
خیبر پختونخوا اسمبلی میں صوبائی حکومت نے واضح کیا ہے کہ این ایف سی میں ضم اضلاع کے لیے کوئی حصہ مختص نہیں کیا گیا تھا کیونکہ اس وقت سابقہ فاٹا صوبے کا حصہ نہیں تھا البتہ کمیٹی برائے فاٹا ریفارمز 2016 کی رپورٹ میں تجویز کیا گیا تھا کہ این ایف سی کے تحت وفاقی تقسیم شدہ پول میں دستیاب وسائل کا تین فیصد ضم شدہ اضلاع کے لیے سالانہ بنیاد پر مختص کرنا ہوگا۔
وفاقی حکومت نے 25 ویں آئینی ترمیم کے تحت سابقہ قبائلی علاقہ فاٹا کو صوبے کے آباد علاقوں میں ضم کرنے کے عمل کو ہموار بنانے کے لیے دس سالہ ترقیاتی منصوبہ تیار کیا جس کے تحت خیبر پختونخوا کو ہر سال سو بلین روپے ادا کیے جانے تھے لیکن یہ پیسے بھی پوری طرح ادا نہیں کیے گئے۔
وقفہ سوالات کے دوران پی پی پارلیمانی لیڈر احمد کنڈی نے سوال کیا کہ ضم شدہ اضلاع کے لیے این ایف سی میں تین فیصد مختص کیا گیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ وزیر خزانہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر سال این ایف سی کا جائزہ لیتے ہیں جس کی رپورٹ آئین کے مطابق وہ صوبائی اسمبلی میں جمع کراتے ہیں لیکن یہ رپورٹ جمع نہیں ہوسکی ہے۔ اگر امن وامان اور سیلاب اہم ایشوز ہیں تو این ایف سی بھی اہم نکتہ ہے کیونکہ اس کا تعلق معیشت سے ہے۔ اگر این ایف سی شامل نہیں ہوتا اس کا بڑا نقصان صوبے کو ہوگا۔ جمعہ کے روز این ایف سی ایوارڈ سے متعلق اجلاس ہے اور صوبے کا ایڈوائزر برائے فنانس اجلاس میں شرکت نہیں کرسکے گا۔ آئین کے مطابق اجلاس میں صرف وزیر خزانہ ہی شریک ہوسکتا ہے اس معاملے پر بحث کی جائے۔ اس متعلق سوال کو قائمہ کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔
اس موقع پر صوبائی وزیر فضل شکور کی جانب سے تائید کے بعد ڈپٹی اسپیکر نے سوال متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردیا۔ ایوان نے بینک آف خیبر سے متعلق جے یو آئی رکن عدنان خان کا سوال بھی کمیٹی کو بھیج دیا۔