتی ریڈیو سے نکل کر ایک ایسی شکل اختیار کر چکی ہے جو گہری اور تفصیلی گفتگو پر مبنی ہے۔ یہ نہ صرف ایک تخلیقی عمل ہے بلکہ ایک منافع بخش کاروبار کے طور پر بھی مقبولیت حاصل کر رہی ہے۔ لاہور کے چند پوڈکاسٹ سٹوڈیوز اس شعبے میں بازی لے رہے ہیں جو جدید آلات اور پیشہ ورانہ خدمات کے ساتھ کلائنٹس کو مکمل حل فراہم کر رہے ہیں۔حمزہ علی ایک پوڈکاسٹ سٹوڈیو کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ پوڈکاسٹنگ روایتی ریڈیو سے مختلف ہے کیونکہ یہ جامع بحث کے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کرتا ہے۔ انہوں نے اردو نیوز کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’پوڈکاسٹ بنیادی طور پر ریڈیو کی ایک شکل ہے لیکن ہم نے اسے انٹرویو میں تبدیل کر دیا ہے جہاں آپ کسی موضوع کی پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔ پوڈکاسٹ میں آپ غیرروایتی طریقے سے گفتگو کرتے ہیں جو سننے والے کو مسلسل مصروف رکھتا ہے۔‘پوڈکاسٹنگ کی کامیابی کا انحصار اعلیٰ معیار کی آڈیو اور مواد کی گہرائی پر ہوتا ہے۔ اچھے مائیکروفونز اور براڈکاسٹر جیسے آلات آواز کو صاف اور متوازن بناتے ہیں جبکہ ایڈیٹنگ کا عمل اسے مزید بہتر کرتا ہے۔حمزہ علی کے بقول ’اچھی کوالٹی کا مائیکرو فون واضح آواز کے لیے ضروری ہے۔ ہمارے جیسے سادہ مائیکرو فونز معروف کمپنیوں کے پیشہ ورانہ مائیکرو فونز جیسی آواز کا معیار نہیں دیتے۔ ایک ڈیوائس جسے براڈکاسٹر کہا جاتا ہے وہ آڈیو لیولز، ایکو، اور دیگر پہلوؤں کو متوازن کرنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے۔‘پوڈ کاسٹ سٹوڈیوز کے اس کاروبار کو شروع کرنے کا بجٹ مواد کے معیار پر منحصر ہوتا ہے۔ حمزہ علی اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ ‘پوڈکاسٹنگ کا کاروبار شروع کرنے کا بجٹ اس پر منحصر ہے کہ آپ کس معیار کا مواد تیار کرنا چاہتے ہیں؟ آپ 3 لاکھ، 10 لاکھ، یا حتیٰ کہ 30 لاکھ کے بجٹ سے بھی یہ شروع کر سکتے ہیں۔ لیکن میرے خیال میں ایک اچھا پوڈکاسٹ سٹوڈیو بنانے کے لیے آپ کو ابتدائی طور پر تقریباً 10 سے 15 لاکھ کا بجٹ درکار ہوگا جو دو ماہ کے آپریشنز کے لیے بیک اپ بھی فراہم کرے گا۔‘عام طور پر پوڈکاسٹنگ کو دو طرح سے اپنایا جاتا ہے۔ زیادہ تر مواد بنانے والے اپنا ذاتی سٹوڈیو بنا کر اپنے پوڈ کاسٹ ریکارڈ کرتے ہیں جبکہ چند لوگ اسے کاروبار کے طور پر چلا رہے ہیں۔لاہور میں ایسے کئی سٹوڈیوز موجود ہیں جہاں آپ فی گھنٹہ یا دن یا مہینے کے حساب سے اپنے پوڈ کاسٹ ریکارڈ کر سکتے ہیں۔ ان دونوں طریقوں سے مواد بنانے والے پیسے کمانے کی کوشش کرتے ہیں۔اس حوالے سے حمزہ علی نے کہا کہ ’پوڈکاسٹنگ میں کام کرنے کے دو طریقے ہیں۔ ایک یہ کہ آپ کا اپنا پوڈ کاسٹ سٹوڈیو ہو جہاں آپ مواد تیار کریں، اسے مختلف پلیٹ فارمز پر اپ لوڈ کریں، اور اشتہارات اور مانیٹائزیشن کے ذریعے پیسے کمائیں۔ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ پوڈکاسٹنگ کو ایک کاروبار کے طور پر لیا جائے جہاں آپ ریکارڈنگ سے لے کر ایڈیٹنگ اور سوشل میڈیا مینجمنٹ تک کے خدمات فراہم کر سکتے ہیں۔‘لاہور میں پوڈکاسٹ سٹوڈیوز اوسط فی گھنٹہ سات سے 10 ہزار روپے میں ویڈیوز ریکارڈ کر کے فراہم کر رہے ہیں (فوٹو: اردو نیوز)پوڈ کاسٹ سٹوڈیوز کا یہ کاروبار حالیہ دو برسوں میں ابھرا ہے، تاہم اس کے چیلنجز بھی ہیں۔ ڈاکٹر اے آر ماڈھا ایک نئے پوڈکاسٹ سٹوڈیو کے مالک ہیں۔وہ بتاتے ہیں کہ ’زیادہ تر نوجوان پوڈکاسٹنگ کرنا چاہتے ہیں لیکن بجٹ کے مسائل کی وجہ سے وہ ہچکچاتے ہیں۔ اس لیے سٹوڈیوز کی خدمات دینے کی بدولت وہ لوگ بھی اس فیلڈ میں با آسانی آسکتے ہیں۔ ہم نے اس سٹوڈیو کو چند ماہ قبل شروع کیا اور تجربہ بہت اچھا رہا ہے۔ یہ ایک اچھا کاروبار ہے جس میں نسبتاً کم سرمایہ کاری کی ضرورت ہوتی ہے۔‘لاہور میں پوڈکاسٹ سٹوڈیوز اوسط فی گھنٹہ سات سے 10 ہزار روپے میں ویڈیوز ریکارڈ کر کے فراہم کر رہے ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ ایڈیٹنگ کی سروسز بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ مالکان کے بقول اب تک ان سٹوڈیوز ڈاکٹرز اور وکلا زیادہ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ڈاکٹر اے آر ماڈھا کہتے ہیں کہ ’وکلا اور ڈاکٹرز پوڈکاسٹنگ کا اچھا استعمال کر رہے ہیں۔ ان کے شعبوں کی نوعیت ایسی ہے کہ لوگ ان کے بارے میں مزید جاننا چاہتے ہیں اور جب وہ تفصیلی بحث کے لیے بیٹھتے ہیں تو انہیں اچھا ردعمل ملتا ہے۔ اس لیے ہمارے ہاں زیادہ تر کلائنٹس ڈاکٹرز اور وکلا ہی ہوتے ہیں۔‘سوشل میڈیا اس کاروبار کی ترقی میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ شہزاد روشن گیلانی ایک پی آر اینڈ آؤٹ ریچ کنسلٹنٹ ہیں اور ’دی تھرڈ ویو‘ کے نام سے پوڈکاسٹ کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 'سوشل میڈیا ٹولز اور پلیٹ فارمز آج کل بہترین مارکیٹنگ ٹول ہیں۔ یہ ٹولز قابل رسائی ہیں، بجٹ کے لیے موافق ہیں اور ہم اسی کو استعمال کر رہے ہیں۔ اس لیے آج کے دور میں کوئی بھی فرد، تنظیم، یا ادارہ اگر ڈیجیٹل میڈیا پر اپنی متحرک موجودگی قائم نہیں کرتا وہ پیچھے رہ جائے گا۔‘پوزد کاسٹ کے لیے مواد کی تخلیق ایک کل وقتی کام ہے اور اس کے لیے ایک پیشہ ورانہ ٹیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ مسعود رضا اہیر، اہیر ڈیجیٹل نیٹ ورک کے مالک ہیں۔ ان کا دعوٰی ہے کہ آج سے دو سال قبل انہوں نے سب سے پہلے لاہور میں پوڈ کاسٹ سٹوڈیوز کی خدمات فراہم کرنے کا کام شروع کیا۔ان کے بقول ’ہم تمام سروسز فراہم کرتے ہیں جہاں ہمارے کلائنٹس اپنے مہمانوں کے ساتھ ہمارے پاس آتے ہیں اور ہم ان کے پوڈکاسٹ تین کیمرہ سیٹ اپس کے ساتھ ریکارڈ کرتے ہیں۔ اس کے بعد ہماری ٹیم پوڈکاسٹ کو ایڈٹ کرتی ہے اور ہماری سوشل میڈیا ٹیم اسے اپ لوڈ کرتی ہے اور ریلز بنا کر اس کی تشہیر کرتی ہے۔‘ ڈاکٹر اے آر ماڈھا کہتے ہیں کہ ’پوڈکاسٹنگ کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے (فوٹو: اردو نیوز) ان کا سٹوڈیو منفرد ہے جہاں کلائنٹس کی ضروریات کے مطابق سیٹ اپس موجود ہیں۔ ’ہمارے پاس کلائنٹس کے لیے مختلف سیٹ اپس اور بیک گراؤنڈز موجود ہیں۔ اگر کوئی کلائنٹ ہمارے ساتھ طویل مدتی کام کرنا چاہتا ہے تو ہم اس کی ضروریات کے مطابق ایک مخصوص بیک گراؤنڈ تیار رکھتے ہیں۔‘ ان کے مطابق یہ ایک ہی کمرہ نما ہال میں 20 سے زائد سیٹ اپس پر پوڈ کاسٹ ریکارڈ کرواتے ہیں۔خواتین کی کم نمائندگی اس شعبے میں ایک چیلنج ہے۔ پوڈ کاسٹ ریکارڈ کرنے والی خواتین کی شرح کسی حد تک بہتر ہے، تاہم اس کاروبار میں اب تک کوئی خاتون سامنے نہیں آئی۔ شہزاد روشن گیلانی نے کہا کہ ’میں نے اس شعبے میں بہت کم خواتین کو کام کرتے دیکھا ہے۔ تاہم میڈیکل کے شعبے میں بہت سی خواتین ڈاکٹرز مواد تیار کر رہی ہیں لیکن کاروباری لحاظ سے اب تک اس میں کوئی خاتون موجود نہیں۔‘پوڈکاسٹنگ کے لیے علم، مہارت اور متعلقہ ٹولز کی آگاہی بھی ضروری ہے۔ حمزہ علی کے مطابق ’آپ کو ان آلات کے بارے میں جاننا ہوگا جو آپ خریدنا چاہتے ہیں۔ مواد کی تخلیق، اور کس قسم کا مواد بنانا ہے، کون سے ٹولز درکار ہیں؟ یہ سب ضروری چیزیں ہیں۔ اس کے علاوہ اچھی ایڈیٹنگ، گرافکس، اور آڈیو وغیرہ پر عبور حاصل ہونا ضروری ہے۔‘ ڈاکٹر اے آر ماڈھا کہتے ہیں کہ ’پوڈکاسٹنگ کی طرف لوگوں کا رجحان بڑھتا جا رہا ہے اور صارفین کی تعداد بھی بہت زیادہ ہے لیکن مواد تخلیق کرنے والے کم ہیں۔ اگر آپ اچھا مواد تیار کرتے ہیں اور نئے خیالات لاتے ہیں، تو ترقی کے بے پناہ مواقع موجود ہیں۔‘ان کے مطابق نوجوان ایک موبائل فون اور مائیکروفون کے ساتھ بھی اس کاروبار میں داخل ہو سکتے ہیں۔ان سٹوڈیوز میں کلائنٹس کی ضروریات کے مطابق پیکجز پیش کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ کے پاس وقت کم ہے تو آپ ہفتے میں ایک بار ایک گھنٹے کے لیے سٹوڈیو آ کر اپنی ہفتے بھر کی ویڈیوز ریکارڈ کر سکتے ہیں۔لوگ ایسی کمپنیوں کی طرف جا رہے ہیں جو ان کی تمام ضروریات کے لیے ایک ہی جگہ پر تمام حل پیش کریں (فوٹو: دی کراؤن) شہزاد روشن گیلانی نے کہا کہ ’میں نوجوانوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ اس کاروبار میں داخل ہونے سے آپ نہ صرف اپنی مہارتیں بہتر کریں گے بلکہ لوگوں سے رابطہ بھی استوار ہوں گے۔ پرانی کہاوت تھی کہ ’زیادہ سیکھو، زیادہ کماؤ‘، لیکن اب یہ بدل چکا ہے۔ اگر آپ زیادہ کمانا چاہتے ہیں تو آپ کو سوشل میڈیا پر نظر آنا ہوگا۔‘ اس وقت لوگ ایسی کمپنیوں کی طرف جا رہے ہیں جو ان کی تمام ضروریات کے لیے ایک ہی جگہ پر تمام حل پیش کریں۔ ڈاکٹر مسعود رضا اہیر کے مطابق پوڈکاسٹنگ کا مستقبل روشن ہے۔ان کے بقول ’اگر آپ ان تمام پہلوؤں پر اچھی گرفت رکھتے ہیں تو آپ اس کاروبار کو کامیابی سے چلا سکتے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ یہ شعبہ ترقی کر رہا ہے تو یہ کہنا بجا ہوگا کہ پوڈکاسٹ شروع کرنے سے آپ کی زندگی میں بہت سے مواقع اور آسانیاں آ سکتی ہیں۔‘