
جنوبی وزیرستان، پاکستان میں دہشت گردی کا سب سے بڑا میدان رہا ہے جہاں فوج کے جوانوں نے بحالیِ امن کے لیے جانیں دیں، جہاں صحافیوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا اور جِسے امریکہ دنیا میں سب سے خطرناک جگہ کہتا ہے۔ لیکن اس خطرناک جگہ پر اب خواتین بھی صحافت کر رہی ہیں۔ کیوں؟کیونکہ یہ خواتین سمجھتی ہیں کہ کچھ علاقائی روایات اور کچھ اس علاقے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے مین سٹریم میڈیا کی بہت زیادہ توجہ اس طرف زیادہ نہیں رہی جس سے دیگر سماجی مسائل خاص طور پر خواتین کو جو مشکلیں درپیش ہیں، ان کو کافی کم رپورٹ کیا گیا۔ مئی 2018 میں خیبر پختونخوا میں ضم ہونے سے قبل یہ علاقہ جنوبی وزیرستان ایجنسی کہلاتا تھا۔ یہ قبائلی اضلاع میں (ضم اضلاع) میں سب سے بڑا ضلع ہے جس میں آٹھ تحصیلیں شامل ہیں۔ جنوبی وزیرستان کی سرحدیں شمالی وزیرستان، بنوں، لکی مروت، ژوب اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ملتی ہیں جبکہ مغرب کی جانب اس کی سرحد افغانستان کے ساتھ متصل ہے۔اکتوبر 2009 میں جب پاکستان فوج نے اس علاقے میں موجود شدت پسندوں کے خلاف آپریشن راہِ نجات شروع کیا تو اس کے نتیجے میں تقریباً پانچ لاکھ لوگ نقل مکانی پر مجبور ہوئے اور اس میں ایسی خواتین بھی شامل تھیں جن کا بیرونی دنیا سے پہلی مرتبہ رابطہ ہو رہا تھا۔ آج بھی اگر کوئی جنوبی وزیرستان کا سفر کرے تو وہاں بازاروں میں کوئی عورت نظر نہیں آتی۔ وہ اگر باہر نکلتی بھی ہیں تو صرف علاج کے لیے ہسپتال تک۔ اس کے علاوہ خواتین چشمے سے پانی بھرتے ہوئے، پہاڑوں سے لکڑی لاتے اور اپنی زرعی زمینوں پر کام کرتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔رضیہ محسود کا تعلق تحصیل لدھا سے ہے اور وہ ان چند خواتین صحافیوں میں سے ایک ہیں جو اس قدامت پسند علاقے سے متعلق رپورٹنگ، ولاگز اور تحریروں کے ذریعے دنیا کو آگاہ کر رہی ہیں۔ اردو نیوز سے گفتگو میں رضیہ محسود نے بتایا کہ انہوں نے صحافت کے سفر کا آغاز خواتین کے مسائل اور محرومیوں کو دیکھ کر شروع کیا۔ ’امن و امان کی خراب صورتحال کی وجہ سے جب ہمارے لوگوں نے نقل مکانی کی تو میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ خواتین کس طرح مشکلات کا شکار ہوئیں۔ ان کی آواز پہنچانے کا کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ اور نہ کوئی خاتون رپورٹر موجود تھی۔ اپر وزیرستان میں 50 سے 60 اور لوئر میں 70 سے 80 مرد صحافی موجود ہیں لیکن مسئلہ یہ تھا ایک تو ہماری روایات بہت سخت ہیں اور ان کو خواتین تک رسائی نہیں تھی جیسے ایک خاتون صحافی کو ہو سکتی ہے۔ تو اس صورتحال کو دیکھ کر اپنے شوہر کے مشورے سے صحافت میں آنے کا فیصلہ کیا۔‘ رضیہ محسود رپورٹنگ، ولاگز اور تحریروں کے ذریعے دنیا کو آگاہ کر رہی ہیںرضیہ محسود ایک تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے اپنی ابتدائی تعلیم تحصیل لدھا سے حاصل کی جبکہ 2014 میں ڈیرہ اسماعیل خان کی گومل یونیورسٹی سے جرنلزم کی ڈگری لی اور 2016 میں صحافت کے میدان میں قدم رکھا۔ رضیہ محسود کے مطابق رپورٹنگ کے دوران ان کے شوہر ہمراہ ہوتے ہیں جو ان کے کیمرہ مین بھی ہیں۔ ’وہ میرے لیے ایک ڈھال کی طرح ہیں۔ ان کی موجودگی میں لوگ اعتراض بھی نہیں کرتے۔‘جب رضیہ محسود گھر سے نکلتی ہیں تو مکمل پردے میں ہوتی ہیں۔ کیمرے کے سامنے بھی وہ نقاب میں ہی نظر آتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ قبائلی روایات کا احترام کرتے ہوئے صحافت کر رہی ہیں تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ وہ علاقے کی روایات کو پامال کر رہی ہیں۔ وزیرستان جیسے معاشرے میں جہاں خواتین کا منظرنامے میں آنا ہی غیرمعمولی بات سمجھی جاتی ہے وہاں کسی خاتون کا صحافت جیسے پیشے سے وابستہ ہونا ہی ایک نمایاں پیشرفت ہے۔سیما وزیر کا تعلق وانا جنوبی وزیرستان سے ہے اور وہ گومل یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ ہیں۔ ان کے مطابق جس علاقے سے ان کا تعلق ہے وہاں تو خواتین کو گھر سے جانے کی اجازت ہی نہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ صحافت تو مردوں کا کام ہے۔ تاہم وہ 2021 سے ایک مقامی اخبار کے ساتھ ساتھ ’لیڈی ٹی وی‘ کے لیے بھی رپورٹنگ کر رہی ہیں جو وزیرستان اور جنوبی اضلاع کی طالبات کا ایک پلیٹ فارم ہے۔وہ خواتین اور سکولوں کے مسائل پر کام کرتی ہیں لیکن رپورٹنگ کے دوران انہیں اکثر انٹرنیٹ کی ناقص سہولت کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے کام میں رکاوٹ ہے۔سیما وزیر کا تعلق وانا جنوبی وزیرستان سے ہے اور وہ گومل یونیورسٹی کی گولڈ میڈلسٹ ہیںسیما وزیر کو ابھی تک وانا پریس کلب کی رکنیت نہیں ملی ہے تاہم وہ اس کوشش میں ہیں کہ انہیں باقاعدہ رکن تسلیم کیا جائے۔ ’مجھے کہا گیا کہ فی الحال ہمارا کوئی ارادہ نہیں کہ ہم ممبرشپ کسی کو دیں۔‘وہ بھی ان چند خواتین میں شامل ہیں جن کو اپنے خاندان اور سسرال کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ’اب تو میرے شوہر کو بھی لوگ کہتے ہیں کہ دیکھو تمہاری بیوی صحافی ہیں اور مردوں والا کام کرتی ہیں۔ اسی سپورٹ کی وجہ سے آج میں کام کر سکتی ہوں۔ میری والدہ بہت فخر محسوس کرتی ہیں جب میں کام کرتی ہوں۔ میرے سسرال والے بھی تعلیم کے حامی ہیں۔‘لیکن سیما کو شکایت ہے کہ خواتین صحافیوں کو نوکریوں اور صحافتی تربیت کے مواقع میں نظرانداز کیا جاتا ہے۔ ایک طرف اگر ان خواتین کو گھر والوں کی طرف سے حمایت حاصل ہے تو دوسری جانب ان کو فیلڈ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ رضیہ محسود نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں نے جب ایک مرد سے انٹرویو کیا تو کچھ لوگوں نے اسے طعنے دیے کہ تم ایک نے ایک عورت کو انٹرویو کیوں دیا؟ کیا اب عورتیں ہمارے مسائل حل کریں گی؟ یہ ہمارے لیے بے عزتی کی بات ہے۔‘منفی رویوں کے باوجود رضیہ محسود نے ہمت نہیں ہاری ’میں صحافی ہوں اور میرا کام رپورٹنگ کرنا ہے، کوریج کرنی ہے چاہے جرگہ ہو یا کوئی اور جگہ۔ ایک دفعہ ایک جرگے میں میری موجودگی پر اعتراضات ہوئے لیکن میں صحافی ہوں اور صحافت میرا کام ہے۔‘ثانیہ محسود کی خواہش ہے کہ ان کو بھی مین سٹریم میڈیا میں موقع ملے تحصیل لدھا کے محسود پریس کلب کی جوائنٹ سیکریٹری، ثانیہ محسود کے مطابق وہ دنیا کو بتانا چاہتی ہیں کہ وزیرستان کی خواتین بھی باہر نکل کر کام کر سکتی ہیں۔ثانیہ محسود نے 2022 میں ماسٹرز کیا جبکہ 2024 سے ڈیرہ اسماعیل خان کے ایک مقامی اخبار کے لیے لکھنا شروع کیا۔’ہمارے علاقے سے رپورٹنگ کرنا آسان کام نہیں۔ یہ بہت چیلنجنگ ہے۔ میری پوری کوشش ہوتی ہے کہ اپنی رپورٹنگ کے ذریعے مقامی مسائل کو اجاگر کر سکوں۔ میں خواتین سے بھی بات کرتی ہوں اور خواتین سے جب کہتی ہوں کہ انٹریو لینا ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہ تو ’بُرا کام‘ ہے اور میڈیا پر آنا مناسب نہیں لیکن پھر بھی ان کو سمجھا کر کہ صرف لکھوں گی، نام نہیں دوں گی تو راضی ہو جاتی ہیں۔ میں روایات کا احترام کرتے ہوئے اپنی تحریروں کے ذریعے ان کے مسائل اجاگر کرتی ہوں۔‘ 25 برس کی ثانیہ محسود بھی وزیرستان میں رپورٹنگ کرتی ہیں تو اپنے والد یا بھائی کے ہمراہ سفر کرتی ہیں۔ ’کچھ لوگ سراہتے ہیں کہ دیکھو یہ صحافت میں آگئی ہے لیکن کچھ لوگ برا بھی مانتے ہیں کہ دیکھو غلط کام ہے یہ کیا کر رہی ہے۔ ویسے تھوڑی بہت تبدیلی آ رہی ہیں اور لوگ اپنی خواتین کو آگے بڑھنے کا موقع دے رہے ہیں۔‘ان کو سکول کے وقت سے صحافت میں آنے اور ٹاک شو کرنے کا شوق تھا۔ ’میری والدہ کو مسئلہ ہوتا ہے کہ میں صحافت نہ کروں کیونکہ لوگ برا سمجھتے ہیں لیکن میرے ابو کہتے ہیں کہ کسی سے ڈرنے کی ضرورت نہ نہیں۔ مجھے ابو کی طرف سے مکمل سپورٹ حاصل ہے۔‘ثانیہ محسود کی خواہش ہے کہ وہ بھی مین سٹریم میڈیا میں آئیں اور مشہور خواتین صحافیوں کی طرح نام کمائیں۔