’بلڈ گولڈ‘ فوجی حکومتوں کی ’بقا کا ضامن‘ اور عسکریت پسند تنظیموں کے لیے مالی فائدے کا ذریعہ کیسے بن رہا ہے؟


Getty Imagesحقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ سونا کہاں سے آتا ہےسونے کے کاروبار کے لیے یہ سال بہت منافع بخش رہا ہے۔ عالمی معیشت میں غیر یقینی اور دنیا بھر میں ہنگامہ خیز واقعات کے باعث 2025 میں سونے کی قیمتیں ریکارڈ سطح تک پہنچ گئی ہیں۔عالمی تنازعات اور تجارتی پابندیوں کے اس دور میں سرمایہ کاروں کے لیے سونا چند محفوظ اثاثوں میں سے ایک بن چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مرکزی بینکوں سے لے کر ہیج فنڈز جیسے بڑے اداروں اور عام سرمایہ کاروں تک سب کی نظریں سونے پر ہیں۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ یہ سونا کہاں سے آتا ہے اور کن علاقوں میں اس کے سبب تنازعات کو ہوا مل رہی ہے۔مغربی افریقہ کے خطے ساحل میں یہ معاملہ اور بھی سنگین ہے۔برکینا فاسو، مالی اور نائجر کی فوجی حکومتوں کے لیے سونا ان کی بقا کا ذریعہ ہے۔ یہ ممالک جہادی حملوں، علاقائی تنہائی اور ماحولیاتی تباہ کاریوں جیسے بحرانوں سے دوچار ہیں۔عالمی مشاورتی ادارے ’کنٹرول رسکس‘ کی سینیئر محقق بیورلی اوچینگ نے بی بی سی کو بتایا ’کیونکہ سونے کی قیمتیں تاریخی بلندی پر ہیں۔۔ فوجی حکومتیں امید کر رہی ہیں کہ وہ اس سے براہِ راست فائدہ اٹھا سکیں گی۔‘ورلڈ گولڈ کونسل کے مطابق یہ تینوں ممالک ہر سال تقریباً 230 ٹن سونا پیدا کرتے ہیں، جس کی مالیت موجودہ نرخوں میں تقریباً 15 ارب ڈالر (11 ارب پاؤنڈ) بنتی ہے۔تاہم چھوٹے پیمانے پر ہونے والی کان کنی کے اعداد و شمار دستیاب نہ ہونے کے باعث اصل پیداوار شاید اس سے بھی زیادہ ہو۔افریقہ کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں ان تین ممالک کی سونے کی مشترکہ پیداوار زیادہ ہے جو کہ ساحل خطے کو سونے کی عالمی منڈی میں ایک بڑا کھلاڑی بناتی ہے۔ان حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ سونے کی آمدنی سے ان کی ’خودمختاری‘ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اگرچہ حقیقت یہ ہے کہ روسی کمپنیاں مغربی ملکوں کی جگہ لیتے ہوئے سونے کی صنعت میں اپنی موجودگی بڑھا رہی ہیں۔مثال کے طور پر مالی کے فوجی سربراہ جنرل عاصمی گویتا نے حال ہی میں ایک گولڈ ریفائنری کا سنگِ بنیاد رکھا ہے جس میں روسی کمپنی یادران گروپ کا اقلیتی حصہ ہوگا۔ اس منصوبے سے اندازاً 500 براہِ راست اور 2000 بالواسطہ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔برکینا فاسو بھی اپنی پہلی گولڈ ریفائنری بنا رہا ہے اور اس نے ایک سرکاری کان کنی کمپنی قائم کی ہے جو غیر ملکی کمپنیوں کو پابند کرتی ہے کہ وہ نہ صرف 15 فیصد حصہ حکومت کو دیں بلکہ مقامی افراد کو تربیت بھی فراہم کریں۔یہاں تک کہ سوشل میڈیا پر مصنوعی ذہانت کے ذریعے جعلی مہمات بھی چلائی جا رہی ہیں جن میں 37 سالہ فوجی حکمران کیپٹن ابراہیم تراورے کو ملک میں آمدن کا ذریعہ لانے پر ہیرو بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ مصنوعی ذہانت سے بنائے گئے ایک گانے میں ریحانہ کی نقل کرتی آوازسنائی دیتی ہے جو کہہ رہی ہے’مٹی کی گہرائیوں سے نکالا سونا لیکن ہماری روحیں سچی اور قیمتی ہیں۔‘کیپٹن تراورے کو خوب سراہا جا رہا ہے مگر حقیقت اتنی خوبصورت نہیں۔بیورلی اوچینگ کے مطابق برکینا فاسو اور اس کے ہمسایہ ممالک کو فوری نقد رقم کی ضرورت ہے تاکہ وہ باغیوں کے خلاف کارروائیاں جاری رکھ سکیں۔مالی میں ان کارروائیوں کا بڑا حصہ کرائے کے روسی فوجیوں کو سونپا جا چکا ہے جن میں ویگنر گروپ اور اس کا نیا روپ ’افریقہ کور‘ شامل ہیں جو روس کی وزارتِ دفاع کے ماتحت ہے۔’افریقہ کور‘ برکینا فاسو میں فوجی تربیت میں مصروف ہے تاہم وہاں کی حکومت اس کی موجودگی سے انکار کرتی ہے۔RIA Novosti / Anadolu / Getty Imagesروس کے صدر ولادیمیر پوتن ماسکو میں برکینا فاسو کے ابراہیم تراورے کا استقبال کر رہے ہیںاگرچہ ان ممالک میں حکومتی اخراجات میں شفافیت بہت کم ہے لیکن یہ سمجھا جاتا ہے کہ حکومتیں اپنے بجٹ کا بڑا حصہ قومی سلامتی پر خرچ کر رہی ہیں۔مثال کے طور پر مالی میں فوجی اخراجات 2010 کے بعد تین گنا بڑھ گئےاور 2020 تک یہ ملکی بجٹ کا 22 فیصد بن چکے تھے۔یہ حکومتیں القاعدہ اور نام نہاد دولت اسلامیہ سے منسلک شدت پسند گروہوں کے خلاف جنگ لڑ رہی ہیں۔مگر انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے مالی کی حکومت اور روسی کرائے کے فوجی گروپ ویگنر پر عام شہریوں کے خلاف مظالم ڈھانے کے الزامات لگائے ہیں جن میں غیر قانونی ہلاکتیں، بغیر مقدمے کے قتل اور تشدد شامل ہیں۔اسی طرح کے مظالم برکینا فاسو کی فوج اور اس کے اتحادی ملیشیاؤں کی طرف سے بھی رپورٹ کیے گئے ہیں۔لندن کے تھنک ٹینک ’چیٹھم ہاؤس‘ کے ماہر ایلکس وائنز کے مطابق ویگنر گروپ اور اب ’افریقہ کور‘ اپنی خدمات کے عوض اکثر سونے یا کان کنی کے ٹھیکوں کی صورت میں ادائیگی لیتے ہیں۔وائنز کا کہنا ہے کہ ’سونے سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بہت کم حصہ مالی یا برکینا فاسو کے عوام تک پہنچتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ خود شدت پسند گروہ بھی سونے سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘مالی میں 2021 کی فوجی بغاوت کے بعد حکومت نے ان علاقوں کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی ہیں جن پر شبہ ہے کہ وہ شدت پسندوں کے ہمدرد ہیں۔ اس کے نتیجے میں کئی عام لوگ خود ان ہی جہادی گروہوں میں شامل ہو رہے ہیں جن کے خلاف حکومت لڑ رہی ہے۔ہیروں سے مالامال قصبہ جہاں زندگی راتوں رات بدل سکتی ہےزیرِ زمین سونے کی غیرقانونی کانیں: ’یہ پُرخطر کام ہے مگر 15 دنوں کے 1100 ڈالر اور سونے کا کچھ حصہ مل جاتا ہے‘800 ٹن سونا اگلنے والی کان جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک فوجی افسر نے دریافت کیاٹرمپ، ٹیرف جنگ اور معاشی غیر یقینی: کیا اس وقت سونا ہی سب سے محفوظ سرمایہ کاری ہے؟القاعدہ سے منسلک گروہ جماعت نصرت الاسلام والمسلمین جو ساحل کے علاقے میں سب سے زیادہ سرگرم ہے، نے 2025 کی پہلی ششماہی میں برکینا فاسو کی فوج پر ریکارڈ تعداد میں حملے کیے جو اس کی بڑھتی ہوئی طاقت کی نشانی ہے۔شدت پسند گروہ عالمی سطح پر سونے کی بڑھتی ہوئی مانگ سے براہ راست مالی فائدہ حاصل کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے منشیات و جرائم (یو این او ڈی سی) کی 2023 کی رپورٹ کے مطابق ساحل کے علاقے میں زیادہ تر سونا چھوٹے پیمانے (آرٹسینل) پر کان کنی سے حاصل کیا جاتا ہے جو اکثر ایسے مقامات پر ہوتی ہے جنھیں لائسنس حاصل نہیں ہوتا اور ان جگہوں پر حکومت کی نگرانی بھی نہیں ہوتی۔ایسے مقامات پر جہادی گروہ اور مقامی حکومتیں دونوں میں کنٹرول کے لیے مقابلے ہوتے رہتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ سونا ان شدت پسند گروہوں کے لیے آمدنی کا اہم ذریعہ بن چکا ہے۔رپورٹ کے مطابق اس قسم کی کان کنی سے حاصل ہونے والا زیادہ تر سونا متحدہ عرب امارات بھیج دیا جاتا ہے جو سونے کی صفائی اور تجارت کا عالمی مرکز ہے۔ڈاکٹر وائنز کے مطابق ’شدت پسند گروہ ان چھوٹے کان کنی کے علاقوں پر قابض ہو رہے ہیں تاکہ کنٹرول حاصل کر سکیں۔‘دنیا بھر میں سونے کی قیمتوں میں اضافے سے ساحل کے خطے میں جاری تنازعات مزید طول پکڑ سکتے ہیں اور ان میں شدت آ سکتی ہے۔لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ان چھوٹی کانوں میں جان خطرے میں ڈال کر سونا نکالتے ہیں ان کی اجرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔Afrikimages Agency / Universal Images Group / Getty Imagesافسوس کی بات یہ ہے کہ جو لوگ ان چھوٹی کانوں میں اپنی جان مشکل میں ڈال کر سونا نکالتے ہیں ان کی اجرت میں کوئی اضافہ نہیں ہوامالی کے شمالی علاقے کِدال میں ایک سونے کے کان کن نے (شناخت نہ ظاہر کرنے کی شرط پر) بی بی سی کے تحریری سوالات کے جواب دینے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ان کا اندازہ ہے کہ ایک بہتر دن میں وہ دس سے بیس ہزار سی ایف اے فرانک کماتے ہیں جو تقریباً 18 سے 36 ڈالر (13 سے 26 پاؤنڈ) بنتے ہیں۔اس کا کہنا تھا کہ سونے کی عالمی قیمتوں میں اضافے کے باوجود ان کی اجرت میں اضافہ نہیں ہوا۔انھوں نے مزید کہا کہ ’سونے کی قیمتیں تو بڑھ گئیں ہیں لیکن اضافی منافع کانوں کے مالکان لے جاتے ہیں۔۔۔ یہ کام خطرناک اور غیر یقینی ہے لیکن ہم میں سے بہت سے لوگوں کے لیے کمانے کا صرف یہی واحد راستہ ہے۔‘ڈاکٹر وائنز جو اقوام متحدہ کے لیے بلڈ ڈائمنڈز کے تحقیقاتی ماہر کے طور پر کام کر چکے ہیں، کو اس بات پر تشویش ہے کہ سونا افریقہ کی ’تنازعات سے جڑی‘ نئی اور اہم معدنی دولت بن چکا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سونے کو بین الاقوامی سطح پر وہ توجہ نہیں ملی جو ہیروں کو ملی تھی، حالانکہ ہیروں نے 20ویں صدی خاص طور پر 1990 کی دہائی میں کئی افریقی ممالک میں خونریزی کو ہوا دی۔سنہ 2003 میں انسانی حقوق کے گروپوں اور اقوام متحدہ کی مداخلت کے نتیجے میں کِمبرلی پراسیس سرٹیفکیشن سکیم قائم کی گئی جس نے عالمی منڈی میں ’بلڈ ڈائمنڈز‘ یعنی تنازعات سے جڑے ہیروں کی فروخت پر بڑی حد تک قابو پانے میں مدد دی۔تاہم ’بلڈ گولڈ‘ یعنی تنازعات سے جڑے سونے پر قابو پانے کی کوششیں اتنی کامیاب ثابت نہیں ہو سکیں۔اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ دنیا بھر میں اس حوالے سے کوئی یکساں اخلاقی معیار موجود نہیں۔ سونے کی عالمی منڈی کے ایک اہم ادارے لندن بلین مارکیٹ ایسوسی ایشن (ایل ایم بی اے) نے ریفائنریوں کے لیے جو اصول مقرر کیے ہیں وہ بین الاقوامی ادارے آرگنائزیشن فار اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈیولپمنٹ (او ای سی ڈی) کی رہنما ہدایات پر مبنی ہیں۔لیکن متحدہ عرب امارات میں ان ضوابط پر عمل درآمد ہمیشہ سے کمزور رہا ہے۔سنہ 2021 میں یو اے ای نے سونے کی کان کنی کے لیے اپنا ’اخلاقی معیار‘ متعارف کروایا تاہم یہ نظام اب بھی صرف رضاکارانہ بنیادوں پر قائم ہے۔ ان ضوابط کے مؤثر نفاذ کا مسئلہ ماضی میں خلیجی ریاست اور ایل ایم بی اے کے درمیان تناؤ کا باعث بھی بن چکا ہے۔اس کے علاوہ سونے کے ذرائع کی شناخت اور نگرانی کے لیے ٹریسنگ ٹیکنالوجی کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ڈاکٹر وائنز کا کہنا ہے کہ ’سونے کے لیے کوئی ’ڈی این اے ٹیسٹنگ‘ موجود نہیں۔ کافی محنت کے بعد آپ ہیروں کا سراغ لگا سکتے ہیں، خاص طور پر اس سے پہلے کہ انھیں تراشا یا پالش کیا جائے لیکن میں نے آج تک ایسا کوئی طریقہ نہیں دیکھا جو یہ بتا سکے کہ سونا کا بسکٹ کہاں سے آیا۔‘انھوں نے وضاحت کی کہ سونا ویلیو چین کے ابتدائی مراحل ہی میں پگھلا دیا جاتا ہے جس سے اس کا سراغ لگانا اور اسے ممکنہ تنازعہ زدہ علاقوں سے جوڑنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ڈاکٹر وائنز کا ماننا ہے کہ ساحل کے کچھ متنازعہ علاقوں سے تعلق رکھنے والا ’بلڈ گولڈ‘ ممکنہ طور پر برطانیہ کی منڈیوں تک بھی پہنچ رہا ہے۔’سونے کو سب سے پہلے متحدہ عرب امارات میں پگھلایا جاتا ہے، پھر جیولری انڈسٹری، دانتوں کے علاج، یا بلین (سونے کے بسکٹ) کی شکل میں آگے بھیج دیا جاتا ہے۔ اس کا کچھ حصہ یقینی طور پر برطانیہ پہنچتا ہے۔ اور ایک بار یہاں پہنچ جائے تو یہ جانچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوتا کہ یہ آیا کہاں سے ہے۔‘ڈاکٹر وائنز کے مطابق ’کِمبرلی پراسیس‘ کی کامیابی کو دہرانا اس لیے بھی مشکل ہے کیونکہ یہ نظام ریاستی حکومتوں سے نمٹنے کے لیے بنایا ہی نہیں گیا تھا۔ان کا کہنا تھا کہ ’کِمبرلی کو دراصل ایسے مسلح غیر ریاستی گروہوں کے لیے بنایا گیا تھا، جو سیرالیون اور لائبیریا جیسے ممالک میں خونریز ہیروں کی تجارت میں ملوث تھے۔‘فی الحال ساحل کے ممالک کے لیے سونے کی معاشی اہمیت اور اخلاقی ضوابط پر کمزور عملدرآمد اس بات کی علامت ہے کہ یہ قیمتی دھات اپنی اصل یا ماخذ کی پروا کیے بغیر مسلسل ہاتھ بدلتی رہے گی۔اور ساحل کے کچھ علاقوں کے لوگوں کے لیے اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ اس خونی تجارت کی قیمت اپنے وسائل، تحفظ اور کبھی کبھار اپنی جانوں سے چکاتے رہیں گے۔زیرِ زمین سونے کی غیرقانونی کانیں: ’یہ پُرخطر کام ہے مگر 15 دنوں کے 1100 ڈالر اور سونے کا کچھ حصہ مل جاتا ہے‘ہیروں سے مالامال قصبہ جہاں زندگی راتوں رات بدل سکتی ہے800 ٹن سونا اگلنے والی کان جسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ایک فوجی افسر نے دریافت کیافی تولہ 357,800 روپے: پاکستان میں سونے کی قیمت میں مسلسل اضافہ، یہ قیمتی دھات کون خرید رہا ہے اور کیا یہ سب سے محفوظ سرمایہ کاری ہے؟ٹرمپ، ٹیرف جنگ اور معاشی غیر یقینی: کیا اس وقت سونا ہی سب سے محفوظ سرمایہ کاری ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

’بلڈ گولڈ‘ فوجی حکومتوں کی ’بقا کا ضامن‘ اور عسکریت پسند تنظیموں کے لیے مالی فائدے کا ذریعہ کیسے بن رہا ہے؟

’محرم کے بعد چھٹی پر آؤں گا‘: باجوڑ دھماکے میں ہلاک ہونے والے اسسٹنٹ کمشنر جو دوستوں سے کیا وعدہ پورا نہ کرسکے

اپنی رہائشگاہ پر منعقدہ محرم کی تقریب میں خامنہ ای کی عدم شرکت، کیا رہبر اعلیٰ ابھی بھی خطرے میں ہیں؟

جاپان میں دو ہفتوں میں 900 زلزلے اور ’سمندر سے آنے والی عجیب آواز‘ نے لوگوں کی نیندیں اُڑا دیں

’محرم کے بعد چھٹی پر آؤں گا‘: باجوڑ دھماکے میں ہلاک ہونے والے ’فرض شناس‘ اسسٹنٹ کمشنر جو دوستوں سے کیا وعدہ پورا نہ کرسکے

جولائی میں 2 سے 3 اسپیل کا امکان۔۔ کراچی میں کتنی بارش ہوسکتی ہے؟ میٹرولوجسٹ کی پیش گوئی

بیبی آئل، منشیات سے بھرا گوچی بیگ اور ’وفاداری کا امتحان‘: امریکی گلوکار ’ڈڈی‘ کی سیکس پارٹیوں میں ان کے عملے نے کیا کچھ دیکھا

محمد شامی کو لینے کے دینے پڑ گئے۔۔ بیوی اور بیٹی کو کتنا خرچہ دینا ہوگا؟ عدالت نے حکم سنا دیا

’ایک ہی روح کا ہر بار نئے جسم میں حلول‘: دلائی لامہ کون ہیں اور بدھ مت کے نئے روحانی پیشوا کا تعین کرنے والے ’الہامی اشارے‘ کیا ہیں؟

’ایک ہی روح کا ہر بار نئے جسم میں حلول‘: دلائی لامہ کون ہیں اور وہ ’الہامی اشارے‘ جو بدھ مت کے نئے روحانی پیشوا کا تعین کرتے ہیں؟

اسرائیل کے ساتھ جنگ کے بعد ایران میں ’افغان مخالف‘ رویے میں اضافہ: ہزاروں افغان شہریوں کی ایران بدری

پیروکاروں کے ’نجی لمحات کی ویڈیوز ریکارڈ کر کے اُن سے نازیبا حرکات‘ کروانے والا خودساختہ مذہبی پیشوا گرفتار

انڈیا میں شاہد آفریدی سے منسوب جعلی پیغام اور یوٹیوب پر ٹرینڈ ہوتے پاکستانی ڈراموں پر بحث

سونا ایک بار پھر مہنگا۔۔ آج کتنا اضافہ ہوا؟ جانیں فی تولہ سونے کی نئی قیمت

ٹرین کے کرایوں میں 15 روز میں دوسری بار اضافہ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی