پوتن اور شہباز شریف کی ملاقات: ’انڈیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ پاکستان، روس اور چین کا اکٹھا ہونا ہے‘


@CMShehbazپاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف اور روسی صدر ولادیمیر پوتن نے منگل کو چین میں دو طرفہ ملاقات کی ہےسوویت کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری نکیتا ایس خروشیف 1955 میں کشمیر کے اس وقت کے ولی عہد کرن سنگھ کی دعوت پر سری نگر آئے تو انھوں نے کہا تھا کہ پاکستان نے انھیں اور سوویت یونین کے وزیر اعظم نکولائی بوگینان سے کہا تھا کہ وہ کشمیر کا دورہ نہ کریں۔نکیتا خروشیف نے کہا کہ پاکستان کی وزارت خارجہ نے کراچی میں سوویت سفیر سے کہا تھا کہ نکیتا اور نکولائی کو کرن سنگھ کی دعوت قبول نہیں کرنی چاہیے۔پاکستان کی اس درخواست پر نکیتا خروشیف نے کہا تھا کہ ’یہ ایک بدنیتی پر مبنی عمل ہے، پاکستان اپنے کندھوں پر بہت زیادہ ذمہ داری لے رہا ہے۔ یہ کسی دوسرے ملک کے اندرونی معاملے میں پاکستان کی مداخلت ہے۔ ماضی میں کسی ملک میں یہ ہمت نہیں تھی کہ ہمیں بتائے کہ ہمیں کیا کرنا چاہیے اور کس سے دوستی کرنی چاہیے۔ ہمارے انڈیا کے ساتھ بہت اچھے تعلقات ہیں۔‘اس دورے کے دوران خروشیف نے تنازعہ کشمیر کے بارے میں بھی تفصیل سے بات کی۔ خروشیف نے کشمیر کے بارے میں کہا کہ میں ان ممالک کا نام نہیں لینا چاہتا جو مسئلہ کشمیر کو اٹھانے میں دلچسپی رکھتے ہیں کیونکہ یہ بہت مشہور مسئلہ ہے۔Getty Imagesنومبر 1955 میں نکیتا ایس خروشیف اور سوویت یونین کے وزیر اعظم نکولائی بوگینین، جواہر لال نہرو اور اندرا گاندھی کے ساتھ دہلی کے پالم ہوائی اڈے پرخروشیف نے کہا تھا کہ ’مسئلہ کشمیر کو ہوا دینے والے دونوں ممالک کے درمیان نفرت کے بیج بو رہے ہیں۔‘انھوں نے کہا تھا کہ ’بہت سے ممالک کو لگتا ہے کہ کشمیر مسلم اکثریتی ہے، اس لیے اسے پاکستان کے ساتھ جانا چاہیے۔ کشمیری عوام نے انڈیا کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ کشمیری عوام سامراجی طاقتوں کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بننا چاہتے۔‘خروشیف کا پاکستان پر غصہاس دورے کے دوران خروشیف نے ہندوستان کی تقسیم پر بھی تنقید کی اور کہا کہ تقسیم مذہب کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک تیسرے ملک کی وجہ سے ہوئی جو ’تقسیم کرو اور حکومت کرو‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔خروشیف نے پاکستان کی امریکہ سے قربت کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ پاکستان تب بغداد معاہدے میں شامل ہو گیا تھا اور خروشیف کو یہ پسند نہیں تھا۔ انھوں نے بغداد معاہدے کو سوویت مخالف قرار دیا تھا۔1955 میں ترکی، عراق، برطانیہ، پاکستان اور ایران نے مل کر ’بغداد معاہدہ‘ تشکیل دیا۔ بغداد معاہدہ تب ایک دفاعی تنظیم کہلاتا تھا۔ اس میں شامل پانچوں ممالک نے اپنے مشترکہ سیاسی، عسکری اور اقتصادی اہداف کے حصول پر بات کی۔ یہ نیٹو کے خطوط پر قائم کیا گیا تھا۔سری نگر کے دورے کے دوران نکیتا خروشیف نے انڈیا سے کہا تھا کہ ’ہم آپ کے بہت قریب ہیں، اگر آپ ہمیں پہاڑ کی چوٹی سے بھی پکاریں تو ہم آپ کے شانہ بشانہ ہوں گے۔‘ لیکن اب نہ سوویت یونین موجود ہے اور نہ یہ 1955 ہے۔سوویت یونین کے ٹوٹنے کے باوجود کشمیر پر روس کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی لیکن پاکستان کے بارے میں روس کا مؤقف بھی اب وہ نہیں رہا جو خروشیف کا تھا۔@narendramodiچین میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے علاوہ وزیر اعظم نریندر مودی اور روسی صدر پوتن نے بھی دو طرفہ ملاقات کیپاکستان کی خواہش اور روس کی رضامندیروس کے صدر ولادیمیر پوتن اور پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے منگل کو وزیر اعظم مودی کے چین سے واپس آتے ہی ملاقات کی۔ اس ملاقات میں پوتن نے شہباز شریف کو بتایا کہ پاکستان اب بھی روس کا روایتی ساتھی ہے۔شہباز شریف نے پوتن سے کہا کہ وہ ’انڈیا اور روس کے تعلقات کا احترام کرتے ہیں لیکن پاکستان بھی روس کے ساتھ مضبوط تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے۔‘ جب شہباز شریف یہ کہہ رہے تھے تو صدر پوتن اثبات میں سر ہلا رہے تھے۔پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ دونوں رہنماؤں کی ملاقات کے دوران صدر پوتن نے پاکستان میں حالیہ سیلاب اور دیگر قدرتی آفات سے ہونے والے نقصانات پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’وزیراعظم محمد شہباز شریف کی قیادت میں پاکستان ان چیلنجز پر قابو پا لے گا۔‘دفترِ خارجہ کا کہنا ہے کہ صدر پوتن نے وزیراعظم شہباز شریف کو روس میں نومبر میں ہونے والے ایس سی او اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی دی ہے۔جبکہ شہباز شریف نے ایکس پر ملاقات کے بعد لکھا ’پاکستان اور روس مشترکہ طور پر تعلقات کو مضبوط بنانے کی جانب بڑھ رہے ہیں تاکہ ہمارے عوام کے مفاد کے ساتھ ساتھ خطے میں امن اور خوشحالی کو بھی فروغ دیا جا سکے۔‘جے شنکر کی چین میں غیرموجودگی: کیا مودی بیجنگ کی ناراضی کے سبب اپنے وزیرِ خارجہ کو انڈیا میں چھوڑ گئے؟ڈرون شو کی حقیقت اور ریڈ کارپٹ ویلکم: چین میں ’مودی کا استقبال شاندار رہا یا شہباز شریف کا؟‘پشاور سے امریکی جاسوس طیارے کی سوویت یونین تک پرواز جس نے دو دشمن ممالک کو مزید تلخیوں کی طرف دھکیل دیاجب پاکستانی F-16 نے سوویت یونین کا لڑاکا طیارہ مار گرایادفاعی امور کے ماہر اور تجزیہ کار پروین سہانی نے اس ملاقات کے حوالے سے ایکس پر لکھا ’انڈیا کی ترقی کے لیے یہ سمجھ لینا بہتر ہو گا کہ نئے عالمی نظام میں طاقت کا مرکز اب گلوبل ساؤتھ کی جانب منتقل ہو چکا ہے۔‘’اس منظرنامے میں انڈیا کو اپنے لیے اور گلوبل ساؤتھ کی اجتماعی ترقی کے لیے پاکستان، چین، روس، ایران اور دیگر ممالک کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔‘وہ مزید لکھتے ہیں ’ایسا لگتا ہے کہ پاکستان نے یہ سمجھ لیا ہے اور انڈیا کے ساتھ کام کرنے کے لیے تیار ہے۔‘انڈین صارف مہت چوہان نے ایکس پر وہ ویڈیو پوسٹ کی جس میں شہباز شریف، صدر شی، پوتن اور کم جونگ کے ساتھ سابق چینی فوجیوں سے ہاتھ ملا رہے ہیں۔انھوں نے لکھا ’اب پاکستان پوتن، شی جن پنگ اور کم جونگ ان کے ساتھ فرنٹ سٹیج پر کھڑا ہے۔‘ انھوں نے یہ بھی لکھا ’یہ نریندر مودی کی تباہ کن خارجہ پالیسی کا نتیجہ ہے۔‘مہت نے لکھا ’انڈیا کو فوری طور پر ایک تعلیم یافتہ وزیراعظم کی ضرورت ہے جو عالمی حالات کو سمجھتا ہو اور صحیح قیادت کر سکے۔‘پاکستانی صحافی عاصمہ شیرازی نے بھی وہی ویڈیو پوسٹ کرتے ہوئے لکھا ’کیا ہی طاقتور منظر ہے۔۔۔ وزیراعظم شہباز شریف اُن خصوصی مہمانوں میں شامل ہیں جنھیں وکٹری ڈے کی تقریب میں مدعو کیا گیا ہے، دیگر میں صدر پوتن اور شمالی کوریا کے صدر کم شامل ہیں۔ وزیراعظم مودی کو اس تقریب میں مدعو نہیں کیا گیا۔‘انڈیا کے ڈاکٹر نیمو یادیو نے ایکس پر تبصرہ کیا ’پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف پوتن، شی اور کم کے ساتھ فرنٹ سٹیج شیئر کر رہے ہیں۔ پاکستان امریکہ کے قریب بھی ہے۔ یقین نہیں آتا کہ یہ ممالک انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کو ترجیح دے رہے ہیں۔‘انھوں نے مزید لکھا ’مودی نے پاکستان کے ساتھ سیزفائر قبول کر کے بڑی غلطی کی۔‘تھنک ٹینک بروکنگز انسٹیٹیوشن کی سینئر فیلو تنوی مدن نے ایکس پر شہباز شریف اور پوتن کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ویڈیو کلپ پوسٹ کیا اور لکھا کہ ’میمز اپنی جگہ، مگر حقیقت کی دنیا الگ ہے۔‘’جہاں پوتن بیک وقت کئی محاذوں پر متوازن کردار ادا کر رہے ہیں، پاکستانی وزیراعظم سے ملاقات میں کہتے ہیں کہ وہ روس اور پاکستان کے تعلقات کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں اور انھیں مزید ’مضبوط و متحرک‘ بنانے کی بات کرتے ہیں۔‘وہ لکھتی ہیں ’یہ کوئی نئی بات نہیں۔ پہلگام کے بعد ٹرمپ کی وجہ سے روس کا مؤقف بیشتر لوگوں کی نظر سے اوجھل رہ گیا تھا۔‘تنوی مدن کا ماننا ہے کہ پہلگام میں حملے کے بعد روس نے انڈیا کو مایوس کیا لیکن کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔تھنک ٹینک او آر ایف میں انڈیا روس تعلقات کے ماہر الیکسی زخاروف نے ایکس پر شہباز شریف اور پوتن کے درمیان ملاقات کے بارے میں لکھا ’مودی کے چین جانے کے بعد، پوتن اور شہباز شریف نے دو طرفہ ایجنڈے پر تبادلہ خیال کیا۔‘’پوتن نے پاکستان کو روایتی پارٹنر قرار دیا، تجارت بڑھانےاور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں تعاون بڑھانے کی بات کی اور وزیراعظم شریف کو ماسکو کے دورے کی دعوت بھی دی۔‘ملاقات میں وزیراعظم شریف نے پوتن کو بتایا کہ گذشتہ سال دوطرفہ تجارت میں اضافہ روس سے تیل کی درآمد کی وجہ سے ہوا۔ انھوں نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ دونوں جانب سے متعدد وفود کے تبادلوں کے ساتھ ساتھ زراعت، سٹیل اور ٹرانسپورٹ خصوصاً بیلا روس-پاکستان کوریڈور میں نئے معاہدے ہوئے ہیں۔ وزیراعظم شہباز شریف نے پوتن کا شکریہ ادا کیا کہ انھوں نے پاکستان کی حمایت کی اور جنوبی ایشیا میں متوازن کردار ادا کیا۔اس موقع پر شہباز شریف نے کہا: ’ہم آپ کے انڈیا کے ساتھ تعلقات کا احترام کرتے ہیں، یہ بالکل درست ہے، لیکن ہم بھی روس کے ساتھ بہت مضبوط تعلقات قائم کرنا چاہتے ہیں۔‘@narendramodiانڈیا کو خدشہ ہے کہ پاکستان بھی روس اور چین کی دوستی میں شامل ہو سکتا ہےکیا روس پاکستان کا روایتی ساتھی ہے؟پوتن نے پاکستان کو روایتی پارٹنر قرار دیا ہے۔ لیکن کیا پاکستان واقعی روس کا روایتی پارٹنر رہا ہے؟دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سینٹر فار رشین اینڈ سینٹرل ایشین سٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں ’پاکستان کبھی بھی روس کا روایتی پارٹنر نہیں رہا، چاہے وہ سوویت یونین کے دور میں ہو یا اس کے ٹوٹنے کے بعد۔ اگر ہم برٹش انڈیا کو دیکھیں تو زار کے ساتھ ان کی دشمنی سب کو معلوم تھی۔ لیکن اب پوتن کو تاریخی پارٹنر کہا جا رہا ہے۔‘ڈاکٹر راجن کمار کا کہنا ہے کہ ’انڈیا نے روس کو صاف کہہ دیا ہے کہ اگر پاکستان کے ساتھ آپ کی قربتیں بڑھیں گی تو یقیناً ہمارے تعلقات متاثر ہوں گے۔ لیکن پاکستان ہمیشہ چین کے ذریعے روس کے ساتھ قربت بڑھانے کی کوشش کرتا رہا ہے۔‘’ظاہر ہے پاکستان اور روس دونوں چین کے اہم شراکت دار ہیں۔ پاکستان کی حکمت عملی اس براعظم میں انڈیا کے توازن کو غیر مستحکم کرنا ہے۔ انڈیا نے یوریشیائی براعظم میں روس کے ساتھ اچھے تعلقات رکھ کر پاکستان کو قابو میں رکھا ہوا ہے۔ انڈیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ پاکستان، روس اور چین کا اکٹھا ہونا ہے۔ روس اور چین پہلے ہی ساتھ ہیں۔‘ڈاکٹر راجن کمار کہتے ہیں ’یہ صرف میں ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تھنک ٹینک کارنیگی انڈومنٹ کے سینئر فیلو ایشلے جے ٹیلس بھی اسی بات پر یقین رکھتے ہیں، انھوں نے کہا کہ انڈیا مکمل طور پر امریکی کیمپ میں نہیں جا سکتا کیونکہ انڈیا کو براعظمی سطح پر خطرات ہیں۔ اگر چین، روس اور پاکستان ہاتھ ملاتے ہیں تو وہی گریٹ گیم شروع ہو جائے گی جس کا ذکر برطانوی ہند میں کیا جاتا تھا۔ انڈیا اس صورتحال کی اجازت نہیں دے گا۔‘1965 میں جب انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ ہوئی تو روس کا رویہ بہت متوازن تھا۔ تاشقند میں روس نے جو معاہدہ کروایا وہ بھی انڈیا کے خلاف گیا۔ اس معاہدے کے بعد پاکستان کو لگا کہ روس مکمل طور پر اس کے خلاف نہیں ہے۔1991 میں پاکستان نے اقوام متحدہ میں ’ساؤتھ ایشیا نیوکلیئر فری زون‘ کی تجویز پیش کی تھی جس کی انڈیا نے مخالفت کی تھی۔ بھارت کا مؤقف تھا کہ اس تجویز کی کوئی اہمیت نہیں جب تک اس میں چین کو شامل نہ کیا جائے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پاکستان کی یہ تجویز دراصل انڈیا کے ایٹمی پروگرام کو روکنے کی کوشش تھی تاہم سوویت یونین نے پاکستان کی اس تجویز کی حمایت کی۔Getty Imagesپوتن گذشتہ 25 سالوں سے روس میں برسرِ اقتدار ہیں لیکن انھوں نے کبھی پاکستان کا دورہ نہیں کیاپوتن کبھی پاکستان نہیں گئےانڈیا کی روس کے ساتھ دوستی سے امریکہ خوش نہیں ہے۔ لیکن انڈیا نے امریکی مطالبات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے۔ بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اگر امریکہ انڈیا پر روس سے دوستی توڑنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے تو اس سے پوتن کے ہاتھ ہی مضبوط ہوتے ہیں۔جب امریکہ نے انڈیا کے خلاف ٹیرف بڑھانے کی دھمکی دی تو تھنک ٹینک اننتا سینٹر کی سی ای او اندرانی باگچی نے لکھا ’یہ بہت خطرناک ہے، مغرب کا خیال ہے کہ انڈیا روس کے لیے خاص ہے، اس لیے پوتن کو خوش کرنے کے لیے انڈیا کو سزا دیں، پوتن اپنے مفادات سے پیچھے نہیں ہٹتے اور انھیں اس بات کی کوئی پرواہ نہیں کہ انڈیا کو کوئی نقصان ہو رہا ہے۔ ایسی صورت حال میں انڈیا کو ہی نقصان پہنچے گا۔‘اندرانی باغچی کے بیان کو آگے بڑھاتے ہوئے تنوی مدن نے لکھا ’اگر ٹرمپ انڈیا پر دباؤ ڈالتے ہیں تو پوتن کو فائدہ ہوگا۔ اگر انڈیا اور امریکہ کے تعلقات خراب ہوتے ہیں تو انڈیا میں روس کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ ایسی صورتحال میں انڈیا چین کے ساتھ معاہدے کے لیے زیادہ تیار نظر آئے گا۔‘تنوی مدان کے مطابق ’انڈیا میں کچھ لوگ سوچ رہے ہیں کہ ہم دوبارہ سٹریٹجک خودمختاری کی طرف جائیں گے یا چین کے قریب ہوں گے۔ لیکن میں نہیں سمجھتی کہ ٹرمپ انڈیا کے بارے میں ایسا سوچتے ہیں۔ اس وقت ٹرمپ چین کے ساتھ مقابلے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔‘اس کے باوجود ڈاکٹر راجن کمار کا ماننا ہے کہ پوتن انڈیا کے پاکستان سے متعلق خدشات کو سمجھتے ہیں۔ اس بات کی تصدیق کے لیے کہا جا سکتا ہے کہ پوتن پچھلے 25 سال سے روس میں برسرِ اقتدار ہیں اور انھوں نے آج تک پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔اب تک کسی بھی روسی صدر نے پاکستان کا دورہ نہیں کیا۔ حتیٰ کہ جب سوویت یونین قائم تھا، تب بھی کوئی صدر پاکستان نہیں گیا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے 16 سال بعد، روسی وزیراعظم میخائل فرادکوف نے 11 اپریل 2007 کو پاکستان کا دورہ کیا تھا۔جنوبی ایشیا میں انڈیا واحد ایسا ملک ہے جہاں پوتن جاتے ہیں۔ 17 مارچ 2016 کو اس وقت کے روسی سفیر برائے پاکستان ایلکسی ڈیڈوف نے انسٹیٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد میں پاکستان اور روس تعلقات پر بات کرتے ہوئے کہا تھا ’دورہ صرف رسمی نہیں ہونا چاہیے، دورے کے لیے کوئی مضبوط وجہ ہونی چاہیے۔ اگر مضبوط وجہ ہو تو دورہ ضرور ہو گا۔ لہذا تیاری اور معاہدے ضروری ہیں۔‘جب پاکستانی F-16 نے سوویت یونین کا لڑاکا طیارہ مار گرایاپشاور سے امریکی جاسوس طیارے کی سوویت یونین تک پرواز جس نے دو دشمن ممالک کو مزید تلخیوں کی طرف دھکیل دیاجے شنکر کی چین میں غیرموجودگی: کیا مودی بیجنگ کی ناراضی کے سبب اپنے وزیرِ خارجہ کو انڈیا میں چھوڑ گئے؟ڈرون شو کی حقیقت اور ریڈ کارپٹ ویلکم: چین میں ’مودی کا استقبال شاندار رہا یا شہباز شریف کا؟‘انڈیا چین تعلقات: مودی کے بیجنگ سے متعلق ’مثبت بیانات‘ چیلنجز کو کم کرنے میں مددگار ہو سکتے؟دنیا کی سب سے بڑی بحری قوت کے ساتھ چین ’سمندروں پر حکمرانی‘ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے سے کتنی دور ہے؟

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید عالمی خبریں

مودی کی چین اور روس کے لیے گرمجوشی، کیا امریکہ انڈیا پر سفارتی اثرورسوخ کھو رہا ہے؟

نائیجیریا میں کشتی الٹنے سے 60 افراد ہلاک، متعدد لاپتہ

انڈونیشیا میں خواتین ہاتھوں میں جھاڑو تھامے سڑکوں پر احتجاج کیوں کر رہی ہیں؟

طاقت کا مظاہرہ، ٹرمپ کی ناراضی اور عالمی قیادت: شی جن پنگ کی تقریر اور چین کی پریڈ میں چھپا ہوا پیغام

اسرائیل کا ’نیا جاسوس سیٹلائٹ‘ جو ’ہر وقت، ہر جگہ نظر رکھ سکتا ہے‘

پوتن اور شہباز شریف کی ملاقات: ’انڈیا کے لیے سب سے بڑا خطرہ پاکستان، روس اور چین کا اکٹھا ہونا ہے‘

افغانستان: زلزلہ متاثرین کی امداد، کمانڈوز کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اتارا گیا

بنگلہ دیش کا وہ چیمبر جو کبھی کھلا ہی نہیں، کیا ’دریائے نور‘ ہیرا اب بھی وہاں محفوظ ہے؟

چینی صدر روس اور شمالی کوریا سے مل کر امریکہ کے خلاف سازش کر رہے ہیں، ٹرمپ

چینی صدر روس اور شمالی کوریا سے مل کر امریکہ کے خلاف سازش کر رہے ہیں، صدر ٹرمپ

چین کی فتح کا دن: صدر شی جن پنگ کا دنیا کو امن کا پیغام

خیرالدین بربروس: ’سمندروں کا بادشاہ‘ بحری قزاق سلطنتِ عثمانیہ کا کمانڈر کیسے بنا

جرمنی میں اگست 2025 کے دوران پناہ کی درخواستوں میں نمایاں کمی

خیرالدین باربروسا: ’سمندروں کا بادشاہ‘ بحری قزاق سلطنتِ عثمانیہ کا کمانڈر کیسے بنا

’گوام کلر‘، دیوہیکل آبدوز ڈرون اور جوہری میزائل: فتح کی پریڈ میں نئے چینی ہتھیار اور ’مغربی دنیا کی پریشانی‘

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی