
لاہور کی کوٹ لکھپت جیل کے باہر جہاں دیواریں اونچی اور سلاخیں سخت ہیں وہیں ایک بوڑھا شخص محد علی ہر ہفتے اپنے اکلوتے بیٹے سے ملاقات کے لیے آتا ہے۔اس شخص کا کہنا ہے کہ ’ان کا بیٹا ایک عام مزدور ہے اور پولیس نے اس کو غلط فہمی کی بنیاد پر پکڑا ہوا ہے کیونکہ اس کے ساتھ والا شخص منشیات کا کاروبار کرتا تھا۔ یہ اکھٹے مزدوری کرتے تھے تو جب پولیس نے مخبری پر اسے پکڑا تو اس وقت یہ دونوں مزدوری پر تھے۔ اب عدالتیں ضمانت بھی نہیں دے رہیں۔‘یہ کہانی صرف ایک خاندان کی نہیں بلکہ پورے پنجاب کی ہے جہاں جیلوں کی دیواریں انسانی زندگیوں کی بھاری بوجھ تلے دبی ہیں۔ حال ہی میں یہ اعداد و شمار سرکاری طور پر سامنے آئے ہیں کہ صوبے کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد پہلی بار 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے جو گنجائش سے 88 فیصد زائد ہے۔ یہ صرف اعداد و شمار ہی نہیں بلکہ معاملہ انسانی حقوق کی پامالی کی طرف جاتا دکھائی دے رہا ہے۔پنجاب بھر کی 45 جیلوں میں کُل گنجائش صرف 38 ہزار 317 قیدیوں کی ہے مگر اس وقت 72 ہزار 117 قیدی موجود ہیں جن میں 70 ہزار مرد، 1360 خواتین اور 893 کم عمر قیدی شامل ہیں۔ گزشتہ دو ماہ میں سات ہزار کا ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جس نے صورتحال کو مزید سنگین بنا دیا ہے۔لاہور کی کیمپ جیل میں 2000 کی گنجائش کے باوجود 7200 قیدی بند ہیں جبکہ اڈیالہ جیل میں 2174 کی جگہ 8174 قیدی سانس لے رہے ہیں۔ لاہور کی دونوں جیلوں میں 4300 کی گنجائش کے مقابلے دس ہزار پانچ سو سے زائد قیدی موجود ہیں، جو اوور کراؤڈنگ کی شدت کو ظاہر کرتے ہیں۔کون سا جرم سب سے زیادہ ہوا؟ان اعداد و شمار سے بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ صوبے میں جرائم کی شرح بڑھ گئی ہے لیکن یہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔دراصل یہ معاملہ ایک قانون کی تبدیلی سے جڑا ہوا دکھائی دیا۔ گزشتہ برس یعنی 2024 میں پنجاب حکومت نے منشیات کے قوانین میں اہم تبدیلیاں کیں جو آج جیلوں کی اس بھرتی کی بنیادی وجہ بنی ہوئی ہیں۔صوبہ پنجاب کی جیلوں میں قیدیوں کی تعداد پہلی مرتبہ 70 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔ فوٹو: اے ایف پیکنٹرول آف نارکوٹک سبسٹینس ایکٹ2009 میں اس کی شق نواسی (سیکشن تھرٹی نائن) میں ترمیم کی گئی جس کے تحت منشیات کی مقدار کے حساب سے جرائم کو مزید سخت قرار دیا گیا۔ اب اگر کوئی شخص دو سو گرام سے زائد ہیروئن، مورفین یا دیگر خطرناک منشیات کے ساتھ پکڑا جائے تو یہ جرم ناقابل ضمانت سمجھا جاتا ہے۔اس سے پہلے ضمانت ملنے کا امکان ہوتا تھا لیکن اب عدالتوں کو مقدمے کی نوعیت، ملزم کی سابقہ تاریخ اور زیر ضمانت کی مقدار کو لازمی طور پر جانچنا پڑتا ہے۔ شق چالیس (سیکشن فورٹی) میں بھی اپیل کے نظام کو تیز کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ شق تیس (سیکشن تھرٹی ایٹ) اور چالیس (سیکشن فورٹی) میں خصوصی عدالتوں کی مداخلت بڑھا دی گئی تاکہ سماعت جلد ہو۔نتیجہ؟ منشیات کے ملزمان، جو اب سب سے بڑی تعداد میں جیلوں میں داخل ہو رہے ہیں ان کی ضمانت ہی نہیں ہو پا رہی۔ گزشتہ برس سے یہ رجحان شروع ہوا، اور آج منشیات کے مقدمات جیلوں کی اوور کراؤڈنیگ کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ترجمان محکمہ داخلہ پنجاب کا کہنا ہے کہ ایک سال میں منشیات کے قیدیوں اور ملزمان کی تعداد دو گنا ہو چکی ہے۔حکومت کی نئی جیلیں مسئلہ حل کر پائیں گی؟بظاہر محکمہ داخلہ پنجاب اس صورتحال سے بخوبی آگاہ ہے۔ ترجمان کے مطاب صوبے میں فی الحال 45 جیلیں ایکٹو ہیں جو گزشتہ برس 42 تھیں، تین جیلیں اس سال فعال ہوئی ہیں جبکہ چار مزید زیرِ تعمیر ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان زیرِ تعمیر جیلوں کو اب دو منزلہ بنایا جا رہا ہے تاکہ گنجائش میں اضافہ کیا جا سکے۔ لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی میں خواتین کی الگ جیلیں بھی تعمیر ہو رہی ہیں، جو کل ساڑھے چھ ہزار قیدیوں کے لیے اضافی جگہ فراہم کریں گی۔منشیات کے قانون میں تبدیلی کے بعد ملزمان کو ضمانت ملنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ فوٹو: اے ایف پیپنجاب حکومت نے ایک حالیہ اجلاس میں پانچ ارب روپے محفوظ جیل منصوبے کے لیے منظور کیے ہیں جو جیلوں کی نگرانی کو بہتر بنائے گا۔ تاہم حالیہ رپورٹس میں جیل حکام نے واضح کیا ہے کہ موجودہ بیرکس میں ہی قیدیوں کو ایڈجسٹ کیا جا رہا ہے اور اوور کراؤڈنگ کی وجہ سے بیماریوں میں اضافے کا خدشہ ہے۔لیکن کیا نئی جیلیں ہی واحد حل ہیں؟ ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ جسٹس فار پیس کی سربراہ سارہ بلال کہتی ہیں کہ جیلوں میں اوور کراؤڈنگ کو دور کرنے کے لیے معمولی جرائم کے قیدیوں کو پیرول پر رہا کرنا چاہیے۔’جیلوں کا زیادہ بنانا صرف عارضی راحت ہے، اصل حل ضمانت کے قوانین میں نرمی اور پیرول کی سہولت ہے۔‘انسانی حقوق کے کارکن محمد شعیب کے مطابق 2020 میں کورونا کے دوران، پنجاب نے سات ہزار قیدیوں کو ضمانت پر رہا کیا تھا جس سے جیلوں کا بوجھ نمایاں طور پر کم ہو گیا تھا، آج بھی اگر منشیات کے چھوٹے مقدمات میں ضمانت کی راہ کھولی جائے تو ہزاروں خاندان متاثر ہونے سے بچ سکتے ہیں۔