فیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی ’دلکُشا کوٹھی‘ جہاں اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب ہوں گی


Getty Imagesفیض آباد (اب ایودھیا) کی ایک تاریخی عمارت ’دلکشا کوٹھی‘ اِن دنوں خبروں میں ہے۔ اسے اودھ کے تیسرے نواب شجاع الدولہ نے سنہ 1752 کے آس پاس تعمیر کیا تھا۔اتر پردیش حکومت اب اس کی جگہ ’ساکیت سدن‘ بنا رہی ہے۔ اس منصوبے پر 60 فیصد کام پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے۔اس منصوبے کے تحت حکومت نے دلکشا کوٹھی کو ہندو یاتریوں کے لیے میوزیم میں تبدیل کرنے کا فیصلہ کیا جہاں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں بھی نصب کی جائیں گی۔تاریخ میں کئی سانحات کا سامنا کرنے والی دلکشا کوٹھی اب اپنا نام کھو سکتی ہے۔’ساکیت سدن‘ جلد ہی تاریخ میں اپنا حصہ بنانے کے لیے تیار ہو جائے گا لیکن اس سے پہلے اس تاریخ کی بات کرتے ہیں جس نے دلکشا کو ’دلکشا‘ بنایا۔ دلکشا کی دیواریں اودھ میں نوابی حکومت کی تاریخ کی گواہ ہیں۔فیض آباد اور نوابوں کا رشتہGetty Imagesاُس وقت دہلی پر مغل بادشاہوں کی حکومت تھی۔ مغل حکمران مختلف ریاستوں کی ذمہ داری گورنروں کو سونپتے تھے۔ یہ گورنر ریاستوں سے متعلق فیصلے لیتے تھے۔ اسی سلسلے میں سنہ 1722 میں ریاست اودھ کی ذمہ داری سعادت خان کے سپرد کر دی گئی۔تاہم کیا بادشاہوں کی جانب سے متعین کردہ اِن ’صوبیداروں‘ کو نواب کہا جا سکتا تھا، اس پر بحث آج بھی جاری ہے۔تاریخ دان ڈاکٹر پی سی سرکار کا کہنا ہے کہ کئی جگہوں پر نوابوں کو صوبیدار کہا گیا لیکن اُن کا مقام نواب وزیر کا تھا، جو وزیراعظم کے برابر کا عہدہ تھا۔سعادت خان اودھ کے نواب وزیر بن گئے لیکن انھوں نے یہاں مختصر وقت گزارا۔مؤرخ روشن تقی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اودھ کے پہلے نواب وزیر کو دہلی کے دربار سے سعادت خان برہان الملک کا خطاب ملا تھا۔‘انھوں نے کہا کہ ’اُن کا اصل نام میر محمد امین تھا۔ وہ سنہ 1722 سے سنہ 1739 تک نواب وزیر رہے لیکن انھوں نے یہاں زیادہ وقت نہیں گزارا۔‘اس کے پیچھے کیا وجہ تھی؟ اس پر تقی بتاتے ہیں کہ ’وہ جنگوں کا دور تھا۔ سعادت خان ایک جنگجو تھے۔ وہ زیادہ تر وقت میدان جنگ میں رہتے تھے۔‘’انھوں نے یہاں گھاگھرا کے کنارے ایک مٹی کا گھر بنایا، صرف نام کی خاطر، جسے لوگ بنگلہ کہنے لگے۔ اس طرح یہ ’کچا بنگلہ‘ کے نام سے مشہور ہوا۔ یہ علاقہ بعد میں وقت کے ساتھ بڑھتا ہوا فیض آباد بن گیا۔‘پہلے نواب وزیر کی وفات سنہ 1739 میں ہوئی۔Getty Imagesنواب صفدر جنگ کا مزار جو شجاع الدولہ نے 1753 میں بنوایاصفدر جنگ، اودھ کے دوسرے نوابسنہ 1739 میں سعادت خان کی موت کے بعد ان کے داماد جو ان کے بھتیجے بھی تھے، دوسرے نواب وزیر بنے۔ ان کا نام صفدر جنگ تھا۔ان کا اصل نام مرزا محمد مقیم تھا اور انھیں دہلی کے دربار سے 'صفدر جنگ' کا نام ملا۔صفدر جنگ نے بھی اودھ میں بہت کم وقت گزارا کیونکہ ان پر اور بھی بہت سی ذمہ داریاں تھیں۔مؤرخ پی سی سرکار بتاتے ہیں کہ ’محمد مقیم زیادہ تر وقت باہر ہی رہتے تھے لیکن پھر بھی انھوں نے فیض آباد میں کئی عمارتوں کی بنیاد رکھی۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جدید فیض آباد کی بنیاد اُن کے دور میں رکھی گئی تھی۔‘شجاع الدولہ کا خاندان دلکشا کی پہلی منزل پر رہتا تھا۔سنہ 1752 میں اودھ کے دوسرے نواب صفدر جنگ کی وفات ہو گئی۔ اس کے بعد ان کے بیٹے شجاع الدولہ اودھ کے تیسرے نواب وزیر بنے۔پچھلے دو نوابوں کے برعکس شجاع الدولہ نے فیض آباد میں کافی وقت گزارا۔ ان کے دور میں کچے بنگلے میں مزید تعمیرات ہوئیں اور یہ دلکشا بنگلہ بن گیا۔پی سی سرکار کہتے ہیں کہ ’دلکشا کوٹھی محل کے احاطے کے ڈھانچے کا ایک حصہ تھی۔ دراصل شجاع الدولہ کے دربار میں فرانسیسی مشیر تھے۔ ان میں سے ایک کرنل اینٹون پلیئر تھے۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’وہ وہی تھے جنھوں نے شجاع الدولہ کو بہت سی عمارتوں کے بارے میں مشورہ دیا تھا۔ ان کے مشورے پر دلکشا کوٹھی بھی سجائی گئی تھی۔‘شاہ جہاں: تاج محل کے معمار جن کی سلطنت امیر ترین اور رعایا غریب ترین تھیاورنگزیب: تین سو سال پہلے مر جانے والا مغل بادشاہ انڈیا میں زیر بحث کیوں؟جہاں آرا: شاہجہاں کی بیٹی جو دنیا کی ’امیر ترین‘ شہزادی بنیشاہ جہاں اور ممتاز کی شادی، جس کے لیے منگنی کے بعد پانچ سال تک انتظار کرنا پڑاشجاع الدولہ نے فیض آباد کو ترقی دیفراگوٹن ہیریٹیج آف اودھ کے محقق رگھو ونش مانی کا کہنا ہے کہ اس دو منزلہ عمارت کی ہر منزل پر تقریباً 10 کمرے تھے۔انھوں نے مختلف ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ نواب شجاع الدولہ اور ان کا خاندان حویلی کی پہلی منزل پر رہتا تھا جبکہ ان کی عدالت نچلی منزل پر واقع تھی، جہاں سے وہ مملکت سے متعلق فیصلے کرتے تھے۔رگھو ونش مانی کے مطابق ’شجاع الدولہ کے سپاہی بھی دلکشا وشا کے احاطے میں رہتے تھے۔ حویلی کے اردگرد سینکڑوں بیرکیں بنی ہوئی تھیں، جن میں سپاہی رہتے تھے۔ ساتھ ہی، حویلی کے بیرونی علاقے کو رہائشی علاقے کے طور پر تیار کیا گیا تھا، جو اہلکاروں کی رہائش کے لیے تھے۔ وہاں سبزی منڈی، گیٹ، رکاب گنج، ہنسو کٹرا بنائے گئے تھے۔‘روشن تقی بتاتے ہیں کہ فیض آباد میں زیادہ تر ترقیاتی کام شجاع الدولہ کے دور میں ہوئے۔بڑے بڑے باغات، محلات اور تاریخی مقامات جو اب ختم ہو چکے ہیں، سب ان کے دور میں بنائے گئے تھے۔ انھوں نے اس جگہ کو تجارت کا مرکز بنایا۔ان کا کہنا ہے کہ اس وقت فیض آباد سب سے خوبصورت شہر سمجھا جاتا تھا۔ دہلی کے وزیر، ان کے نمائندے اور باہر سے آنے والے سیاح بھی فیض آباد کی خوبصورتی سے متاثر ہوئے۔ان کی اور ان کی اہلیہ کی قبر بھی ٹیپولیا گیٹ پر ہے جس کے تین دروازے ہیں۔ یہ فیض آباد میں داخل ہونے کا دروازہ ہوا کرتا تھا۔ وہ بھی انھوں نے ہی نے بنایا تھا۔روشن تقی بتاتے ہیں ’فیض آباد کا نام شجاع الدولہ کے زمانے میں پڑا۔ ایک انگریز باشندے نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہر کسی کو فیض مل رہا ہے (فیض کا مطلب ہے فائدہ)۔ اس طرح اس جگہ کا نام بدل کر فیض آباد ہو گیا۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہر کسی کو سکون اور فائدہ مل رہا تھا، خواہشیں پوری ہو رہی تھیں۔‘شجاع الدولہ وہ نواب تھے جنھوں نے فیض آباد کو مکمل طور پر دارالحکومت میں تبدیل کر دیا۔ انھوں نے سعادت علی کے بنائے ہوئے ’کچا بنگلہ‘ کی تزئین و آرائش کی اور اس کی جگہ دلکشا محل تعمیر کیا۔Getty Imagesروشن تقی بتاتے ہیں کہ فیض آباد میں زیادہ تر ترقیاتی کام شجاع الدولہ کے دور میں ہوئےجب دلکشا کوٹھی افیون کا گودام بن گئیایک وقت وہ بھی آیا جب دلکشا کو ’افیون گھر‘ کا خطاب دیا گیا۔ دلکشا ہاؤس پر انگریزوں نے قبضہ کر لیا اور سنہ 1873 کے آس پاس انگریزوں نے اس حویلی کو افیون کے گودام میں تبدیل کر دیا۔افیون کے افسران وہاں تعینات تھے اور تب سے یہ ’افیون گھر‘ کے نام سے جانا جانے لگا۔پی سی سرکار بتاتے ہیں ’آزادی کے بعد حکومت ہند کے سینٹرل بیورو آف نارکوٹکس نے دلکشا کوٹھی پر قبضہ کر لیا۔ افیون کی سمگلنگ کو روکنے کے لیے، اس کے احاطے میں ایک سپرنٹنڈنٹ کا دفتر کھولا گیا۔‘ایودھیا کے ساکیت ڈگری کالج کے ادب کے پروفیسر انیل سنگھ کا کہنا ہے کہ محکمہ نارکوٹکس نے تقریباً 17 سال قبل اس دفتر کو بند کر دیا تھا۔ اس کے بعد بھی ’دلکشا‘ محکمہِ نارکوٹکس کے پاس رہا۔دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے دلکشا کی حالت بگڑ گئی۔ بالکونی مکمل طور پر گر چکی تھی۔ دیواریں بھی خستہ حال ہو چکی تھیں اور کسی بھی وقت گر سکتی تھیں۔وہ حویلی جو کبھی فیض آباد کا فخر تھی اس حالت میں کیسے پہنچی؟اس سوال پر روشن تقی کا کہنا ہے کہ ’صرف دلکشا کوٹھی ایسی عمارت نہیں بلکہ اور بھی بہت سی عمارتیں ہیں جو دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے آہستہ آہستہ تباہ ہوتی چلی گئیں۔‘’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا (ASI) کی یادگاروں کی فہرست میں فیض آباد میں 57 مقامات ہیں۔ ان میں باغات، قلعے، مقبرے جیسی جگہیں شامل ہیں لیکن ان میں سے صرف چند کو محفوظ کیا گیا۔‘روشن تقی کا کہنا ہے کہ ’ہماری طرف سے کافی کوششوں کے بعد اسے ڈسٹرکٹ لائبریری بنایا گیا تاکہ عمارت زندہ رہے اور لوگ یہاں آتے رہیں۔ مجھے نہیں معلوم کہ پچھلے دو سال میں کیا ہوا۔‘مؤرخ روشن تقی کے مطابق ’دلکشا کوٹھی نے 1857 میں ہندوستان کی پہلی جنگ آزادی میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ اس کوٹھی نے جنگ کے دوران آزادی پسندوں کو چھپنے کی جگہ فراہم کی تھی۔‘وہ کہتے ہیں کہ ’آزادی کے بعد بھی دلکشا کی حالت بہت اچھی تھی۔ اس عمارت میں ہندوستانی تاریخ کے کئی حصے شامل تھے۔‘Getty Imagesدلکشا کوٹھی سے ’ساکیت سدن‘ تک کا سفراب اتر پردیش حکومت یہاں ساکیت سدن بنا رہی ہے۔ ساکیت ایودھیا کا پرانا نام ہے جس کا مطلب ہے جنت۔اس کے علاوہ بدھ مت کے ادب میں بھی ایودھیا کو بہت اہمیت دی گئی ہے۔ پرانے بدھ ادب میں ایودھیا کو ساکیت کہا گیا ہے۔برطانوی ماہر آثار قدیمہ الیگزینڈر کننگھم، اے ایس آئی کے پہلے ڈائریکٹر جنرل نے بھی ایودھیا میں بدھ مت کے تین مقامات کی نشاندہی کی- منی پربت، کبر پربت اور سوگریوا پربت۔علاقائی ٹورازم آفیسر آر پی یادو نے کہا کہ ’ساکیت سدن پراجیکٹ کی لاگت تقریباً 17 کروڑ روپے ہے۔ یہ پروجیکٹ 6 جون 2023 کو شروع ہوا تھا۔ اس کا 60 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔‘اس پراجیکٹ کی ذمہ داری اتر پردیش پراجیکٹس کارپوریشن لمیٹڈ کو دی گئی۔جب اس کے پراجیکٹ مینیجر ونے جین سے پوچھا گیا کہ کیا ساکیت سدن نواب کے دور میں اودھ کے ورثے کا ذکر کرے گا یا شجاع الدولہ کا جنھوں نے نے دلکشا کو بنایا تھا؟اس پر انھوں نے کہا کہ نہیں، ساکیت سدن میں اودھ یا شجاع الدولہ سے متعلق کسی کہانی یا علامت کا ذکر نہیں ہو گا۔ونے جین کہتے ہیں کہ ’ساکیت سدن کی تعمیر کا مقصد بالکل مختلف ہے۔ اسے مختلف ہندو زیارت گاہوں کے میوزیم کے طور پر تیار کیا جا رہا ہے، جہاں ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں رکھی جائیں گی۔‘(بی بی سی کی نامہ نگار اپاسنا کی اضافی رپورٹنگ کے ساتھ)شاہ جہاں: تاج محل کے معمار جن کی سلطنت امیر ترین اور رعایا غریب ترین تھیاورنگزیب: تین سو سال پہلے مر جانے والا مغل بادشاہ انڈیا میں زیر بحث کیوں؟شاہ جہاں اور ممتاز کی شادی، جس کے لیے منگنی کے بعد پانچ سال تک انتظار کرنا پڑاجہاں آرا: شاہجہاں کی بیٹی جو دنیا کی ’امیر ترین‘ شہزادی بنیوہ ’خوفناک برہنہ سادھو‘ جنھوں نے انڈیا فتح کرنے میں انگریزوں کی مدد کیوہ قدیم فن تعمیر جس میں گرمی کی شدت اور بڑھتے ہوئے بجلی کے بل کا حل موجود ہے

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید تازہ ترین خبریں

انجینیئر محمد علی مرزا کے خلاف توہینِ مذہب کا مقدمہ درج: اکیڈمی سیل، گھر کے باہر پولیس کی بھاری نفری تعینات

’ایسے تو کوئی جانوروں کو بھی نہیں مارتا‘: رائیونڈ میں 30 روپے پر شروع ہونے والی بحث جو دو بھائیوں کے قتل کا باعث بنی

’نیتن یاہو نے اقتدار کے لیے عام لوگوں کی قربانی دی‘: اسرائیل میں یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ میں جنگ بندی کے لیے احتجاجی مظاہرے

بلوچستان حکومت نے 'بینک آف بلوچستان' کے قیام کا اعلان کردیا

اگلے مہینے پہلی سالگرہ تھی۔۔ شادی کے 8 سال بعد پیدا ہونے والے ننھے ریان کو گھر پر گولی کیسے لگی؟ غمزدہ باپ نے سارا واقعہ سنا دیا

انڈیا میں تیار کردہ سوزوکی کی پہلی الیکٹرک کار جو ’جاپان سمیت 100 ملکوں میں ایکسپورٹ ہو گی‘

جنگلات کی بے دریغ کٹائی پر وفاق کا نوٹس، صوبوں سے ڈیٹا طلب

فیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی ’دلکُشا کوٹھی‘ جہاں اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب ہوں گی

فیض آباد میں نواب شجاع الدولہ کی ’دلکُشا کوٹھی‘ جہاں اب ہندو دیوی دیوتاؤں کی مورتیاں نصب کی جائیں گی

بھارتی آبی جارحیت:دریائے ستلج میں درمیانے درجے کا سیلاب

جہلم: مذہبی اسکالر انجینئر محمد علی مرزا گرفتار، اکیڈمی سیل

ہمارے جسم سے آنے والی بُو ہماری صحت کے بارے میں کیا بتاتی ہے اور کیا اِس کی مدد سے ممکنہ بیماری کی تشخیص ممکن ہے؟

پنجاب میں سیلاب کا خطرہ، ڈیڑھ لاکھ افراد محفوظ مقامات پر منتقل

بلوچستان میں بدامنی اور شورش جس کی پیش گوئی نواب اکبر بگٹی نے اپنی ہلاکت سے قبل کر دی تھی

خیبر پختونخوا اسمبلی میں این ایف سی ایوارڈ پر بحث کا مطالبہ

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی