
بنگلہ دیش میں عدالت نے جبری گمشدگیوں اور مختلف جرائم کے مقدمات میں نامزد بنگلہ دیشی فوج کے 15 افسران کو گرفتار کر کے جیل بھیجنے کا حکم دیا ہے۔فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق یہ پہلا موقع ہے کہ بنگلہ دیش میں جبری گمشدگیوں کے باضابطہ الزامات عائد کیے گئے ہیں اور پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں فوجی افسران کو ایک سول عدالت میں مقدمے کا سامنا ہے۔ ان افراد میں پانچ جنرلز بھی شامل ہیں جن پر سابق وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے دورِ حکومت میں ایک خفیہ حراستی مرکز چلانے کا الزام ہے۔یہ تمام افسران یا تو بنگلہ دیشی فوجی انٹیلی جنس میں خدمات انجام دے چکے ہیں یا پھر نیم فوجی دستے ریپڈ ایکشن بٹالین کا حصّہ رہے ہیں۔فوج نے کہا ہے کہ وہ عدالتی کارروائی میں تعاون کرے گی تاہم جب سے رواں ماہ عدالت نے گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے ہیں، صورتحال کشیدہ ہے۔ چیف پراسیکیوٹر تاج الاسلام نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ ’انہوں نے ملک کے قانون کی پاسداری اور عدالتی عمل کے احترام کا اظہار کیا ہے۔ یہ اُن کے تعاون سے ظاہر ہوتا ہے جو انہوں نے فراہم کیا۔‘بنگلہ دیش ان سابق عہدیداروں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جو شیخ حسینہ اور ان کی کالعدم عوامی لیگ پارٹی سے وابستہ تھے (فوٹو: اے ایف پی)اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ وولکر تُرک نے 15 اکتوبر کو ایک بیان میں کہا کہ عدالتی عمل احتساب کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ ’یہ متاثرین اور ان کے اہلِ خانہ کے لیے ایک اہم لمحہ ہے۔‘افسران کو ایک قیدی وین کے ذریعے عدالت لایا گیا جس کی سکیورٹی کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات تھی۔بنگلہ دیش ان سابق اعلیٰ عہدیداروں کے خلاف کارروائی کر رہا ہے جو شیخ حسینہ واجد اور ان کی کالعدم عوامی لیگ پارٹی سے وابستہ تھے۔ یاد رہے کہ بنگلہ دیش کی سابق وزیراعظم شیخ حسینہ اس وقت انڈیا میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہی ہیں۔اقوامِ متحدہ کے مطابق جولائی سے اگست 2024 کے درمیان حکومت مخالف مظاہروں کو ’کچلنے کی کوشش‘ کے دوران سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں تقریباً 1,400 افراد ہلاک ہوئے تھے۔