’جج کو عبوری آرڈر کے ذریعے کام سے نہیں روکا جا سکتا‘: جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی امور نمٹانے سے روکنے کا فیصلہ کالعدم قرار


سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بینچ نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی امور نمٹانے سے روکنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کا حکم نامہ کالعدم قرار دے دیا ہے۔اس سے قبل پیر کے روز جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے اسی پانچ رکنی بینچ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کر دیا تھا۔منگل کے روز اس کیس میں ہونے والی سماعت کے دوران اٹارنی جزل منصور عثمان اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ایک جج کو عبوری آرڈر کے ذریعے جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا۔بینچ کے سربراہ جسٹس امین الدین خان نے ایڈووکیٹ میاں داؤد، جنھوں نے جسٹس جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری مبینہ طور پر جعلی ہونے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی تھی، سے استفسار کیا کہ اُن کی اس بارے میں کیا رائے ہے۔میاں داؤد کا کہنا تھا کہ ان کی بھی یہی رائے ہے کہ ایک جج کو جوڈیشل ورک سے نہیں روکا جا سکتا۔عدالت نے فریقین کا موقف سننے کے بعد جسٹس جہانگیری کی اپیل منظور کرتے ہوئے انھیں جوڈیشل ورک سے روکنے سے متعلق اسلام آباد ہائی کورٹ کا حکم کالعدم قرار دے دیا۔AFP via Getty Imagesجامعہ کراچی کے فیصلے کے خلاف جسٹس جہانگیری نے سندھ ہائی کورٹ سے رجوع کر لیا ہے۔دوسری جانب، جامعہ کراچی کے سنڈیکیٹ اور ان فیئر مینز کمیٹی کے فیصلے کے خلاف جسٹس جہانگیری نے سندھ ہائیکورٹ میں بھی درخواست دائر کر دی ہے۔جسٹس جہانگیری کی جانب سے بیرسٹر صلاح الدین عدالت میں پیش ہوئے اور استدعا کی کہ جامعہ کراچی کے 25 ستمبر کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا جائے۔سندھ ہائی کورٹ کے جج جسٹس اقبال کلہوڑو نے سوال کیا کہ ‎یہ کیس اُن کی بینچ کے سامنے کیوں لگا ہے؟ اس کے جواب میں بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ‎جامعات سے متعلق کیسز اسی بینچ کے روبرو مقرر ہوتے ہیں۔انھوں نے موقف اپنایا کہ ‎سپریم کورٹ کے کم از کم چار فیصلے ہیں کہ جامعات نوٹس کے بغیر ڈگری منسوخ نہیں کر سکتیں۔جسٹس اقبال کا کہنا تھا کہ ‎اسی نوعیت کی دیگر درخواستیں اسی ہائی کورٹ سے عدم پیروی کی بنا پر مسترد ہو چکی ہیں۔ انھوں نے سوال کیا کہ ‎کیا سپریم کورٹ میں بھی اسی نوعیت کی درخواست زیر سماعت ہے؟بیرسٹر صلاح الدین کا کہنا تھا کہ ‎سپریم کورٹ میں اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے جوڈیشل ورک سے روکنے کے معاملے کو چیلنج کیا گیا ہے۔جسٹس محمد عبدالرحمان کا کہنا تھا کہ کیا عدم پیروی پر مسترد ہوئی درخواستوں میں کوئی اپیل دائر ہوئی ہے اور پچھلی درخواستوں میں کیا استدعا تھی؟جسٹس جہانگیری کے وکیل نے بتایا کہ ’پچھلی درخواستوں میں سنڈیکیٹ کے فیصلے، ایف آئی اے کی انکوائری اور میڈیا پر پروپیگنڈا روکنے کی استدعا کی گئی تھی، اب ‎ہم نے جامعہ کراچی کا ڈگری منسوخی کا فیصلہ غیر قانونی قرار دینے کی استدعا کی ہے۔‘ان کا مزید کہنا تھا کہ ‎کراچی یونیورسٹی ایکٹ میں جامعہ کو ڈگری منسوخ کرنے کا اختیار نہیں دیا گیا۔ انھوں نے دعویٰ کیا کہ ‎اورنگی ٹاؤن کے رہائشی عرفان نامی شخص نے شکایت درج کروائی تھی، اس پورے معاملے کی بنیاد بدنیتی پر مبنی ہے۔بینچ میں شامل جسٹس محمد عبدالرحمان نے سوال کیا کہ ‎کیا قانون میں متاثرہ شخص کو سماعت کا موقع دینا ضروری ہے؟ اور ‎کیا قوانین میں انکوائری کے لیے کوئی مدت مقرر کی گئی ہے؟بیریسٹر صلاح الدین نے جواب دیا کہ ‎پنجاب یونیورسٹی کے قوانین میں ڈگری کے بعد تین سال تک انکوائری کی جا سکتی ہے۔عدالت نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے سماعت پانچ اکتوبر تک ملتوی کردی۔ضیاالحق کے دور میں ایک جج کی تعلیمی سند پر سوال اٹھایا گیا تھاپاکستان کی عدالتی تاریخ میں یہ دوسرا موقع ہے جب کسی جج کی تعلیمی سند پر سوال اٹھایا گیا ہے۔اس سے قبل سپریم کورٹ کے سابق جج صفدر شاہ کی انٹرمیڈیٹ کی ڈگری پر سوال اٹھایا گیا تھا۔فوجی آمر ضیا الحق کے دور میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو قتل کے ایک مقدمے میں سزا سنانے والے سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ میں جسٹس صفدر شاہ بھی شامل تھے۔ تاہم وہ ان اقلیتیججز میں سے ایک تھے جنھوں نے سابق وزیر اعظم کو قتل کے اس مقدمے میں بری کر دیا تھا۔جسٹس صفدر شاہ کی انٹرمیڈیٹ کی ڈگری کو لیکر یہ الزام عائد کیا گیا کہ انھوں نے انڈیا سے جو انٹر کا امتحان پاس کر کے جو ڈگری حاصل کی ہے وہ جعلی ہے۔ڈگری پر سوالات اٹھائے جانے کے بعد جسٹس صفدر شاہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوکر بیرون ملک چلے گئے تھے۔اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو نئے جج بابر ستار اور طارق جہانگیری کون ہیں؟اسلام آباد ہائیکورٹ کے چھ ججوں کا خط: عدلیہ پر اسٹیبلشمنٹ کے دباؤ کے الزامات کی حقیقت کیا ہے؟اسلام آباد ہائی کورٹ میں ججز کی تعیناتی کے خلاف درخواست مسترد: ’تبادلے کو نئی تقرری تصور نہیں کیا جا سکتا‘جسٹس طارق محمود جہانگیری کی جانب سے سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اپنایا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کا فیصلہ منصفانہ عدالتی ٹرائل کے منافی ہے۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم سے نہ صرف ان کی ساکھ کو نقصان پہنچا بلکہ بطور جج ان کی سٹینڈنگ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا ہے۔جسٹس جہانگیری کا درخواست میں کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے پاس ایسا کوئی اختیار نہیں ہے جس کے تحت وہ کسی جج کو جوڈیشل ورک سے روک سکیں۔درخواست گذار کا کہنا تھا کہ کسی بھی جج کو جوڈیشل ورک سے روکنے کا طریقہ ائین کے ارٹیکل 209 میں دیا گیا ہے اور یہ اختیار صرف سپریم جوڈیشل کونسل ہی استعمال کرسکتی ہے۔درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انھیں بطور جج جوڈیشل ورک کرنے کی اجازت دی جائے۔BBCجعلی ڈگری کا معاملہ کب منظر عام پر آیا؟دس جولائی سنہ 2024 میں اسلام آباد ہائی کورٹ میں وکیل میاں داود ایک درخواست دائر کرتے ہیں جس موقف اختیار کیا جاتا ہے انھیں جسٹس طارق محمود جہانگیری کی ایل ایل بی کی ڈگری سے متعلق کچھ ایسی معلومات ملی ہیں جس سے انھیں شک ہے کہ مذکورہ جج کی قانون کی ڈگری جعلی ہے لہذا اس معاملے کی تحققیات کروائی جائیں۔ اس درخواست پر رجسٹرار آفس کی جانب سے اعتراض لگایا جاتا ہے اور گیارہ جولائی کو اس وقت کے چیف جسٹس عامر فاروق اس درخواست پر لگائے گئے اعتراضات کی سماعت کرکے فیصلہ محفوظ کرلیتے ہیں۔ تاہم اس درخواست پر فیصلہ نہیں سنایا جاتا اور جسٹس عامر فاروق کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کردیا جاتا ہے۔ اس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے رجسٹرار نے یہ معاملہ موجودہ چیف جسٹس سرفراز ڈوگر کو بھیجا۔جسٹس جہانگیری کی جعلی ڈگری کو لے کر کچھ وکلا سندھ ہائی کورٹ میں رٹ دائر کرتے ہیں اور سندھ ہائی کورٹ اس پر سٹے ارڈر جاری کر دیتی ہے جس کے بعد اس وقت کی اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی قیادت بھی اس میں فریق بن جاتی ہے۔ ابھی سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے جاری کیا گیا حکم امتناع برقرار تھا کہ اس ہی دوران 22 ستمبر کوسندھ ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے ایک درخواست آتی ہے کہ جج صاحب کی ڈگری کو لے کر ہماری ساکھ کافی متاثر ہوئی ہے اس لیے حکم امتناع میں نہ صرف انھیں فریق بنایا جائے بلکہ اس معاملے کو جلد از جلد سماعت کے لیے مقرر کیا جائے۔سندھ ہائی کورٹ میں پہلے یہ درخواست 30 ستمبر اور پھر اس سماعت کی تاریخ 25 ستمبر مقرر کر دی جاتی ہے۔جسٹس طارق محمود جہانگیری اپنی ساتھی جج جسٹس ثمن رفعتکے ساتھ اس درخواست کے سماعت کے لیے اسلام آباد سے کراچی گئے اور انھوں نے سندھ ہائی کورٹ کی جج کے کے آغا کی سربراہی میں قائم دو رکنی آئینی بینچ کو اس درخواست میں فریق بننے کی استدعا کی۔ انھوں نے موقف اپنایا کہ چونکہ اس معاملے کا تعلق ان کی ڈگری سے ہے، اس لیے انھیں سنا جائے۔ تاہم عدالت نے یہ کہہ کر جسٹس جہانگیری کی درخواست کو مسترد کردی کہ پہلے زیر سماعت درخواست کے قابل سماعت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا اور اگر درخواست کو قابل سماعت ہوئی تو اس کے بعد ہی ان کا موقف سنا جائے گا۔ اس پر جسٹس جہانگیری اور کمرہ عدالت میں موجود وکلا نے احتجاج کیا اور عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کردیا۔بعد ازاں عدالت نے زیر سماعت درخواست کو عدم پیروی کی بنا پر خارج کر دیا۔AFP via Getty Imagesسندھ ہائی کورٹ کی جانب سے درخواست خارج کیے جانے کے بعد کراچی یونیورسٹی نے مذکورہ جج کی ڈگردی کے متعلق ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ اگست 2024 میں سنڈیکیٹ کے اجلاس میں طارق محمود کا ایل ایل بی کا انرولمنٹ نمبر 7124/87 اور سیٹ نمبر 22857 کو منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پریس ریلیز میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ جج پر تین سال کے لیے کسی بھی لا کالج میں داخلے اور یونیورسٹی کے کسی بھی امتحان میں بیٹھنے پر پابندی ہوگی۔کراچی یونیورسٹی کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں یہ دعوی بھی کیا گیا کہ جسٹس جہانگیری کبھی بھی اسلامیہ لا کاج کے سٹوڈنٹ نہیں رہے۔جسٹس طارق محمود جہانگیری کون ہیں؟جسٹس طارق محمود جہانگیری پاکستان تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں 28 دسمبر 2020 میںاسلام آباد ہائی کورٹ کے جج مقرر ہوئے۔ اس وقت اعلی عدلیہ میں ججز کی تعیناتی کے لیے قایم کیے گئے جوڈیشل کمیشن کے سربراہ اس وقت کے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد تھے۔جسٹس جہانگیری کی پروفائل کے مطابق، انھوں نے کراچی یونیورسٹی کے اسلامیہ لا کالج سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی تھی۔مسلم لیگ نواز کے دور میں اسلام آباد کے ایڈووکیٹ جنرل کے فرائض بھی انجام دے چکے ہیں جبکہ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں بطور ڈپٹی اٹارنی جنرل بھی رہے ہیں۔طارق محمود جہانگیری کو فوجداری معاملات میں مہارت حاصل ہے۔ وہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے خلاف ایل این جی ریفرنس میں ان کی وکالت کرتے رہے ہیں۔اسلام آباد ہائی کورٹ کا جج بننے کے بعد جسٹس طارق محمود جہانگیری اس تین رکنی بینچ کی سربراہی بھی کرر ہے تھے جس نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی مبینہ بیٹی ٹیریانسے متعلق دائر درخواست کو ڈس مس کردیا تھا۔ اس سے قبل اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے اس درخواست پر فیصلہ محفوظ کیا تھا جو سنایا ہی نہیں گیا اور بعد ازاں اس درخواست کو دوبارہ ری لسٹ کردیا گیا۔جسٹس جہانگیری اس وقت میڈیا میں خبروں کی زینت بنیں جب سنہ 2023 میں انھوں نے سابق وزیر اعظم عمران خان کو ان مقدمات میں بھی بلینکٹ پروٹیکشن دیتے ہوئے پولیس کو گرفتاری سے روک دیا جو اس وقت تک عمران خان کے خلاف درج بھی نہیں کیے گئے تھے۔ان کے متعلق وکلا برداری میں تاثر پایا جاتا تھا کہ وہ اعلی عدلیہ کے ان ججز میں شامل ہیں جو سپریم کورٹ کے سینئر جج منصور علی شاہ کے موقف کو درست تسلیم کرتے ہیں۔جسٹس طارق محمود جہانگیری اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان ججز میں بھی شامل ہیں جنھوں نے مارچ 2024 میں فوج کے خفیہ اداروں کی جانب سے عدالتی معاملات میں مداخلت سے متعلق اس وقت کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسی کو خطوط تحریر کیے تھے۔ ان ججز کی جانب سے لکھے گئے خطوط میں کہا گیا تھا کہ خفیہ اداروں کی جانب سے مبینہ طور پر نہ صرف عدالتی معاملات میں مداخلت کی جا رہی ہے بلکہ ان کی آمدورفت کے علاوہ ان کی ذاتی زندگی میں بھی مداخلت کی جارہی ہے۔خفیہ اداروں کی طرف سے مبینہ طور پر عدالتی معاملات میں مداخلت اور لاہور، سندھ اور بلوچستان ہائی کورٹس سے ججز کو اسلام آباد منتقل کرنے کے حکومتی فیصلے کو جب اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تو اس کے بعد سے جسٹس جہانگیری کو کسی اہم مقدمے کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بنایا گیا ہے۔اسلام آباد ہائیکورٹ میں سندھ اور بلوچستان سے ججوں کی منتقلی کیوں کی گئی اور اس سے کس کی سینیارٹی متاثر ہو گی؟جسٹس امین الدین: کیا آئینی بینچ کا سربراہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس سے زیادہ بااثر ہو گا؟آئی ایم ایف وفد کی چیف جسٹس پاکستان سے ملاقات: اندرونی معاملات میں مداخلت یا قرض معاہدے کی مجبوری؟شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کا فیصلہ کالعدم: اسلام آباد ہائی کورٹ کے سابق جج کون ہیں؟بینچ کی تشکیل کا تنازع اور سپریم کورٹ میں تقسیم: ’یہ اختلاف رائے نہیں، اختیارات کی جنگ ہے‘سپریم کورٹ کے ججز کے الاؤنس میں اضافہ: پاکستان میں ججوں کو تنخواہ کے علاوہ کیا مراعات ملتی ہیں؟قاضی فائز عیسیٰ: ’اینٹی اسٹیبلشمنٹ‘ جج جن کا دور سیاسی اور عدالتی تنازعات سے بھرپور رہا

 
 

Watch Live TV Channels
Samaa News TV 92 NEWS HD LIVE Express News Live PTV Sports Live Pakistan TV Channels
 

مزید پاکستان کی خبریں

آزاد کشمیر میں کوہالہ انٹری پوائنٹ بند، آمد و رفت متاثر

پیپلز پارٹی کے اراکین کی اپنی حکومت پر کھلی تنقید، سرفراز بگٹی کو خطرہ ہے؟

سمندر میں طغیانی کا خطرہ۔۔ کراچی میں آندھی اور گرج چمک کے ساتھ بارش کس وقت ہوسکتی ہے؟ محکمہ موسمیات نے اہم ہدایات جاری کردیں

شانگلہ: میکے سے واپسی پر 12 سالہ بچی کی ’زہر‘ کھا کر خودکشی، تفتیش شروع

شانگلہ: سسرال سے واپسی پر 12 سالہ بچی کی ’زہر‘ کھا کر خودکشی، تفتیش شروع

شانگلہ: 10سالہ کزن سے شادی پر 12 سالہ بچی نے زہر کھا کر زندگی کا خاتمہ کرلیا

’جج کو عبوری آرڈر کے ذریعے کام سے نہیں روکا جا سکتا‘: جسٹس طارق جہانگیری کو عدالتی امور نمٹانے سے روکنے کا فیصلہ کالعدم قرار

پنجاب کا اپنا پانی ہے نہریں نکالنے پر آپ کو اعتراض کیوں؟ مریم نواز نے پیپلز پارٹی کو نشانے پر رکھ لیا

کوئٹہ میں ایف سی ہیڈ کوارٹر کے نزدیک دھماکہ، سات افراد ہلاک، درجنوں زخمی

پاکستانی وزیر اعظم اور فیلڈ مارشل غزہ جنگ بندی کے مجوزہ منصوبے کی ابتدا سے ہمارے ساتھ ہیں، انھوں نے 100 فیصد اس کی حمایت کی: صدر ٹرمپ

اسرائیلی وزیر اعظم نے دوحہ حملے پر معافی مانگی اور آئندہ قطر کو نشانہ نہ بنانے کا وعدہ کیا ہے: قطر

ٹرمپ اور نتن یاہو کا غزہ کے لیے نئے امن منصوبے پر اتفاق، منتخب اسلامی ممالک تمام فریقن کے ساتھ مل کر کام کرنے پر راضی

راولپنڈی: ڈینگی کیسز میں اضافہ، 24 گھنٹے میں 17 مریض رپورٹ

متنازع ٹویٹ کیس: ایمان مزاری اور انکے شوہر پر فرد جرم عائد

وزیر مذہبی امور اور ویٹی کن سفیر کی ملاقات، بین المذاہب ہم آہنگی پر تبادلہ خیال

عالمی خبریں تازہ ترین خبریں
پاکستان کی خبریں کھیلوں کی خبریں
آرٹ اور انٹرٹینمنٹ سائنس اور ٹیکنالوجی