1965 کی جنگ: جب چین کی شمولیت کے خدشے پر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے انڈیا اور پاکستان میں جنگ بندی کروائی


Getty Imagesستمبر 1965 میں انڈیا نے جموں و کشمیر اور سرحدی مغربی ریاستوں پنجاب اور راجستھان میں کئی محاذ کھول دیے تھےامریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کئی بارکہہ چکے ہیں کہ اس سال مئی میںانھوں نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ بندی کروائی تھی۔ان کے اس دعوے سے متعلق تفصیلات کا علم تو کچھ سال بعد ہی ہو سکے گا البتہ قانوناً افشا کی گئی امریکی دستاویزاتسے پتا چلتا ہے کہ1965 میں کئی ماہ کی جھڑپوں اور سترہ روزہ جنگ کے بعد امریکہ ہینے جنوبی ایشیا کے ان دو متحارب ملکوںمیں جنگ بندی کروائی تھی۔انسائکلوپیڈیا برٹینیکا کے مطابق جنوری 1965 سے رن آف کچَھپر چلیلڑائی کے برطانیہ کی ثالثی سے جون میں ختم ہونے اور انڈیا کےزیرانتظام کشمیر میں پاکستان کے 'آپریشن جبرالٹر' اور 'آپریشن گرینڈ سلَیم' کے کامیاب نہ ہونے کے بعد ستمبر میں انڈیا نے جموں و کشمیر اور سرحدی مغربی ریاستوں پنجاب اور راجستھان میں کئی محاذ کھول دیے۔'جنگ فضا میں بھی لڑی گئی اور مختصر طور پر سمندر میں بھی اور پھر انڈیا اور پاکستان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کیایک قرارداد قبول کرتے ہوئے فوری جنگ بندیکر لی۔'لیکن اُس دور کی امریکیدستاویزات، جن کی رازداریعموماً 25 سالاور بعض صورتوں میں 10 سال بعد قانون کے تحتختمہوتی ہے، بتاتی ہیں کہ یہ جنگ اتنی بھی آسانی سے بند نہیں ہوئی تھی۔19 اگست 1965 کو انڈیامیں تعینات امریکی سفیر چیسٹر بولز نےصدر لنڈن بی جانسن کو ایک 10 صفحات پر مشتمل میمورنڈممیں لکھا کہ سنہ 1962 کی چین، انڈیا جنگ کے بعد امریکہ کے پاس یہ موقع تھا کہ وہ انڈیاکا سب سے بڑا فوجی مددگار بنے، لیکن اسمیں ناکامی نے سوویت اثر و رسوخ کے لیے راستہ کھول دیا۔انھوں نے تجویز دی کہ امریکہ انڈیا کے لیے امدادی پروگرام جاری رکھے اور انڈیاکی دفاعی ضروریات، حتیٰ کہ ایف فائیو طیارے، مہیا کرنے کا راستہ کھولے۔بولز نے تسلیم کیا کہ اس پر پاکستان ردِعمل دے گا مگر یہ بھی کہا کہ امریکہ کو یہ ردِعمل برداشت کرتے ہوئے پاکستان کو اس کی معاشی امداد کے ذریعے مطمئن کرنا ہوگا۔28 اگست کو صدر جانسن نے اپنے نیشنل سکیورٹی ایڈوائزر میکجارج بنڈی، نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ایگزیکٹو سیکریٹری بروملی سمتھ اور وزیرِ خارجہ ڈین رسک سے متعلق ایک نوٹ میں لکھا:'میں نے چیسٹر بولز کا میمورنڈم پڑھا ہے اور میں بہترین تجزیہ چاہتا ہوں۔ میری رائے میں ہمیں پاکستان اور انڈیادونوں کو فوجی امداد دینا ترک کر دینا چاہیے۔ میں اس معاملے پر رسک سے ملاقات کرنا چاہتا ہوں۔'Getty Imagesامریکی صدر لنڈن بی جانسن نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ رُکوانے میں اہم کردار ادا کیا تھابولز نے پاکستان کے 'آپریشن گرینڈ سلَیم' کے بعد انڈیا میں وزیراعظم لال بہادر شاستری سمیت اعلیٰ قیادت سے بات چیت میں انھیں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا۔دو ستمبر کو ایک ٹیلی گراممیں چیسٹر بولز نے زور دیا کہ امریکہ کو دونوں ممالک پر براہِ راست دباؤ ڈالنے کی ضرورت ہے تاکہ وہ سیکرٹری جنرل یو تھانٹ (تلفظ: اُوتھاں) کی جنگ بندی کی اپیل مانیں۔انھوں نے لکھا کہ اگر انڈیا اپیل مان لیتا ہے لیکن پاکستان نہ مانا تو انھیں یہ اختیار دیا جائے کہ شاستری کو بتا سکیں کہ امریکہ فوری طور پر پاکستان کی تمام فوجی امداد بند کر دے گا۔بولز نے زور دیا کہ تنازع کے دونوں فریقوں کو یہ اطلاع دی جائے کہ اگر کسی کمیونسٹ ملک کی طرف سے کسی ایک پر حملہ ہوتا ہے تو امریکہ حملے کا نشانہ بننے والے فریق کا دفاع کرے گا۔امریکی سفیر والٹ وائلز مکوناہی کی صدر ایوب خان اور وزیرِ خارجہ بھٹو سے ملاقاتتاہم اسی روز واشنگٹن سے بولز کو آگاہ کیا گیا کہ اعلیٰ ترین سطح پر فیصلہ ہوا ہے کہ فی الحالانڈیا یا پاکستان پر براہِ راست دباؤ نہ ڈالا جائے بلکہ بنیادی طور پر اقوام متحدہ ہی پر انحصار کیا جائے۔چارستمبر 1965 کو صدر لنڈن بی جانسن نے اپنے پاکستانی ہم منصبمحمد ایوب خان کے دو روز پہلے کے ایک خط کے جواب میں انھیں لکھا کہ وہ 'کشمیر کی نازک صورت حال پر ان کی تشویش سے اتفاق کرتے ہیں۔'لیکن انھوں نے زور دیا کہ لڑائی فوری طور پر بند ہونی چاہیے اور اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل اور سلامتی کونسل کی جنگ بندی کی اپیل کی مکمل حمایت کی۔چھ ستمبر 1965 کی صبح انڈیا کی فوج نے لاہور کے قریب سرحد پار چار رُخی حملہ کردیا۔اسی روز امریکی سفیر والٹ وائلز مکوناہی نے صدر ایوب خان اور وزیرِ خارجہ ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی۔ اس ملاقات کی تفصیل انھوں نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے واشنگٹن روانہ کی۔ٹیلی گرام کے مطابق 'ایوب نے کہا کہ اگر کوئی پیکج ڈیل ہو تو حکومتِ پاکستان اس پر غور کرنے کو تیار ہے۔ اگر جنگ بندی ہونی ہے تو اس کا کوئی نتیجہ بھی نکلنا چاہیے۔'امریکی سفیر والٹ کے بھیجے گئے ٹیلی گرام کے مطابق 'میں نے زور دیا کہ پہلے آگ بجھانا ضروری ہے کیونکہ جب گھر جل رہا ہو تو مستقل حل پر بات کرنا ممکن نہیں۔'ٹیلی گرام کے مطابق 'بھٹو نے کہا کہ صرف جنگ بندی سے بنیادی مسئلہ مزید الجھ جائے گا۔ اب وقت ہے ایک باعزت تصفیے کا۔''ایوب نے کہا کہ اقوامِ متحدہ کمزور ہو چکا ہے اور مؤثر کردار ادا نہیں کرے گا۔ امریکہ پہلے ہی بیچ میں ہے اور اس ذمہ داری سے بچ نہیں سکتا۔'ٹیلی گرام کے مطابق 'ایوب نے کہا کہ پاکستان نے انڈینعلاقے پر حملہ نہیں کیا، کشمیر ایک متنازع علاقہ ہے۔ تنازع کا حل طاقت یا یک طرفہ اقدامات سے نہیں نکل سکتا۔'چھ ستمبر کی سہ پہر امریکی وزیرِ خارجہ رسکنے دلّی میں اپنے سفارت خانے کو ایک ہنگامی پیغام بھیجا جس میںخبردار کیا گیاکہ اس لڑائی کے جاری رہنے سے چین کی شمولیت کا خطرہ ہے، جو سرد جنگ کے تناظر میں دونوں ملکوں کے لیے اور زیادہ نقصان دہ ہو گا۔پیغام میں زور دیا گیا کہ دونوں ملک سلامتی کونسل اور سیکرٹری جنرل کی اپیل پر فوری جنگ بندی کریں اور اپنی افواج واپس بلائیں۔جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیا1965 کی جنگ: جب پاکستانی فضائیہ نے انڈیا کے دس جنگی طیارے تباہ کیےپاکستانی فضائیہ کو حیران کرنے والے سکواڈرن لیڈر دیوایا جن کی قبر دشمن ملک کے کھیت میں ہےسیف الاعظم: پاکستانی فضائیہ کے وہ پائلٹ جنھوں نے چھ روزہ جنگ میں اسرائیلی طیاروں کو مار گرایاچھ ستمبر کی امریکیانٹیلیجنس رپورٹس کے مطابقانڈیا نے مشرقی پاکستان کی سرحد پر فوجی دستوں میں نمایاں اضافہ کر دیا تھا۔سات ستمبر کوجانسن کے نائب خصوصی معاون برائے قومی سلامتی رابرٹ کومر نے صدر جانسن کو یادداشت میں بتایا کہ پاکستان نے بظاہر پنجاب میں انڈین حملہ روک لیا ہے، جبکہ مشرقی پاکستان پر انڈین یلغار کا خدشہ ہے۔'دونوں ممالک تاحال جنگ بندی کی اپیلوں پر کوئی ردعمل نہیں دکھا رہے۔ چین نے پاکستان کی 'پختہ حمایت' کا اعلان کیا ہے مگر یہ محض الفاظ سے آگے نہیں بڑھا، جبکہ سوویت یونین نے کھل کر اقوامِ متحدہ کی جنگ بندی کی اپیل کی حمایت کی ہے۔'جب امریکہ نے پاکستان اور انڈیا کو فوجی ساز و سامان کی فراہمی بند کر دیسات ستمبر کے ٹیلی گرام 398 (کراچی) میں وزیرِ خزانہ محمد شعیب کا پیغام درج تھا جسے مکوناہی نے اعلیٰ سطح پر غور کے لائق سمجھا۔'شعیب نے نشان دہی کی کہ بھٹو نے امریکہ سے وعدے پورے کرنے کا مطالبہ اس علم کے باوجود کیا کہ واشنگٹن واضح اور حتمی جواب نہیں دے سکے گا۔ ان کے مطابق جنگ بھٹو کے الفاظ میں موقع فراہم کر رہی تھی کہ امریکی حامیوں کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دیا جائے۔''شعیب نے خدشہ ظاہر کیا کہ امریکہ مخالف حملے بڑھیں گے اور دونوں ملکوں میں غلط فہمیاں مزید گہری ہوں گی۔ اس ماحول کو متوازن کرنے کے لیے انھوں نے امریکہ سے کسی حمایت کے اشارے کی درخواست کی۔'لیکن امریکی کانگریس کی جانبسے دباؤ پر 8 ستمبر 1965 کو انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ چھڑنے پر امریکہ نے دونوں ممالک کو فوجی ساز و سامان کی فراہمی پر پابندی عائد کر دی۔Getty Imagesاس وقت کے پاکستانی صدر فیلڈ مارشل ایوب خانوارن آئی کوہن اور نینسی برنکوف ٹَکر کی ادارت میں چَھپی 'لنڈن جانسن کنفرنٹس دی ورلڈ: امیریکن فارن پالیسی1963- 1968' میں لکھا ہے کہ اسی وقت رَسک نے دلُی اور پاکستان میں سفیروں کو ہدایت دی کہ وہ شاستری اور ایوبپر یہ واضح کریں کہ امداد روکنے کا امریکی فیصلہ نہ تو 'سزا' ہے اور نہ ہی 'دھمکی' بلکہ 'یہ صرف اس لیے ہے کہ امریکی رائے عامہ کی نظر میں ایک جنگ کی صورت حال میں امریکہ اقوام متحدہ کی اپیل برائے جنگ بندی کی حمایت اور ایک ہی وقت میں ایسے ہتھیار فراہم کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتا جو مزید لڑائی میں استعمال ہوں۔''مزید یہ کہ کانگریس میں جنوبی ایشیا کی صورت حال پر شدید ردعمل نے اس فیصلے کو ناگزیر بنا دیا ہے۔'چین کی دھمکیآٹھ ستمبر کو چین نے انڈیاکو ایک سخت انتباہی نوٹ بھیجا جس میں الزام لگایا گیا کہ انڈینفوج نے چینی سرحد کی سنگین خلاف ورزیاں کی ہیں۔ نوٹ میں خبردار کیا گیا کہ اگر یہ کارروائیاں نہ رکیں تو اس کے نتائج کی ذمہ داری انڈیاپر ہوگی۔واشنگٹن میں اس دھمکی کو نہایت سنجیدگی سے لیا گیا۔نو ستمبر کو وزیرِ خارجہ ڈین رَسک نے صدر جانسن کو ایک یادداشت میں خبردار کیا کہ چین کے انڈیا کے لیے سخت مطالبات اور پاکستان، چین روابط کی افواہیں خطرناک امکانات کو جنم دے رہی ہیں اور یہ جنگ ایک آزاد دنیا بمقابلہ کمیونسٹ تصادم میں بدل سکتی ہے۔رسک نے توجہ دلائی کہ یہ جنگ براہِ راست امریکی مفادات کو متاثر کر رہی ہے۔رَسک نے زور دیا کہ یوتھانٹ کا مشن دونوں ممالک کو تباہی کے دہانے سے پیچھے لانے کا موقع ہے، ورنہ منظرنامہ نہایت مایوس کن ہوگا۔اسی روز وزیر خارجہ ڈین رسک نے نئی دہلی میں امریکی سفیر کو ہدایت کی کہ وہ فوراً انڈین قیادت سے بات کریں اور انھیں سمجھائیں کہ جنگ کو مشرقی محاذ تک نہ پھیلایا جائے۔دس ستمبر کو رابرٹ کومر نے صدر جانسن کو رپورٹ دی کہ پاکستانی جوابی حملوں نے لاہور کے قریب انڈیا کو سخت دباؤ میں ڈال دیا ہے اور دہلی تشویش زدہ ہے۔'یوتھانٹ کی پاکستانی قیادت سے بات چیت آگے نہیں بڑھی کیونکہ وہ جنگ بندی کو کشمیر کے حل سے مشروط کر رہے ہیں، اور مکوناہی کی بھٹو سے گفتگو بھی بے نتیجہ رہی۔''انڈین بیانات کا محتاط لہجہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ پاکستانی حملوں سے فکرمند ہیں، البتہ مذاکرات پر تیار نہیں۔'واشنگٹن کا خیال تھا کہ دونوں فریق مزید خون خرابے کے بعد ہی سنجیدہ مذاکرات پر آمادہ ہوں گے۔ کومر نے کہا کہ اگلے ایک دو ہفتے میں پنجاب کے محاذ پر پاکستان بہتر کارکردگی دکھا سکتا ہے، لیکن اس سےانڈیا مزید ہٹ دھرمی دکھائے گا جبکہ پاکستان کو اسلحے اور گولہ بارود کی کمی کا خطرہ لاحق ہے۔'ابھی تک چین کی طرف سے شور شرابے کے سوا کوئی عملی قدم سامنے نہیں آیا، لیکن دہلی کو خدشہ ہے کہ پاکستان انڈیا کو مشرقی پاکستان پر حملے پر اُکسانے کی کوشش کر سکتا ہے، کیونکہ اس سے چین مداخلت پر آمادہ ہو سکتا ہے۔'Getty Imagesلعل بہادر شاستریاسی روز ایران اور ترکی نے ایک مشترکہ اعلامیے میں جنگ کی ذمہ داری انڈیا پر عائد کی گئی اور پاکستان کی حمایت کا یقین دلایا گیا۔ دونوں ملکوں نے اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل کی جنگ بندی کی اپیل کی توثیق کی اور کہا کہ وہ اپنی افواج کے دستے اقوامِ متحدہ کو امن فوج کے طور پر دینے کے لیے تیار ہیں۔سولہ ستمبر کے امریکی انٹیلیجنس اندازے کے مطابق چین جنگ میں براہِ راست بڑی فوجی کارروائی سے گریز کرے گا اور زیادہ تر سیاسی حمایت، دھمکیوں اور علامتی امداد تک محدود رہے گا۔'امکان ہے کہ وہ سرحد پر چھوٹی جھڑپیں کرے، مگر 1962 جیسی محدود جنگ کے امکانات بھی کم ہیں۔ اس کا اصل مقصد سیاسی اور نفسیاتی دباؤ ڈالنا ہوگا، فوجی برتری حاصل کرنا نہیں۔'12 ستمبر کو کراچی سےسفیر مکوناہی نے اطلاع دی کہ انھوں نے پاکستانی وزارتِ خارجہ کو ایک نوٹ دیا ہے جس میں جنگ کو مشرقی پاکستان تک نہ پھیلانے پر زور دیا گیا۔Getty Imagesایوب خان اور لعل بہادر شاستری تاشقند میں'لنڈن جانسن کنفرنٹس دی ورلڈ' کے مطابق چین کی ایک دھمکی آمیز یادداشت (17 ستمبر) نے جانسن انتظامیہ کو اچانک گھیر لیا اور بحران کو ایک نئے خطرناک مرحلے پر پہنچا دیا۔'بیجنگ نے مطالبہ کیا کہ انڈیا اگلے 48 گھنٹوں میں سکم۔تبت کی سرحد پر فوجی تنصیبات ختم کرے۔ امریکی تجزیہ کاروں کو خدشہ تھا کہ یہ دھمکی چین کی براہ راست مداخلت کا پیش خیمہ بھی ہو سکتی ہے۔ امریکہ، جو ویتنام میں اپنی فوجی موجودگی بڑھا رہا تھا، انتہائی احتیاط کے ساتھ اس امکان کو دیکھ رہا تھا کہ چین جنوبی ایشیا میں فوجی مداخلت کرے۔ یہ امریکہ کے مفادات اور اس کی ساکھ کے لیے ایک عالمی نوعیت کا چیلنج بن سکتا تھا۔'کتاب کے مطابق 'اس دھمکی کے جواب میں صدر جانسن نے وزارتِ دفاع اور وزارتِ خارجہ کو فوجی ہنگامی منصوبے تیار کرنے کو کہا۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرلیوتھانٹ کی جنگ بندی کی کوششوں کی بھرپور حمایت کی۔ یہ کوششیں بالآخر 20 ستمبر کو سلامتی کونسل کی قرارداد پر منتج ہوئیں، جس میں دونوں فریقوں سے کہا گیا کہ وہ 22 ستمبر تک تمام جنگی کارروائیاں بند کریں اور موجودہ لڑائی سے پہلے والی پوزیشن پر واپس چلے جائیں۔'کتاب کے مطابق 'انڈیا 21 ستمبر کو جنگ بندی پر آمادہ ہوگیا۔ لیکن پاکستان نے شروع میں اقوام متحدہ کی قرارداد کو رد کر دیا۔ امریکی انتظامیہ کو اندیشہ تھا کہ پاکستان کا یہ رویہ چین کی مداخلت کو دعوت دے سکتا ہے۔ نتیجتاً واشنگٹن کی ہدایات پر سفیر مکوناہی نے صدر ایوب کو سختی سے متنبہ کیا کہ اگر پاکستان نے جنگ بندی قبول نہ کی تو وہ مغرب سے مستقل طور پر الگ تھلگ ہو سکتا ہے۔'کتاب کے مطابق 'بالآخر 22 ستمبر کو اضافی امریکی دباؤ کے بعد ایوب نےاقوامِ متحدہ کی قرارداد کو 'غیر تسلی بخش' قرار دیتے ہوئے 'بین الاقوامی امن کی خاطر' بمشکلجنگ بندی کی تجویز قبول کی۔ تاہم پاکستانمیں سڑکوں پر بڑے پیمانے پر امریکہ مخالف مظاہرے ہوئے، امریکی سفارت خانے اور قونصل خانے پر حملے ہوئے اور امریکی لائبریری کو آگ لگا دی گئی۔'سی آئی اے رپورٹ میں انڈیا، پاکستان تنازع ختم نہ ہونے کی پیش گوئیامریکیدستاویزات میں لکھا ہے کہ سلامتی کونسل نے 20 ستمبر کو قرارداد 211 منظور کی جس میں جنگ بندی اور مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے مذاکرات پر زور دیا گیا اور امریکہ اور برطانیہ نے دونوں متحارب فریقوں کو اسلحے کی فراہمی بند کر کے اقوامِ متحدہ کے فیصلے کی حمایت کی۔'یہ پابندی دونوں پر لاگو ہوئی، لیکن پاکستان زیادہ متاثر ہوا۔ اقوامِ متحدہ کی قرارداد اور اسلحے کی فراہمی رکنے کا فوری اثرجنگ بندیکی صورت میں سامنے آیا۔'یکم اکتوبر کی یادداشت میں کومر نے لکھا کہ پاکستان میں امریکہ مخالف اور چین نواز رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔'دوسری طرف سفیر بولز نے رپورٹ کیا کہ انڈیا کسی صورت کشمیر پر سمجھوتے کو تیار نہیں ہوگا اور خدشہ ظاہر کیا کہ اگر اس کیامداد مزید روکی گئی تو یہ بالآخر سوویت یونین کے فائدے میں جائے گا۔دس جنوری 1966 کو تاشقند (اس وقت سوویت یونین کا حصہ، آج کا ازبکستان) میں انڈیا کے وزیرِاعظم لال بہادر شاستری اور صدر ایوب خان نے تاشقند معاہدے پر دستخط کیے، جس کے ذریعے 1965 کی جنگ کا باضابطہ خاتمہ ہوا اوردونوں ملکوں نے جنگ سے پہلے کی سرحدی حیثیت بحال کرنے اور دوستانہ تعلقات قائم کرنے پر اتفاق کیا۔'لنڈن جانسن کنفرنٹس دی ورلڈ' کے مطابق سوویت ثالثی کے لیے جانسن کی حمایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس جنگ نے خطے کے بارے میں امریکہ کے طویل عرصے سے قائم پالیسی مفروضات کو کس قدر ہلا کر رکھ دیا تھا۔انسائکلوپیڈیا برٹینیکا میں لکھا ہے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے 1965 ہی میں خبردار کیا تھا کہ یہ تنازع 'کسی طرح ختم نہیں ہوا' اور مستقبل میں مزید جھگڑے ناگزیر ہیں۔حقیقتاً کشمیر کا مسئلہ بدستور حل طلب رہا۔ 1999 میں انڈیا اور پاکستان نے کارگل (کشمیر) میں ایک اور جنگ بھی لڑی۔ آج تک کشمیر جنوبی ایشیا میں تصادم کا سب سے خطرناک فلیش پوائنٹ ہے۔جب ایک نہتے پاکستانی فوجی پائلٹ نے 55 مسلح انڈین فوجیوں کو ’حاضر دماغی سے‘ قیدی بنا لیاپاکستان کا پہلا ’یوم دفاع‘ جب ’سارے مجاہد بن گئے سوائے ایوب خان کے‘کیا انڈیا کے ’54 لاپتہ‘ فوجی پاکستان کی قید میں ہیں؟جب شاہ ایران نے 1971 میں ’کراچی کے دفاع‘ کا وعدہ پورا نہ کیابھٹو کا وہ بیان جس کی وجہ سے جنرل ایوب کو سُبکی اٹھانی پڑی

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید عالمی خبریں

آسٹریلیا: سڈنی کے ساحل پر ’بڑی شارک‘ کے حملے میں ایک شخص ہلاک

خیبرپختونخوا: ’نازیبا ویڈیوز‘ بنانے والے ٹک ٹاکرز کے خلاف کریک ڈاؤن، خواتین سمیت 10 گرفتار

’دل کی گہرائیوں سے سراہتا ہوں‘، نریندر مودی کا صدر ٹرمپ کے ’مثبت‘ بیان پر ردعمل

امریکی جہازوں کو خطرے میں ڈالنے والے طیاروں کو ’مار گرائیں گے‘، صدر ٹرمپ کا وینزویلا کو انتباہ

امریکی نیوی کے جہازوں کو خطرے میں ڈالنے والے وینزویلا کے طیاروں کو مار گرائیں گے: صدر ٹرمپ کا انتباہ

سفارتی کامیابی اور مغرب کو دھمکی: پوتن کا یوکرین جنگ پر سخت موقف جو دباؤ کے باوجود برقرار رہا

لگتا ہے انڈیا اور روس کو کھو دیا ہے، چین کے ہو گئے ہیں: صدر ٹرمپ

پینٹاگون کا نام تبدیل: امریکی محکمہ دفاع محکمہ جنگ بن گیا

دریائے راوی انڈیا پاکستان کی 30 کلومیٹر طویل سرحدی باڑ بھی بہا لے گیا، کئی چوکیاں زیرِ آب

پاکستان کے ساتھ فضائی حدود کی بندش: انڈین ایئرلائن کو کروڑوں ڈالر کا نقصان

’مودی اچھے دوست ہیں، فکر کی کوئی بات نہیں‘: ٹرمپ کا یو ٹرن

جب چین کی شمولیت کے خدشے پر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے انڈیا اور پاکستان میں جنگ بندی کروائی

امریکا اور وینزویلا کے مابین کشیدگی میں اضافہ : واشنگٹن کا 10 ایف-35 لڑاکا طیارے پورٹو ریکو بھیجنے کا اعلان

جاپان میں سمندری طوفان نے تباہی مچا دی، ہائی الرٹ جاری

1965 کی جنگ: جب چین کی شمولیت کے خدشے پر امریکہ نے اقوامِ متحدہ کے ذریعے انڈیا اور پاکستان میں جنگ بندی کروائی

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی